احمد شھزاد قاسمی
آر ایس ایس اور اس کی معاون تنظیمیں بشمول بی جے پی وشیو سینا وشو ہندو پریشد بجرنگ دل شری رام سینا ہندو جن جاگرتی سمیتی ہندو یوا واہنی وغیرہ اپنی تقریروں وتحریروں میں جس شدت پسندی و نفرت انگیزی اور دشنام طرازی کا مظاہرہ کرتی ہیں اسے دیکھ کر اسے دیکھ کر اطالوی سیاست داں اور ادیب ” نکولائی میکیاولی” کاپانچ سو سال قبل ایجاد کردہ وہ نظریہ ذہن میں گھوم جاتا ہے جس کی رو سے کسی بھی سیاسی مقصد کے حصول کے لئے کسی بھی برے سے برے ذریعے کو اختیار کر نا جائز ہے اور کسی بھی اقتدار کے حصول کے لئے اور اس کو برقرار رکھنے کے لئے دھوکہ عیاری دو رخی، زمانہ سازی، چال بازی، دل شکنی، منافقت، مکاری، آئین کا مذاق، قانون کی دھجیاں ضد اور ہٹ دھرمی وغیرہ سے کام لیا جاسکتا ہے۔
ہندو تو وادیاں نہ صرف اپنی تقریروں و تحریروں سے بلکہ عملی اقدامات سے بھی ثابت کر چکی ہیں کہ وہ ” نکولائی ” کی جانشین اور روحانی اولاد ہیں؛ مودی سرکار کی تشکیل اور وزارت سازی کے بعد اس نظریہ میں مزید شدت پیدا ہوگئ پورے ملک نے دیکھا کہ 2014 کے بعد گؤ رکشکو ں کی فوجِ ظفر موج ایسی نمودار ہوئی کہ اسکی زد میں آکر درجنوں مسلمان اپنی جان کھو چکے اور جانور کی حفاظت کے نام پر انسانوں کے بے رحمانہ قتل کا یہ کھیل ابھی تک جاری ہے لوجہاد کا منفی پروپیگنڈہ کر کے ملک کو ایک خاص رنگ میں رنگنے اور مخصوص سمت لے جانے کی مہلک سعی گھر واپسی مہم مسلم آبادی کے اضافہ کی منفی مہم رام مندر کا شوشہ یہ سب چیزیں اس بات کی دلیل ہے کہ ہندوتو کے نمائندے نظریہ میکیاولیت کے علم ردار ہیں حالانکہ لو جہاد کے حوالے سے جو کچھ کیا اور کہا گیا وہ سراسر دھوکہ فریب اور تخریبی عمل ہے لوجہاد اور اور گھر واپسی جیسی وقتی اور جذباتی مہم کے ذریعے اکثریت کو نفسیاتی خوف میں مبتلا کر کے اور پھر اسی ڈر کی نفسیات اٹھاکر کہتے ہیں کہ مسلمان اپنی تعداد بڑھانے میں لگے ہوئے ہیں ایک وقت آئے گا کہ ہندو اقلیت میں آجائیں گے اور مسلمان اکثریت میں آکر اپنا راج قائم کر کے ہندوؤں کو اپنا غلام بنا لیں گے ان تمام مہمو اور من گھڑت اصطلاحوں کو وزیر اعظم نریندر مودی کی خاموشی بلکہ خاموش تائید سے تقویت ملتی رہی ہے ظاہر ہے کہ اس کے پیچھے آبادی کے ایک بڑے حصہ کو اپنے ساتھ کھڑا کر نے کی غلط سعی اور منفی سوچ ہے
سوال یہ ہے کہ حکومت کے ذریعے مسلمانوں کے مذہبی معاملات می دخل اندازی اور انکے مذہبی معاشرتی نظام کو نشانہ بنانے کے پیچھے کیا مقاصد کار فرما ہیں آخر بی جے پی کی کیا منشا ہے کہ اس نے تین طلاق کے موضوع کو مضبوطی سے پکڑ رکھا ہے پہلے عدلیہ میں اس معاملہ کو لیکر گئے اور اب لوک سبھا میں طلاقِ ثلاثہ سے متعلق تضاد اور نقائص سے بھر پور ایسا بل پاس کیا جس کی رو سے کوئی بھی مرد اپنی بیوی کو تین طلاق دینے کے جرم میں تین سال کی جیل اور جرمانہ کا مستحق ہوگا، بادی النظر میں تو اس سوال کا جواب بھی یہی ہے کہ یہ اصل مسائل سے توجہ ہٹانے اور انتخابی فوائد حاصل کر نے کا حر بہ ہے تاہم سنگھیوں کی منصوبہ بندی کے پسِ منظر میں اگر جائیں تو معلوم ہوگا کہ یہ صرف سیاسی فوائد حاصل کر نے کا شوشہ نہیں ہے بلکہ یہ اس تحریک کا حصہ ہے جسکے تحت ملک کو ہندو اسٹیٹ بنانے کے لئے کسی بھی حد سے گزرا جا سکتا ہے یہ مسلمانوں کی شناخت کو ختم کر کے اکثریت میں ضم کر نے کا ایک منصوبہ بند عمل ہے۔
حکومت مسلم خاتون کی جس مظلومی کا رونا رو رہی ہے اور اپنے خیال میں اسکو انصاف دلا نے کی دعوے دار ہے اگر وہ اپنے دعوے میں دیانت دار اور ایمان دار ہو تی تو تو اس کو طلاق اور اس کے متعلقات کو سمجھنے کے لئے واقف حال علما اور اسلامی فکر کے حامل دانشوروں کو طلب کر کے اسلام کے اس معاشرتی قانون کی افادیت اور آفاقیت کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہئے تھی اگر ایسا ہوتا تو حکومت مسلم پرسنل لا کو ختم کر نے کی بجائے اسے نافذ اور عمل میں لانے کی ضرورت محسوس کرتی لیکن حکومت نے جس عجلت اور چالاکی سے اس بل کو پاس کرایا ہے اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ نریندر مودی اور انکے ساتھی مسلم دشمنی اور ہندو راشٹر کے راستے پہ اس تیزی سے دوڑ رہے ہیں کہ ان کے ہانپنے کانپنے کی آواز پوری دنیا سن رہی ہے۔
مسلمانوں کی سیاسی قوت کے انتشار اور سیکولر پارٹیوں کی منافقت سے حکومت کے عزم وارادہ میں اضافہ اور ایقان و اطمینان میں پختگی ہو رہی ہے،
حکومت کو اس کے رویہ سے باز رکھنے کے لئے سب سے پہلے اپنی سیاسی قوت کو مجتمع کر نا ہوگا، اس کے ساتھ ساتھ اس کے ہندو وادی چہرہ کو بے نقاب کر کے ملک وقوم کے سامنے یہ بات رکھنی ہوگی کہ حکومت جس ہندو راشٹر کا خواب دیکھ رہی ہے وہ ہندوستان میں ممکن ہے یا نہیں؟ ظاہر ہے کہ ہندوستان جیسے کثیر جہتی ملک میں ایک قوم ایک قانون جیسی باتیں ممکن نہیں ہے سب آدمی ایک طرح کا لباس ایک طرح کا کھانا اور ایک طرح کا کلچر نہیں اپنا سکتے لیکن حکومت اس کی آڑ میں مسلم پرسنل لا پر ضرب لگا تی رہے گی اربابِ حکومت سنگھ پریوار اور اسکے حامی دانشوران کوئی بھی اس بات کا جواب نہیں دے سکتا کہ ملک میں ہندو راشٹر کیسے ممکن ہے ضرورت اس بات کی ہے کہ ایسے افراد تیار کئے جائیں اور سامنے لائے جائیں جو اس بات کو مدلل اور علمی انداز میں پیش کر سکیں۔
وقت رہتے یہ کام کرنا ہوگا ورنہ آئندہ دوسرے عائلی قوانین بھی حکومت کے تعصب اور عتاب کا اسی طرح شکار ہوتے رہیں گے جس کی سنگھیوں نے منصوبہ بندی کر رکھی ہے
رگ وپے میں جب اترے زہرِ غم تب دیکھئے کیا ہو!
ابھی تو ……… تلخیِ کام و دہن کی آزمائش ہے





