کانگریس مکت بھارت کی جانب بڑھتے قدم

ڈاکٹر تسلیم احمد رحمانی
اتراکھنڈ میں بھی صدر راج نافذ کردیا گیا ہے۔ اس کے بعد عدالتی کار روائی شروع ہو گئی طویل عدالتی کار روائی کے بعد اب معاملہ ۶ اپریل تک ملتوی ہو گیا ہے ۔ اس سے قبل اروناچل پردیش میں بھی صدر راج نافذ کیا گیا تھا۔ دونوں جگہ ایک ہی جیسے حالات رونما ہوئے۔اروناچل پردیش میں کانگریس کی سرکار تھی جس کے 11ممبران اسمبلی نے استعفیٰ دے کر ابھی دو ماہ قبل ہی بی جے پی میں شمولیت اختیار کرلی تھی۔جس کے نتیجے میں حکومت اقلیت میں آگئی اور آخر کار ایک بڑے سیاسی ڈرامے کے بعد وہاں صدر راج نافذ کردیا گیا۔مرکزی حکومت کے اس فیصلے کو عدالت میں چیلنج کیا گیا اور وہاں معاملہ ابھی زیر التوا ء ہے۔ بالکل انہیں خطوط پر اترانچل میں بھی کانگریس کی ہریش راوت سرکار کے 9؍اراکین اسمبلی نے بغاوت کا علم بلند کیااور اسمبلی میں مالیاتی بل کے خلاف صوتی ووٹ میں حصہ لیا جس سے حکومت اقلیت میں آگئی۔ہرچند کہ ریاست کے وزیر اعلیٰ کا یہ دعوی ہے کہ ان کی حکومت اقلیت میں نہیں ہے اور وہ ایوان میں اپنی اکثریت ثابت کرسکتے ہیں اور اس کے لئے ریاست کے گورنر نے انہیں 28مارچ تک کا وقت بھی دے دیا تھا۔عین ممکن تھا کہ 27کانگریسی ممبران اسمبلی اور 2 بی ایس پی ایم ایل اے نیز چار دیگر ارکان اسمبلی کے تعاون سے ہریش راوت ایوان میں اکثریت ثابت کرلیتے لیکن اس سے چند گھنٹے قبل ہی مرکزی کابینہ نے ریاست میں صدارتی راج نافذ کرنے کی سفارش کردی اور 27مارچ کی دوپہر تک صدر جمہوریہ نے اس سفارش کو قبول کرتے ہوئے ریاست میں صدر راج نافذ کردیا۔حالانکہ دونوں ریاستوں میں ابھی اسمبلی کو توڑا نہیں گیا ہے اور اس بات کا قوی امکان موجود ہے کہ اگلے کسی مرحلے میں کچھ خرید فروخت ،جوڑ توڑ کے ساتھ بی جے پی ان ریاستوں میں حکومت سازی کرلے۔مذکورہ دونوں ریاستوں کے علاوہ دیگر کچھ ریاستوں میں بھی کانگریس کی چنی ہوئی سرکارو ں پر تلوار لٹکی ہوئی ہے۔ مثلاً ہماچل پردیش کے وزیر اعلیٰ ویر بھدر سنگھ نے بنا کچھ ہوئے ہی اعلان کردیا ہے کہ ان کی سرکارکو کوئی خطرہ نہیں ہے۔جبکہ یہ وہی وزیر اعلیٰ ہیں جن کے اوپر آمدنی سے زائد اثاثہ جات رکھنے کے الزام میں مقدمہ چل رہا ہے۔حد یہ ہے کہ ان کی گرفتاری کسی وقت ممکن ہے۔ اسی طرح منی پور میں بھی کانگریسی سرکار کے اوپر خطرات کے بادل مڈلارہے ہیں اور اگر کرناٹک میں بی جے پی کے دونوں دھڑے متحد ہوجاتے ہیں تو وہاں بھی سرکار گرانے کی قواعد کامیابی ہوسکتی ہیں۔ واضح رہے کہ اس وقت ملک کی سات ریاستوں میں کانگریس کی حکومت موجود ہے۔ جن میں آسام اور کیرل بھی شامل ہیں۔ جہاں اگلے ہی ماہ انتخابات ہونے جارہے ہیں اور ہر دو جگہ کانگریس کی حالت نازک ہے۔ایسے میں باقی بچی پانچ میں سے تین ریاستیں بھی بی جے پی کی زد پر ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ 2016کے اندر ہی ملک کی تمام ریاستوں میں سے کانگریس کا اقتدار ختم ہوجائے گا۔جبکہ بی جے پی کی حکومت سردست آٹھ ریاستوں بشمول راجستھان، مہاراشٹر، مدھیہ پردیش، جھارکھنڈ، ہریانہ، گجرات، گوا اور چھتیس گڑھ میں موجود ہیں۔اروناچل اور اتراکھنڈ ملا کر ان کی تعداد دس ہوجائے گی۔ملک کی دیگر 17 ریاستوں میں ہر جگہ الگ الگ علاقائی پارٹیوں کی سرکاریں موجود ہیں۔جن میں جموں وکشمیر میں بی جے پی مخلوط حکومت کی شریک ہونے جارہی ہے۔قابل غور پہلو یہ ہے کہ ہرایک علاقائی پارٹی کی حکومت بس ایک ہی ریاست تک محدود ہے اور مذکورہ پارٹیوں میں زیادہ تر تقریباً سبھی پارٹیاں کسی نہ کسی موقع پر بی جے پی کی حلیف رہ چکی ہیں۔موجودہ سیاسی منظر نامہ ذہن میں رکھ کر بی جے پی کے کانگریس مکت بھارت بنانے کے انتخابی وعدے کو یاد رکھنا چاہیے۔2014لوک سبھا انتخاب کے وقت وزیر اعظم نریندر مودی نے تقریباً ہرایک انتخابی ریلی میں یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ ملک کو کانگریس مکت بھارت میں تبدیل کردیں گے۔لوک سبھا کے انتخابی نتائج نے کانگریس کو ایک زور دار جھٹکا دیا اور آزادی کے بعد پہلی مرتبہ کانگریس کو اتنی کم یعنی محض 44سیٹوں پر اکتفا کرنا پڑا۔حیرت ناک بات یہ ہے کہ 1977میں ایمرجنسی کے فوراً بعد ہونے والے چھٹّی لوک سبھا کے انتخابات میں بھی کانگریس کو اس قدر شرمناک ہار کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا اور اس وقت اس پارٹی کو 151سیٹیں ملی تھیں۔تمام جنوبی ریاستوں میں اس نے قابل قدر کامیابی حاصل کی تھی۔ اسی طرح آسام اور دیگر شمال مشرقی ریاستوں میں بھی کانگریس کی سیٹیں متأثر نہیں ہوئی تھیں صرف بہار، اترپردیش، اڑیسہ،دلی ،ہریانہ ،پنجاب جیسی شمالی ہندوستان کی ہندی بیلٹ والی ریاستوں میں جے پرکاش نارائن تحریک کے زیر اثر کانگریس کا صفایا ہوگیا تھا۔بقیہ ملک میں کانگریس مضبوطی کے ساتھ کھڑی رہی تھی۔اسی وجہ سے شاہ کمیشن کے رد عمل کے طور پر کانگریس ایک ملک گیر تحریک کھڑی کرنے میں کامیاب ہوپائی اور آخر کار 295سیٹیں رکھنے والی مرارجی دیسائی کے زیر قیادت جنتا پارٹی کی مضبوط سرکار کو گرانے میں کامیاب ہوکر نئے انتخابات کروانے میں بھی کامیاب ہوگئی تھی اور محض 28مہینے کے اندر دوبارہ حکومت پر قابض ہوگئی ہے اور جنتا پارٹی کا وجود تتر بتر ہوگیا ۔یہاں یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ آزاد ہندوستان کی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا جب جے پرکاش نارائن کی تحریک نے آر ایس ایس کے نظریہ کو قبولیت عطا کرتے ہوئے اپنے ساتھ شریک کیا تھا اور ملک بھر میں آر ایس ایس اور جن سنگھ سے عوام کی دوری کافی حد تک کم ہوئی تھی۔مگر اسی جن سنگھ کی وجہ سے جنتا پارٹی ٹوٹی اور اس کی حکومت گرگئی۔کیونکہ جن سنگھ دوہری رکنیت کے معاملے پر اڑتے ہوئے آر ایس ایس سے علاحدگی پہ آمادہ نہیں تھی اور جان بوجھ کر اپنی ہی مخلوط سرکار کو گرا کر اس وقت کانگریس کو دو بارہ اقتدار میں آنے کا موقع دیا تھااور پھر اسی وقت 6اپریل 1980کوبی جے پی قائم کردی گئی۔اس بی جے پی کے کانگریس مکت بھارت کے نعرے کو اس سیاسی پس منظر میں بہت سنجیدگی سے لئے جانے کی ضرورت ہے۔
قارئین کو یاد ہوگا کہ 2004کے لوک سبھا انتخابات میں کانگریس کی جیت کے بظاہر کوئی آثار نہیں تھے اور انڈیا شائنننگ کے نعرے کے ساتھ اٹل بہاری واجپئی کی قیادت میں پرمود مہاجن نے انتہائی شاندار اعلیٰ تکنیکی انتخابی تحریک چلائی تھی۔ اس وقت کے بڑے بڑے سیاسی پنڈت بھی یہ ماننے کو تیار نہیں تھے کہ این ڈی اے دوبارہ اقتدار میں نہیں آئے گا۔اسی مہم سے متأثر ہوکر ہی خود مسلمانوں کے ایک طبقے نے اٹل بہاری حمایت کمیٹی بنا کر بڑے بڑے مسلم دانشوروں کو بی جے پی سے جوڑ دیا تھاحتی کہ دلی کے شاہی جامع مسجد کے امام بھی اس رو میں بہہ گئے تھے۔ لیکن انتخابی نتائج نے ان تمام قیاسات کو غلط ثابت کرکے پورے ملک کو ورطہء حیرت میں ڈال دیا تھا۔یہ یاد رکھنا چاہیے کہ سیاست میں کوئی نتیجہ اچانک برآمد نہیں ہوتا بلکہ اس کے پیچھے کچھ خاص عوامل کار فرما ہوتے ہیں اور کچھ مخصوص گروہ بہت خاموشی کے ساتھ کسی دوسری سمت میں کام کررہے ہوتے ہیں دراصل انہی مخفی گروپوں کی وجہ سے جمہوریت میں عوامی رائے متاثر ہوا کرتی ہیں۔ جس کے مظاہر وقتاً فوقتاً دیکھنے کو ملتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ 2014بی جے پی کی کامیابی محض پارٹی کی چکا چوند کرنے والی انتخابی مہم کا حصہ نہیں ہے بلکہ در پردہ انتخابی حکمت عملیوں کا نتیجہ ہے ۔ بی۔ایس ۔پی کو یو پی میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل ہوئے مگر سیٹ ایک بھی نہیں ملی یہ ایک خاص انتخابی حکمت عملی کا نتیجہ تھا۔ خود کانگریس پارٹی کے بڑے بڑے لیڈروں کے کانگریس مخالف بیانات ،فرقہ وارانہ خطوط پر ووٹوں کو تقسیم کرنے والے اعلانات اور کمزور انتخابی مہم سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ کانگریس نے پھولوں کی تھالی میں رکھ کر بی جے پی کو حکومت پیش کی۔اس سارے تناظر میں کانگریس مکت بھارت کا نعرہ بہت معنی خیز لگتا ہے ۔ انتخابات کے بیس مہینے بعد ہی یہ نعرہ حقیقت سے قریب تر ہوتا چلا جارہا ہے۔ایک طرف لوک سبھا میں پارٹی باقاعدہ حزب اختلاف تک کا درجہ حاصل کرنے میں ناکام رہی ۔ یکے بعد دیگرے پارٹی ریاستی سرکار وں سے ہاتھ دھوتی چلی جارہی ہے اور ان تمام حرکات میں کسی اور کا قصور نہیں خود پارٹی کے ہی ارکان اسمبلی اور بڑے بڑے لیڈران پارٹی کو چھوڑ کر بی جے پی میں شریک ہورہے ہیں۔ اترانچل میں ریاست کے سابق وزیر اعلیٰ اور سات پشتوں سے کانگریسی رہے وجے بہو گنا کا پارٹی کے خلاف بغاوت کرنا اور کھلے عام بی جے پی کی حمایت کرنا صاف ظاہر کرتا ہے کہ کانگریس مکت بھارت کا یہ نعرہ کس قدر تیزی سے شرمندہ تعبیر ہوسکتا ہے۔پانچ ریاستی اسمبلیوں کے حالیہ انتخابات میں بھی اس بات کا قوی امکان ہے کہ کانگریس شکست سے دوچار ہوجائے۔ ان انتخابات میں آسام اور کیرل میں کانگریس کی سرکاریں ہیں اور سیاسی پنڈتوں کا قیاس یہ ہے کہ اے جی پی اوربوڈو پیپلز فرنٹ کے ساتھ مل کر بی جے پی حکومت سازی کے بہت قریب پہنچ سکتی ہے۔جبکہ کانگریس کے پاس یہ موقع تھا کہ وہ یو ڈی ایف اور دیگر چھوٹی پارٹیوں کے ساتھ مل کر بہار کی طرز پر ایک مہاگٹھ بندھن بنا سکتی تھی۔ جو بہار ہی کی طرز پر بہت کامیاب ہوسکتا تھا کیونکہ ریاست میں 34فیصد مسلم ووٹ یک مشت اس گٹھ بندھن کے ساتھ ہوتے علاوہ ازیں ریاست کے پانچ فیصد عیسائی اور کچھ دیگر قبائل بھی اس کٹھ بندھن کے ساتھ ہی جاتے ۔ مگر کانگریس نے نامعلوم وجوہات اور نادیدہ اسباب کے تحت بہار کا یہ تجربہ آسام میں دوہرانے سے انکار کردیا جس سے صاف ظاہرہوتا ہے کہ خود کانگریس بھی آسام میں اپنے جیت کے لئے بہت کوشاں نہ ہوکر شمال مشرق کی اس سب سے بڑی ،سب سے مخدوش اور سب بڑی مسلم آبادی والی ریاست میں بی جے پی کی راہ ہموار کررہی ہے۔اسی طرح کیرل میں بھی پچھلے انتخابات میں بی جے پی کو ایک سیٹ پر کامیابی مل چکی ہے اور اس مرتبہ ووٹوں کی تعداد میں اضافے کا امکان ہے اور کانگریس کا اندرونی خلفشار اس کی شکست کی جانب ڈھکیل رہا ہے۔
حالات اگر ایسے ہی رہے تو2016کے اندر ہی بی جے پی کانگریس مکت نعرے کو ایک سچائی میں تبدیل کردے گی۔سوال یہ ہے کہ خود کانگریس اعلیٰ کمان اور پارٹی میں موجود ذمہ دار لیڈران کیا اس تمام صورتحال سے ناواقف ہیں اور اگر نہیں ہیں تو آخر کن وجوہات کی بنا ء پر اتنی بڑی پارٹی بی جے پی کو اتنی طاقت دے رہی ہے۔ ہم بار بار اپنے کالموں میں لکھتے رہے ہیں کانگریس کا قیام ہی در اصل ملک میں ہندو راشٹر کی راہ ہموار کرنے کی غرض سے ہوا تھا ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گذشتہ ستر سال کی حکمرانی کے دوران کانگریس اپنا یہ فرض منصبی مکمل کرچکی ہے اور اب آر ایس ایس کے زیر قیادت باقاعدہ ہند وراشٹر کی تشکیل اور اعلان کے لئے فضا ساز گار ہوچکی ہے۔جس میں کانگریس کی مزید اب کوئی ضرورت باقی نہیں رہی۔ممکنہ طور پر سیاست کا آئندہ منظر نامہ یہ ہوگا کہ مرکز میں بی جے پی ایک قومی پارٹی کی حیثیت سے تنہا اسی طرح موجود رہے جس طرح 1977 سے پہلے کانگریس تھی جس کا قومی سطح پر کوئی مد مقابل نہ تھا اور ملک میں اسی نظریے کے حامل 10،15علاقائی پارٹیاں بھی موجود رہیں جو اپنی اپنی ریاستوں میں تو حکمراں رہیں مگر مرکز میں حزب اختلاف کا رول انجام دیتی رہیں۔
2017میں اترپردیش اسمبلی انتخابات کے فوراً بعد کانگریس پارٹی ایک بڑی اندرونی تقسیم کا شکار اگر نہ بھی ہوئی تو اس بات کا قوی امکان موجود ہے کہ پارٹی کے بڑے بڑے اعلیٰ ذات لیڈر بڑی تعداد میں پارٹی چھوڑ کر بی جے پی میں شریک ہوجائیں گے اور ان کی قیادت میں 2019کی لوک سبھا انتخابی مہم شروع ہوجائے گی۔اس سارے منظر نامے میں ملک کے 15 فیصد مسلمان کوئی رول ادا کرنے میں بظاہر تو موثرنظر نہیں آتے لیکن اگر مسلم اکابرین کو کانفرنسوں ،میٹنگوں اور ایک دوسرے کے خلاف سازشوں سے فرصت مل جائے تو اس صورتحال کو بدلنے کی حکمت عملی نا ممکن بھی نہیں ہے۔(ملت ٹائمز)
(مضمون نگار مسلم پولیٹیکل کونسل کے صدر ہیں

SHARE