سنگھی میڈیا، مسلمان مہرے یا پھر احساس کمتری

چاہت محمد قاسمی 

شطرنج کی بساط بچھی ہوئی ہے، چال چلی جارہی ہے، اور مسلمان جانے انجانے میں مہرے بنے ہوئے ہیں، اب اسی بساط پر چلی گئی ایک چال یہی دیکھ لیجیے کہ سنگھی میڈیا کسی مسلمان کے ذريعہ کسی بھی ادارے سے کسی موضوع پر فتوی حاصل کرتا ہے، اس کو شائع کرتا ہے اور پھر مسلمان بے چارے احساس کمتری کا شکار فورا مہرہ بن جاتے ہیں، آپس میں بحث و مباحثہ شروع ہوجاتا ہے گالی گلوچ تک پر اتر آتے ہیں، بالکل بازاری زبان استعمال کی جانے لگتی ہے اور جو لوگ اس موضوع کا علم بھی نہیں رکھتے ہیں اور جنہیں فقہ کی الف بے تے بھی معلوم نہیں ہوتی ہے وہ بھی علما پر کیچڑ اچھالنے لگتے ہیں، ان کو الگ الگ طرح کے مشوروں سے نوازنے لگتے ہیں۔
یہ مسلمان بے چارے سنگھی بساط پر مہرے سے زیادہ کی وقعت نہیں رکھتے ہیں، وہ سمجھ ہی نہیں پاتے ہیں کہ آخر اس فتوے کو شائع کیوں کیا گیا ہے؟ اس فتوے کی اشاعت سے میڈیا کا مقصد کیا ہے؟ اور اس خبر کو پڑھوا کر سنگھی میڈیا ہم سے کیا چاہتا ہے؟
ایک مرتبہ اللہ کے نبیﷺ نے کسی وجہ سے قسم کھالی تھی کہ میں شہد نہیں کھاؤں گا فورا اللہ نے قرآن نازل فرمایا اور نبی سے کہا ( ترجمہ) اے نبیﷺ جس چیز کو اللہ نے آپ کے لیے حلال کردیا ہے اس کو آپ حرام کیوں کرتے ہیں؟ (سورت نمبر 66 آیت نمبر1) اب آپ ہی بتائے جب اللہ تعالی نے نبیﷺ کو کسی چیز کے حلال و حرام کرنے کا اختیار نہیں دیا تو پھر ہم، تم یا کوئی مولوی مفتی کس کھیت کی مولی ہیں؟
یہ بات جان لینی چاہیے کہ جب کوئی مفتی فتوی دیتا ہے تو وہ خود فقہی اصول کے مضبوط بندھن سے بندھا ہوا ہوتا ہے، وہ اس میں اگر اپنی خواہش داخل کرے گا یا حق کو باطل کے ساتھ ملانے کی کوشش کرے گا تو پھر اس کا حال بھی علمائے یہود سے جداگانہ نہیں ہوگا، علمائے یہود عوام کی خواہش کے مطابق فتوی دیتے تھے، کچھ باتیں چھپالیا کرتے اور کچھ باتیں اپنی طرف سے مِلالیا کرتے تھے، اسی لیے اللہ تعالی نے ان سے فرمایا تھا (ترجمہ) حق کو باطل کے ساتھ نہ ملاؤ اور سچی بات کو جان بوجھ کر نہ چھپاؤ (سورت 2 آیت 42) اب ہماری حالت بھی یہود جیسی ہی ہوتی جارہی ہے اور ہم میں سے بہت سے لوگ چاہتے ہیں کہ فتاوی بالکل ان کی مرضی کے مطابق ہونے چاہیے کچھ خواہشات ہوں، کچھ کتمان ہو اور کچھ خلط ملط باتیں ہوں۔
جو لوگ علما کو ڈرانے، دھمکانے اور دبانے کی کوشش کرتے ہیں شاید وہ تاریخ کو فراموش کر بیٹھے ہیں یا پھر وہ تاریخ سے نادان نابلد اور ناواقف ہیں وہ بھول گیے کہ علما نے تو سنگینوں کے سائیوں، گولیوں کی بوچھاروں اور تختہ دار پر بھی حق اور سچ شریعت کی روشنی میں بیان کیا ہے تو پھر کسی کے دباؤ میں حرام کو حلال کیسے کہا جاسکتا ہے۔
فتوی دینے والا مفتی اپنا فتوی فقہ اصول فقہ کی روشنی میں لکھتا ہے، یعنی پچھلے تقریبا چودہ سو سال سے بندھے ٹکے اصولوں کے مطابق فتوی دیا جاتا ہے اگر کسی نے ان اصولوں سے سرمو بھی انحراف کیا ہے تو وہ گمراہ کہلایا ہے، انہیں اصولوں کے دائرے میں فقہ و مسائل کی کتابوں میں مسئلے لکھے ہوئے ہیں اور نہیں کی چہار دیواری میں علما مقید ہیں اور کسی حال میں بھی ان اصولوں کے دائرۂ کار سے نکلنے کی کوشش بھی نہ کی جانی چاہیے۔ رہی بات زمانہ جدید اور حالات حاضرہ کے مطابق فقہی مسائل کو مستنبط کرنے کی وہ بھی فقہی اصولوں کے اعتبار سے ہی مستنبط ہوتے ہیں ایسا نہیں ہے کہ جناب اس کو اٹھاؤ جائز اور حلال میں ڈالو اور اس کو لو ناجائز اور حلال میں ڈالدو، ایسا نہیں ہے، بلکہ سبھی مسائل کو اصولوں کی کسوٹی پر پرکھ کر احکام جاری کیے جاتے ہیں۔
خیر یہ بات تو بہت سے لوگ جانتے ہیں لیکن پھر بھی عقل کے گھوڑے دوڑاتے ہیں، اِن کے بارے میں تو میں صرف اتنا ہی کہوں گا کہ جہاں تک میں سمجھتا ہوں ایسے لوگ سنگھ کی جانب سے بچھائی گئی شطرنج کی بساط پر مہرے ثابت ہورہے ہیں۔ یا پھر وہ احساس کمتری کا شکار ہیں کہ جہاں کوئی مسکرایا انہیں لگتا ہے کہ ہمارا مذاق بنایا ہے اور جہاں دو لوگوں نے ذرا سی سرگوشی کی انہیں لگتا ہے کہ ہمارے بارے میں کچھ بات کی ہے بالکل اسی طرح جب سنگھی میڈیا کسی بات پر اعتراض کرتا ہے تو وہ یہ ثابت کرنے میں لگ جاتے ہیں کہ جناب ہمارے علماء صحیح نہیں ورنہ ہم تو اچھوں سے زیادہ اچھے ہیں۔