کپل سبل
طلا ق ثلاثہ بل ” مسلم خواتین ( ازدواجی زندگی کے حقوق کا تحفظ ) بل “ ایوان زیریں ( لوک سبھا) میں پیش کردیا گیا۔ یہ بل 28 دسمبر کو لوک سبھا میں منظور ہوا تھا۔ سرکار نے جس افرا تفری میں اس بل کو تیار کیا ہے اس سے بی جے پی کی بدنیتی صاف جھلکتی ہے۔ طلاق ثلاثہ بل کو لوک سبھا میں پاس کرتے ہوئے وقت بھارتیہ جنتا پارٹی کے کئی لیڈروں نے ہاؤس میں، ہاؤس سے باہر میڈیا بریفنگ میں بار بار اس بات کا حوالہ دیا کہ ملک کے سپریم کورٹ نے ایک مرتبہ میں تین طلاق کے نفاذ کو کالعدم قرار دیا ہے اس لے یہ بل مسلم خواتین کے مفاد میں لیا جارہا ہے۔ یہ سمجھنا ضروری ہے کہ سپریم کورٹ نے اس معاملہ میں کیا کہا گیا ہے۔
سپریم کورٹ نے کہا کیا؟۔
آئے پہلے دیکھتے ہیں کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ کیاہے۔ طلاق ثلاثہ سے متعلق سپریم کورٹ کے پانچوں ججوں کی بنچ نے تین مختلف فیصلے دئے ہیں۔ جسٹس آر ایفنریمن او رجسٹس یویوللت نے ایک مرتبہ میں تین طلاق پر فیصلہ سناتے ہوئے کہاکہ یہ خودسری میں کیا گیا ظالمانہ علم ہے۔ اس لئے اسے غیرائینی قرار دیتے ہوئے کالعدم قرار دیا جاتا ہے۔ جسٹس جے ایس کھیہر اور جسٹس عبدالنظیر نے فیصلہ سناتے ہوئے کہاکہ ایک مرتبہ میں تین طلاق کاعمل مسلم سماج میں گذشتہ 1400 برسوں سے رائج ہے اور یہ مسلمانوں کی شرعیت کا اٹوٹ حصہ بن چکا ہے ‘ اس وجہ سے اس عمل کو بنیادی حقوق کی بات کرکے ختم نہیں کیا جاسکتا۔ مذکورہ دونوں قابل ججوں نے اپنے فیصلے میں یہ بھی کہاکہ طلاق ثلاثہ دنیا کے مختلف ممالک میں غیر قانونی قرار دیا جاچکا ہے اور یہ عمل اسلام میں بھی غیرمناسب ہے۔
ساتھ ہی آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے بھی کہاکہ وہ طلاق ثلاثہ کو روکنے کی کوشش کریں گے ‘ اس لئے سماج سے طلاق ثلاثہ کو ختم کرنے کی کوشش ہونی چاہئے۔ مذکورہ دونوں ججوں نے ایک مرتبہ میں تین طلاق کے عمل پر چھ مہینہ کے لئے پابندی عائد کرتے ہوئے پارلیمنٹ کو اختیار دیا کہ وہ اس سلسلہ میں قانون بنائے پ ان دنو ں ججوں نے یہ بھی کہاکہ اگر پارلیمنٹ اس سمت میں قانون بنانیہ کے لئے اقدام اٹھاتی ہے تو ایک مجلس کی تین طلاق پر قانون سازی پوری ہونے تک پابندی لگی رہے گی۔ طلاق ثلاثہ پر سماعت کرنے والی بنچ کے پانچویں جج جسٹس نریمن او رجسٹس للت کے فیصلہ سے عدم اتفاق کیا۔ جسٹس کورین نے کہاکہ مسلمانوں کے عائلی قانون ( مسلم پرسنل لاء ) کی کسی بھی دفعات کو من مانا اور غیرائینی کہہ کر ختن نہیں کیا جاسکتا ہے۔
تاہم انہو ں نے جسٹس کھیہر اور جسٹس عبدالنذیر کی بات سے عدم اتفاق رکھتے ہوئے کہاکہ ایک مجلس کی تین طلاق خود شریعت میں گناہ ہے او رقرآن سے ثابت نہیں ہے اس لئے اسے مسلم پرسنل لائ کا حصہ نہیں مانا جاسکتا۔ جسٹس کورین نے ایک مجلس کی تین طلاق کو کالعدم قراردیا لیکن انہو ں نے پارلیمنٹ میں قانون سازی سے اتفاق نہیں کیا۔ اس طرح پانچ رکنی بنچ کے تین ججوں جسٹس نریمن ‘ جسٹس للت اور جسٹس جوزیف نے اگرچہ مختلف وجوہات سے ایک مجلس کی تین طلاق کو کالعدم قراردے دیا ‘ لیکن ان تینوں ججوں نے قانون سازی کے لئے نہیں کہا۔
مگر ہماری سرکار نے سپریم کورٹ کے اقلیتی فیصلے یعنی دوججوں جسٹس کھیہر اورجسٹس نذر کو نوٹس میں لیتے ہوئے قانون سازی کا عمل جلد بازی میں شروع کردیا جبکہ حکومت اس قان سازی کی پابند نہیں تھی۔حکومت مجوزہ طلاق ثلاثہ بل کے تین اہم عناصر (۱) ایک مجلس کی تین طلاق چاہئے وہ کسی بھی طریقہ سے مسلم مرد کے ذریعہ دی جائے وہ کالعدم ہے (۲) تین طلاق دینے والے مسلم کو مجرمانہ سزا دی جائے گی (۳) یہ جرم قابل سماعت اور یہ غیرضمانتی بھی ہے۔ حکومت نے قانون سازی کرتے وقت اپنے ذہن و دماغ کا استعمال نہیں کیا ہے کیونکہ جب سپریم کورٹ ایک عمل کو کالعدم قرار دے چکا ہے تو اسے قانون سازی کے ذریعہ دوبارہ کالعدم قراردینے کی ضرورت کیاتھی۔
اگر یہ قانون نہ بھی بنایا جاتا تو ایک مجلس میں تین طلاق کالعدم اور غیر قانونی ہی تھیں۔ دراصل حکومت کی نیت قانون سازی کی نہیں بلکہ طلاق ثلاثہ کو دیوانی معاملہ کے خانہ سے نکال کر مجرمانہ معاملہ بنانے کی ہے۔
موجودہ بل کے خطرات
سپریم کورٹ کے ججوں کے فیصلہ میں کہیں بھی طلاق ثلاثہ کو مجرمانہ عمل نہیں قرار دیا گیا ہے لیکن حکومت نے اپنے اس بل میں طلاق ثلاثہ کو مجرمانہ عملی اور اس کی سخت سزا مقرر کرکے مسلم مردوں کو نشانہ بنانے کی اپنی بدنیتی کا صاف مظاہرہ کردیا ہے۔
اب مسلمانوں ایک دیوانی معاہدہ توڑنے پر سزا کا حقدار ہوگا جبکہ نکا ح کوئی مجرمانہ عمل نہیں ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ مرکزی حکومت صرف انتخابی فائدہ کے لئے یہ قدم اٹھارہی ہے اسے لگتا ہے کہ مسلمانوں کو ٹارگٹ کرنے سے ان کا ووٹ پولرائز ہوگا۔
حکومت اپنے اس بل کے ذریعہ ان خواتین کی آنکھوں کو آنسوؤں سے بھر رہی ہے جن کی شادیوں تو برقرار رہیں گی لیکن ان کے خاوند جیل کی سلاخوں میں بند ہوں گے۔
(مضمون نگار سابق مرکزی وزیر اور سپریم کورٹ کے سینئر ایڈوکیٹ ہیں )





