مدارسِ اسلامیہ کی جدید کاری …

سوال یہ ہے کہ مدارس کے حدودِ اربعہ کو کون طے کرے؟
مدثر احمد قاسمی
جدید ہندوستان میں جہاں ہر طرف تمام تر کوتاہیوں کے باوجودعصری علوم کے تعلیمی مراکزمیں تعلیمی ترقی کی بات ہورہی ہے، اعلیٰ ٹکنالوجی میں عالمی معیار پر کھرا اترنے کی کوششیں ہورہی ہیں اور سب سے بڑھ کر تعلیمی میدان میں یکساں مواقع فراہم کرنے کی بات ہورہی ہے وہیں ملک کے طول و عرض میں پھیلے لاکھوں مدارس کی جدید کاری کی بھی بات زوروں پرہے۔ لیکن اس اہم مسئلہ پر علمائے کرام اور دانشورانِ عظام کے درمیان جدید کاری کے تصور میں واضح فرق موجود ہے۔ معزز علماء جہاں زمانۂ حال کے تقاضوں کے مطابق مدارس کے موجودہ نصاب میں ایک حد تک حذف و اضافے کی وکالت کرتے ہیں وہیں جدید تعلیم یافتہ دانشورانِ مدارس کو جدید ٹکنالوجی سے مکمل طور پر ہم آہنگ کرنے کی بات کرتے ہیں۔
اہم سوال یہ ہے کہ مدارس اسلامیہ کی جدید کاری کے حدودِ اربعہ کو کون طے کرے؟ وہ حضرات جنہوں نے مدارس سے تعلیم حاصل کی اور فراغت کے بعد اسی تعلیمی نظام سے جڑ گئے یا وہ افراد جو عصری اداروں کے فیض یافتہ ہیں اور اسی سلسلہ کی خدمت پر مامور ہیں یا دونوں اداروں سے تعلیم یافتہ ہیں اور ان میں سے کسی ایک جگہ تعلیمی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ اس سوال کا آسان جواب یہ ہے کہ مدارس کے حل و عقد ہی مدارس کے نصاب تعلیم میں جدید تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے ضروری ترمیم کے پابند ہیں، ہاں یہ بھی ناگزیر ہے کہ عصری علوم اور جدید ٹکنالوجی کے ماہرین سے مشاورت کی جائے تاکہ وہ اپنے تجربات کی روشنی میں مفید مشوروں سے نوازیں جس کے نتیجے میں ایک جامع نصاب تیار ہوسکے۔ یہاں یہ بات بھی ذہن نشیں رہے کہ مدارس کی جدید کاری کا مطلب مدارس کو قطعاً اسکول بنانا نہیں ہے کیونکہ ہر دو تعلیمی نظام کے مقاصد و منافع الگ الگ ہیں۔ اسلامی نقطۂ نظر سے جہاں مدارس اسلامیہ کا مقصد دین اسلام کی ترویج و اشاعت اور حفاظت ہے وہیں عصری دانش گاہوں کا مقصد دنیاوی ضرورتوں اور تقاضوں کو پورا کرنا ہے۔
یہاں ایک مشترکہ امر یہ ہے کہ ہر پسِ منظر کے لوگ مدارس میں جدید کاری کی وکالت کرتے نظر آتے ہیں گرچہ درونِ خانہ اس مہم کے پیچھے الگ الگ مقاصد کار فرماہیں۔ یہاں ہم اس کی تفصیل میں نہ جاتے ہوئے مدارس اسلامیہ کی جدید کاری کی عملی تصویر پیش کرنے کی کوشش کریں گے۔
1 ـ مدارس کے موجودہ نصابِ تعلیم کو معمولی حذف و اضافہ کے ساتھ برقرار رکھتے ہوئے اس میں کچھ عصری مضامین جیسے انگلش زبان، ریاضی اور سائنسی مبادیات کو شامل کرلیا جائے اور اس کا ایسا خاکہ تیار کیا جائے کہ دیگر مضامین میں کمزوری آئے بغیر طالب علم زینہ بزینہ انگریزی بولنے اور لکھنے پر قادر ہوجائے، ریاضی کے اصولوں سے آشنا ہوجائے اور ان کے لئے سائنسی علوم کے در وا ہو جائیں۔ اگر اس ترتیب کو عملی شکل دے دی گئی تو یہ مدارس کے مقاصد کے حصول میں ایک اضافی کامیاب قدم ہوگا اور فراغت کے بعد طلباء عصری دانشگاہوں کے چکر کاٹنے سے بچ بھی جائیں گے۔ مجھے یہاں اس حقیقت کا اعتراف کر لینے دیجئے کہ بہت سے مدارس میں پہلے سے ہی یہ مضامین داخلِ نصاب ہیں لیکن وہ نصاب برائے نصاب ہے اس کا خاطر خواہ فائدہ طالب علم کو نہیں پہونچ پاتا۔
2 ـ کچھ معزز علمائے کرام کا یہ کہنا بھی درست ہے کہ ہم شرعی علوم میں ماہر بنانا چاہتے ہیں اسی وجہ سے عصری علوم کے اضافے سے ہم طلبا کو شرعی علوم میں کمزور نہیں دیکھنا چاہتے۔ یہ نیت مستحسن ہے کیونکہ ہمیں ایسے علماء کی بھی ضرورت جو شریعت کے اسرار و رموز سے کما حقہ واقف ہوں۔ ایسے مدارس کو عصری علوم کو نصاب میں داخل کرنے کے لئے مجبور نہیں کیا جاسکتا۔
یہاں ہم یہ واضح کردیں کہ بلا استثناء تقریباً ہندوستان بھر کے مدارس میں ابتدائی درجوں میں عصری علوم پڑھائے جاتے ہیں یہاں بحث وسطیٰ اور علیا درجے کی ہے۔ ایسے مدارس جہاں وسطیٰ اور علیا درجوں میں عصری علوم نہیں پڑھائے جاتے ، ان مدارس میں طلباء کو متعینہ نصاب اس طرح پڑھایا جائے کہ وہ جملہ علوم و فنون میں ماہر ہوجائیں اس کے بعد ان میں سے کچھ طلباء انگریزی زبان و ادب اور کمپیوٹر کی تعلیم ایسے ادارے سے حاصل کرلیں جہاں علمائے کرام کے لئے خاص کورس تیار کئے گئے ہیں۔ اس کے لئے فضلائے مدارس مر کز المعارف ایجوکیشن اینڈ ریسرچ سینٹر کے ذریعہ تیار شدہ دو سالہ ڈپلوما ان انگلش لینگویج اینڈ لٹریچر جیسے کورس میں داخلہ لے سکتے ہیں، جس کے ہندوستان بھر میں درجن بھر سے زائد سینٹرز موجود ہیں۔ فضلائے مدارس بحمد اللہ جملہ علوم اسلامی میں پوری دسترس رکھتے ہیں اور بجا طور پر امت کی ہمہ جہت قیادت اور رہنمائی کا فریضہ انجام دینے کے اہل ہیں۔ اس طرح کے کورس کا مقصد ان کی افادیت کو دو چند کرنا اور علماء کو دورِ جدید کے چیلنجوں کو قریب سے دیکھنے اور عصری اسلوب و آہنگ میں ان کا جواب دینے کا اہل بنانا ہے۔
3 ـ یہاں یہ بات ذہن نشیں رہے کہ جب ہم علمائے کرام کے لئے اعلیٰ عصری علوم کی بات کرتے ہیں تو اس سے مراد تمام نہیں بلکہ چند منتخب فضلاء ہوتے ہیں۔ علماء کے لئے انگریزی زبان کا سیکھنا وقت کی ایک ضرورت ہے جسے ہمارے اکابرین نے سو سال پہلے ہی محسوس کرلیا تھا۔ تاریخ دارالعلوم دیوبند کے مطابق ۱۳۱۸؁ھ ہی میں دارالعلوم دیوبند کی مجلسِ شوریٰ نے اس قرار داد کو منظوری دی تھی کہ یہاں کے فضلاء کو وظیفہ دیکر انگریزی تعلیم حاصل کرنے کے لئے یونیورسیٹی بھیجا جائے گا اور انٹر پاس و گریجویٹ طلبا ء کو وظیفہ دیکر یہاں عربی کی تعلیم دی جائے گی۔ لیکن مالیات کی عدم فراہمی کی وجہ سے اس وقت اس کام کو انجام نہیں دیا جاسکا۔
اس لئے کچھ چنیدہ فارغینِ مدارس یونیورسیٹیوں کا بھی رخ کر سکتے ہیں لیکن اس کے لئے سب سے پہلی اور ضروری شرط یہ ہے کہ اپنی وضع قطع اور اسلامی تشخص کو برقرار رکھیں کیونکہ آپ یونیورسیٹیوں میں کچھ کھونے نہیں بلکہ کچھ پانے جاتے ہیں تاکہ جدید علوم سے آراستہ ہوکر عصر حاضر کے چیلنجوں کو بخوبی سمجھ سکیں اور مثبت و تعمیری انداز میں ان کا مقابلہ کرنے کے اہل ہوسکیں، اب اگر آپ اپنے تشخص سے سمجھوتا کرلیتے ہیں تو آپ اپنے مقصد سے یقیناً بھٹک جائیں گے جس کی آپ کو کوئی بھی اجازت نہیں دے سکتا۔
4 ـ مدارس اسلامیہ کی جدید کاری کا ایک پہلو یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہاں پڑھائے جانے والے مضامین کو جدید اسلوب میں پڑھایا جائے اور اس کے لئے جدید ٹکنالوجی کا بھی استعمال ہو۔ مثال کے طور پر اساتذہ کرام ہر سبق کے لئے تحریری طور پر ” لیسن پلان ” بنائیں اس کے مطابق سبق پڑھائیں اس کا ایک بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ طلباء ہر مضمون کو سمجھ کر پڑھیں گے اور اس مضمون کی باریکیوں سے آگاہ ہو جائیں گے۔ اسی طریقے سے تاریخ اور تاریخی مقامات کو سمجھانے کے لئے پروجیکٹر کا استعمال کیا جاسکتا ہے، اس کی افادیت سے بھی کسی کو انکار نہیں ہوسکتا۔
5 ـ حکومت کی جانب سے بھی مدارس کی جدید کاری کی بات آتی رہتی ہے اور کوششوں کی بھی آواز سنائی دیتی ہے، لیکن کئی وجوہات سے سرکاری کوششیں قابل قبول نہیں ہیں، جن وجوہات کو اوپر کی سطروں سے سمجھا جا سکتا ہے۔ اگر حکومت مدارس کی جدید کاری کے تئیں سنجیدہ ہے تو صرف ان مدارس کی ہی اصلاح کرلے جو یوپی، بہار، بنگال، آسام اور دیگر کچھ صوبوں میں حکومت کے ماتحت چلائے جارہے ہیں جو ہر اعتبار سے انتہائی خستہ حال ہیں۔
اگرچہ مدارس میں پڑھنے کا مقصد سرکاری ملازمت حاصل کرنا نہیں ہے لیکن ملک و قوم کی خدمت کی نیت سے سرکاری ملازمت حاصل کرنا بھی ایک مثبت قدم ہے۔ فضلائے مدارس اسکول، کالج، یونیورسیٹی ( اردو، فارسی اور عربی مضامین میں ) اور دیگر کچھ سرکاری محکموں میں بہترین خدمت انجام دے سکتے ہیں، اگر حکومت مدارس کی جدید کاری کے تئیں سنجیدہ ہے تو ملک کے مؤقر مدارس کے اسناد کو منظوری دیکر مزید یونیورسیٹی میں تعلیم حاصل کئے بغیر فضلائے مدارس کو انٹرویو کی بنیاد پر ملازمت کا اہل قرار دے۔
خلاصہ یہ ہے کہ مدارس کی جدید کاری کوئی عقدہ لاینحل نہیں ہے جس کے لئے ہم صبح و شام واویلا مچائیں، بس علمائے کرام اپنی ذمہ داری نبھائیں جیسا کہ نبھاتے آرہے ہیں، دانشوران عظام اپنا حق ادا کریں اور حکومت کا جو کردار ہے وہ اداکرے۔ خوش آئند پہلو یہ ہے کہ اوپر مذکور معروضات کو عملی جامہ پہنانے کی کوششیں جاری ہیں۔ دعا ہے کہ امت کے حق میں جو بہتر ہو خدا تعالیٰ اس کی طرف ہماری رہنمائی فرمائے۔ آمین یا رب العالمین
( مضمون نگار مرکز المعارف ممبئی کے تحت چلنے والے دوسالہ ” ڈپلوما ان انگلش لینگویج اینڈ لٹریچر ” کورس کے قومی کو آرڈینیٹر ہیں)

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں