بھارت کا قد پستہ کرنے کی کوشش
احمد شہزاد قاسمی
آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت جی کا بھارت ماتا کی جے بولنا ہر ہندوستانی کو سکھانے والا متنازع بیان اور اسکے جواب میں آل انڈیا مجلس اتحادالمسلمین کے قومی صدر اور حیدرآباد سے ممبر پارلیمنٹ بیرسٹر اسد الدین اویسی کے جارح مگر خود داری وخود اعتمادی سے بھرپور بیان کا واقعہ اگرچہ ایک معنی میں پرانا ہوگیا لیکن اس پر لکھنے بولنے اور تبصروں کا سلسلہ بہر حال اب بھی جاری ہے اس لئے ا س میں چند سطروں کا اضافہ بعد از وقت نہیں ہوگا ۔
سب سے پہلے اویسی کے ردِ عمل پر ہمارا تاثر یہ ہیکہ یہ ایک خاص رخ سے قابلِ تحسین وآفرین ہے اس لئے کہ اویسی صاحب نے ایک جمہوری اور سیکولر اسٹیٹ میں آ ئین وقانون کا حوالہ دیتے ہوئے کہ وطن سے اظہارِ محبت کرنے کے لئے ہمارے پاس بہت سے الفاظ واصطلاحات ہیں لھذا ہم ان الفاظ واصطلاحات کے محتاج نہیں جو ہمارے مذھبی عقائد سے متصادم ہونے کے ساتھ ساتھ ایک مخصوص تھذیب وکلچر کی نمائندگی کرتے ہیں ۔ملک کے سیکولر دستور کا تقاضہ بھی یہی ہے کہ ہر شخص اپنے اپنے طریقہ سے محبت کا اظہار کرنے میں آزاد ہے کسی پر کوئی مخصوص نعرہ مسلط نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی کسی خاص اصطلاح کو حب الوطنی اور قومیت کا معیار قرار دیا جا سکتا ۔
اویسی صاحب نے اسی دستوری حق کی بات کی کہ میڈیا سمیت متعدد افراد نے انکی تنقیص وتعریض اور ٹانگ کھینچنے کا ذمہ اپنے سر لے لیا ،جمہوریت کی اپنی بہت سی خصوصیات ہیں مثلا اظہارِ رائے کی آزادی عدل وانصاف میں شہری حقوق میں بلا تفرق مذہب وملت مساوات اور ترقی کے یکساں مواقع وغیرہ ان سب حقائق کے ساتھ ساتھ جمہوریت کا یہ بھی ایک پہلو ہے کہ جمہوریت میں دستوری مساوات کے با وجود عملا اقتدار اکثریت ہی کے ہاتھ میں آتاہے اور اقتدار کی عام فطرت کے مطابق اکثریت ملک کے تمام معاملات کا اجارہ دار بھی اپنے آپ ہی کو سمجھنے لگتی ہے اور اقتدار کے خزانوں کی چابی کی بھی اکثریت ہی مالک ہوتی ہے اس لئے اس کے ذہن کی مخالفت وموافقت کو کلی طور پہ نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
مگر یہ موافقت ایک حد تک ہی ٹھیک ہو سکتی ہے، کھلی ہوئی غلامی اور کمتری کی پوزیشن اس کے لئے اختیار نہیں کی جا سکتی اکثریت کے ذہن کی موافقت ان معاملات میں تو کی جا سکتی ہے جو ہمارے مذہبی عقائد اور ایمانیات سے نہ ٹکراتے ہوں ہاں اگر مذہبی معاملات میں بھی انکے نظریات کی رعایت کی جائے تو یہ ایک کھلی ہوئی کمتری اور بدترین غلامی ہے ،اگر ہم اس پوزیشن میں ہیں کہ اکثریت کی خوشنودی کے پیشِ نظر اور اکثریت کی بارگاہ سے حب الوطنی کی سند حاصل کر نے کے لئے اپنے عقائد وایمانیات کو بھی قربان کردیں تو حبِ وطن کا شریف لفظ ہمیں اپنی زبان پر نہیں لانا چاہئے بلکہ حاکم ومحکوم آقاوغلام کا رشتہ تسلیم کر کے آقاؤں سے وفاداری کی بات کرنی چاہئے۔ بیرسٹر اویسی نے اسی بات کی وضاحت کی ہے کہ ہمارے دین وایمان سے ٹکرانے والا نعرہ ہمیں قبول نہیں اگرچہ اکثریت کے افراد ان نعروں کو حب الوطنی اور قوم پرستی کا معیار کیوں نہ بنالیں ہم پہ بنیاد پرست اور دقیانوسیت کا لیول ہی کیوں نہ لگا لیجےء لیکن ہم اکثر یت کی بارگا میں حب الوطن اور قوم پرست ہو نے کے لئے اپنے عقائد سے سمجھوتہ نہیں کر سکتے اور یہ بڑی شرمندگی اور تنگ نظری کی بات ہے کہ ایک ایسے ملک میں جو عالمی سطح پر جمہوریت اور سیکولرازم کے حوالہ سے ایک منفرد مقام بنائے ہوئے ہیں ، اقلیتوں کو خوف وہراس اور احساس وبے چارگی میں مبتلا کر نے کے لئے کبھی انکے کھانے کو نشانہ بنایا جاتاہے کبھی انکی تعلیم گاہو ں پہ آنچ آتی ہے کبھی انکے مذہبی عقائد کو پامال کرنے کی کوشش کی جا تی ہے آخر ایسا کیوں ہوتا ہے۔ سیکولر مزاج مفکرین ودانشوران کا خیال یہ ہے کہ حکومتیں اپی ناکامی پہ پردہ ڈالنے کے لئے اس طرح کے بیانات کو سہارا دیتی ہیں جس سے عوام کا ذھن اصل مسائل سے ہٹ کر فرقہ واریت میں الجھا رہے ،موھن بھاگوت پروین توگڑیا ساکشی مہاراج یوگی آدتیہ ناتھ سادھوی پراچی اور اشوک سنگھل جیسے لوگو ں کی مسلما نوں کو باربار پاکستان بھگانے کی بات کرنا لو جھاد گھر واپسی اور بیف کے معاملہ پر سیاست کرنا اسی پالیسی کا حصہ ہے،اس معاملہ میں کانگریس پارٹی بی جے پی سے مختلف نہیں ہے، ایک طرف تو کانگریس حزب اقتدار کا رول ادا کرتے ہوےء حزبِ اقتدار پہ یہ الزام عائد کرتی ہے کہ حکمراں جماعت تمام جمہوری اداروں کا گلا گھونٹ نے پہ تلی ہوئی ہے، دوسری طرف بھارت ماتا کی جے نہ بولنے پر مہاراشٹر اسمبلی میں ایم آئی ایم کے رکن وارث پٹھان کو اسمبلی کی کارروائی میں حصہ نہ لینے کی تجویز پیش کرکے بی جے پی کے ساتھ ملکر خود جمہوریت کا گلا گھونٹ کر اپنی فرقہ پرستی کا ثبوت دے رہی ہے مہاراشٹر اسمبلی میں مجلس کی نمائندگی دو ارکان پر مشتمل ہے جسمیں سے ایک رکن کو معطل کرکے مجلس کی پچاس فیصد نمائندگی کو ختم کر دیا گیا جو ہماری جمہوریت کے لئے انتہائی شرم کی بات ہے اب اسکے بعد کانگریس کے پاس کوئی جواز نہیں رہ گیا کہ وہ بی جے پی پہ جمہوری اداروں کو قتل کرنے کا الزام عائد کرے، رہی ہماری وطن سے محبت کی بات اور اسکے لئے الفاظ وتراکیب کا استعمال تو معمولی عقل رکھنے والا انسان بھی یہ بات جانتا ھے کہ کسی چیز سے جب انتہاء محبت ہوتی ھے تو محبت کرنے والا اپنی محبت کے اظہار کیلےء کسی مخصوص نظریہ کے الفاظ کا پابند نہیں ہوتا ہمیں اس ملک سے محبت ھے اسکو بیان کرنے کے لئے ہمارے پاس ہندوستان زندہ باد جے ہند اور میرا بھارت مہان جیسے عظیم الفاظ ہیں ہمارے خیال سے جو لوگ حب الوطنی کو بھارت ماتا کی جے تک محدود کرتے ہیں وہ بھارت کے قد کو پستہ کرتے ہیں کیونکہ اس سے واضح طور پہ یہ پیغام جاتاھے کہ وطن سے اظہارِ محبت کے لئے ہندوستان کے پاس صرف ایسے الفاظ ہیں جو وہاں کی اقلیت کے بنیادی مذھبی عقائد کے منا فی ہیں اگر ہم اسی پہ مصر رہیں تو یہ پوری دنیا میں …ہماری تنگ نظری کا سببب بنے گی ۔
الفاظ کے پیچوں میں الجھتے نہیں دانا
غواص کو مطلب ہے گوھر سے نہ صدف سے
موھن بھاگوت جی نے اگرچہ اپنا بیان واپس لے لیا اور اس بات کی وضاحت کر دی کہ بھارت ماتا کی جے بولنا کسی پر تھوپا نہیں جانا چاہئے۔ بھاگوت جی کے اس یو ٹرن کو حالیہ اسمبلی انتخابات کے تناظر میں دیکھا جارہا ھے اس سے قبل بہار الیکشن کے موقع پہ بھی بھاگوت جی نے ریزرویشن کے تعلق سے متنازع بیان دیا تھا جس کا خمیازہ بی جے پی کو بھگتنا پڑا تھا لیکن بات ان لوگوں کی ھے جو موہن بھاگوت کی حمایت میں کود پڑے تھے اور اویسی کے حق پہ ہو نے کے باوجود ان پہ لعن طعن کر رھے تھے ،خاص طور سے وہ لوگ جو نام سے تو مسلمان اور عملا ملحد وبے دین ہیں کیا بھاگوت کی طر ح وہ بھی اپنی بات واپس لیں گے اور ایک معزز شھری ہو نے کے ناطے اویسی سے معذرت طلب کریں گے ،کیا کانگریس پارٹی وارث پٹھان کو معطل کرنے پہ قوم سے معافی مانگے گی؟فلمی دنیا سے تعلق رکھنے والے نغمہ نگار جاوید اختر اور انکی اہلیہ شبانہ اعظمی نے تو حد سے زیادی سیکولر بننے کی کوشش میں سیکولراز م کے سارے تقاضوں کو پامال کردیاتھا ،انہیں سوچنا چاہئے تھا کہ جب آئین میں بھارت ماتا کی جے بولنا لازمی نہیں ہے تو اویسی کو یہ حق ہے کہ وہ اس پر جبر کرنے والوں کی تردید کریں۔۔۔۔اویسی کی رائے کو صحیح ٹھرانے کے بجائے یہ تو ان پہ ہی برس پڑیں ،شبانہ اعظمی نے چٹکی لیتے ہوئے کہا کہ اویسی اگر بھا رت ماتا کی جے نہیں بول سکتے تو بھارت امی کی جے بولیں ،ہمارا خیال ہے کہ آر ایس ایس اور بھگوائیوں کو خوش کرنے اور سیکولرازم کا علمبردار بننے کے لئے جاوید اختر اور شبانہ اعظمی جیسے افراد مسلمانوں پر انکے عقائد پر مذھبی رسم ورواج پر چاھے جتنا طنز کرلیں یہ تم سے خوش ہونے والے نہیں کیونکہ نام تو تمہارے بھی مسلما نوں جیسے ہی ہیں ،چند مہینوں قبل عدمِ رواداری کے تعلق سے دیئے گئے عامر خان کے بیان کا ردِ عمل سب کے سامنے ہے اسی طرح چند سال قبل عمران ہاشمی نے اس بات کی وضاحت کی تھی کہ مسلمان ہو نے کی وجہ سے ممبئی میں فلیٹ خرید نے کے سلسلہ میں تعصب کا شکار ہوں ،اس لئے ہما را مشورہ ہے کہ اگر آپ کو زیادہ سیکولر بننا ہے تو اپنے ناموں کے ساتھ ایسا لاحقہ لگا لیجئے جو مسلم ناموں سے نفرت کرنے والوں کو پسندھوں مثلا جاوید اختر کمار سنگھ یا شبانہ اعظمی دیوی وغیرہ ،لو جہاد گھر واپسی اور بھارت ماتا کی جے وغیرہ ایسی چیزیں ہیں جو عالمی سطح پر بھارت کے قد کو پستہ کر رہی ہیں اس لئے اربابِ اقتدار سے ہماری گزارش ہے کہ بھارت کو اگر ترقی سے ہم کنار کرنا ھے تو ان لوگوں کی سرزنش کرنی ہوگی جو بھارت کی شبیہ کو داغدار کر نے پہ تلے ہو ئے ہیں۔(ملت ٹائمز )
(مضمون نگار نوجوان فاضل اور آزاد صحافی ہیں )