…. وگرنہ شہر میں سنگھ کی آبرو کیا ہے

ڈاکٹر زین شمسی
اچھا تو پھر آپ اپنی پارٹی یا آر ایس ایس کارکنان میں سے کسی کا نام بتا دیجئے جس نے بھارت کی آزادی یا تعمیرات ہند میں کسی طرح کا کوئی رول نبھایا ہو۔
دہلی اسمبلی میں مجاہدین آزادی کی تصاویر کی نقاب کشائی کے دوران شیر ہندوستان ٹیپو سلطان کی تصویر پر اعتراض کرنے والے بی جے پی ممبر اسمبلی سے آپ کے لیڈر نے پوچھا۔
جواب میں بی جے پی لیڈر بغلیں جھانکنے لگا۔
یوم جمہوریہ کی تقریب کے دوران چوتھی صف میں بیٹھے راہل گاندھی کی مسکراہٹ بتا رہی تھی کہ جمہوریت ایک ایسا نظام حکومت ہے کہ جس میں جمہورے بھی سینہ چوڑا کر جاتے ہیں۔ گاندھی اور نہرو کے پیچھے عوام کی سینا تھی۔ اندرا نے اپنی نوجوانی کے زمانہ میں بانر سینا بنائی تھی ۔ جو ظلم و جبر سے لڑتی تھی اور راجیو نے بھارتیہ سینا کو دنیا سے لڑنے کے لئے نئی تکنیک سے آراستہ کیا تھا۔ اور راہل گاندھی کو کرنی سینا کے زمانہ میں چوتھی صف میں بیٹھ کر جمہوریت کا تماشہ دیکھنا پڑ رہا ہے۔
کہتے ہیں کہ ایک بدترین جمہوریت بھی بہترین شہنشاہیت سے اچھی ہوتی ہے۔ اسی لئے جمہوریت نامی نظام حکومت کا جدید نظریہ جب یورپ نے اپنی جگہ عام کیا اور انگلینڈ نے ابراہم لنکن کے اس فارمولہ ” جمہوریت عوام کے لئے، عوام کے ذریعہ ، عوام کی حکومت ” کو دنیا میں عام کیا تو عوام کو واقعی اس بات کا احساس ہوا کہ وہ اب آزاد ہو گئے۔ تاہم وہ آزادی کے اس لالچ میں کب مٹھی بھر لوگوں کے جال میں قید ہوئے انہیں پتہ بھی نہیں چل پایا۔
دنیا پر ٹرمپ اور بھارت پر مودی کی گرفت کے بعد جمہوریت کی قلعی کھلتی نظر آئی۔
بولنے کی آزادی پر پنسارے کا قتل ہوا۔
لکھنے کی آزادی پر لنکیش کا قتل ہوا۔
کھانے کی آزادی پر اخلاق کا قتل ہوا۔
پڑھے لکھے نوحوانوں کو جیل کی سزا ہوئی۔
پسند کی شادی لو جہاد کہلائی ،ہادیہ پر مقدمہ ہوا۔
فلم بنانے کی آزادی پر کرنی سینا کا قہر برسا۔
گھر بنانے کی آزادی پر روک لگی۔
جمہریت عوام کی حکومت سے خاص کی حکومت کو منتقل ہو گئی۔
امبیدکر نے جمہوریت کے مضبوط مکان کی بنیاد کو چار پائے پر جوڑا تھا۔
مقننہ ، عدلیہ ، انتظامیہ اور میڈیا۔
مقننہ کو خود عوام کے ترجمانوں نے برباد کیا۔
انتظامیہ بدعنوانیوں کے بھینٹ چڑھ گئی
میڈیا مقننہ اور بازاری پن کی وجہ سے گودی میڈیا بن گیا
رہی عدلیہ تو عدالت نے عدالت پر ہی انگلی اٹھا دی ۔ مقدموں کا بوجھ اتنا بڑھا کہ ترجیحات گم ہو کر رہ گئی یہاں تک کہ جج کی مشتبہ موت کا فیصلہ بھی عدالت کے بس کی بات نہیں رہی۔
ایسا تو پہلی بار ہی دیکھنے کو ملا کہ سپریم کورٹ کے احکامات کو نظرانداز کر کے سڑکوں پر انارکی پھیلائی گئی ، اسکولی بس پر حملہ کر کےبچوں کو خوفزدہ کیا گیا اور انتظامیہ اور مقننہ خاموش تماشائی بنی رہی ۔ یہاں تک کہ عدالت نے بھی نہیں پوچھا کہ حکم کے باوجود کرنی سینا کے غنڈوں کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی گئی۔
گویا چار ستون میں سے سب سے مضبوط ستون بھی لاچار ہے۔
حکومت مزہ میں ہے۔
عوام کا 15؍لاکھ انتخابی جملہ نکلا
دو کروڑ لوگوں کی ملازمت پکوڑا بنانے والوں کی نکلی
میک ان انڈیا کامطلب گؤ رکشک اور یووا واہنی اور اینٹی رومیو اسکوائڈ کی صورت میں ملی۔
سوچھ بھارت کا اشارہ دلت اور مسلمان کی طرف ہو گیا۔
ترقی کا مطلب کانگریس کے پروجیکٹ کا افتتاح اور غیر ممالک میں ہندوستان کو بھکاری ثابت کرنا ٹہرا۔
نوٹ بندی کے بعد ہندوستان کی دولت 3؍فیصد لوگوں کے پاس پہنچ گئی۔
جمہوریت نے بڑی خوبصورتی کے ساتھ شہنشاہیت کا لبادہ اوڑھ لیا۔ شاہ کے مصاحب اتراتے پھرتے ہیں۔ جیسے بادشاہ کے کارندے ہوں۔ ؎
بنا ہے شاہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا
وگرنہ شہر میں سنگھ کی آبرو کیا ہے

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں