سہیل اختر قاسمی کی خاص رپوٹ
نئی دہلی: 2؍فروری (ملت ٹائمز)
اونچی دیواروں اور خار دارتاروں سے گھرے تہاڑ جیل میں تین قیدی ایسے گزرے ہیں، جنہیں جیل کے ضابطہ کے مطابق اعلیٰ تعلیم یافتہ سمجھا جاتا تھا ماؤنواز لیڈر کو بڈگھانڈی، پارلیمنٹ پر حملہ کے مبینہ مجرم محمد افضل گورو جنہیں ۹ فروری۳۱۰۲ پھانسی دی گئی تھی اور عصمت دری کی سزاسے بری ہوئے پیپلی لائیو کے شریک ڈائریکٹر محمود فاروقی۔ جیل میں قیدوبند کے دوران فاروقی نے وقت گزاری اور ذہنی تسکین کے لئے کتب بینی کا سہارا لیا۔ تہاڑ کی لائبریری میں فاروقی کو مختلف کتابوں کے مطالعہ کا موقع ملا۔ اسی دوران گیتا سمیت مہابھارت کی کہانیاں پڑھیں اور اپنے تخلیقی ذہن کااستعمال کرتے ہوئے مہابھارت کی اردو داستان تیار کردی۔ محمود فاروقی کا شمارنئی نسل کے ان تخلیق کاروں میں ہوتاہے جنہیں داستان گوئی کی روایت کو زندہ کرنے کی دھن سوارہے۔ فاروقی اس سے قبل کئی داستان ضبط تحریر اور سناچکے ہیں۔اس بار انہوں نے جوداستان تیار کی ہے اس کانام ہے ’داستان کرن از مہا بھارت‘۔ اس داستان کی خاص بات یہ ہے کہ اسے اردو میں تیار کیا گیاہے اوراسے اردو میں ہی پیش کیا جائے گا۔ اس تعلق سے ڈائریکٹر محمود فاروقی نے انقلاب کوبذریعہ میل بتایاکہ’ٹیم داستان گوئی‘کی نئی پیش کش کے طور پر ہم اردو میں ایک ایسی داستان پیش کرنے جارہے ہیں، جس کی مثال بہت مشکل سے ہی ملے گی۔‘ انہوں نے بتایاکہ’اس خاص داستان میں ان بین براعظمی اساطیر کا عکس نمایاں نظر آئے گا، جواب ہمارے عہد میں نادر ہوچکے ہیں۔ اس داستان میں اصلی سنسکرت مہا بھارت تھا، مغل بادشاہ اکبرکی ہدایت پر فیضی اور عبدالرحیم خان خاناں کی نگرانی میں فارسی میں ترجمہ شدہ ’رمزنامہ‘، ٹوٹا رام شیام کے ذریعہ ۰۰۲سال قبل اردو میں کئے گئے ترجمہ اور پاکستانی مصنف کامران اسلم کے اردو ترجمہ کی جھلک دکھے گی۔‘انہوں نے مزید بتایا کہ ’داستان کرن از مہابھارت کی تیاری میں مشہور شاعر انور جلال پوری (مرحوم)کے ذریعہ گیتا کے منظوم اردو ترجمہ اورپاکستانی مصنف خلیفہ عبدالحکیم کے ذریعہ گیتاکے اردوترجمہ سے مددلی گئی ہے۔اس کے علاوہ ہندی شاعر رام دھری سنگھ کی تخلیق، مراٹھی قلم کار شیواجی ساونت کے ناول مری تونجے، ٹیگور کی نظموں اور اراوتی کاروے کے مہا بھارت پر مضامین سے خوشہ چینی کی گئی۔‘ فاروقی کے مطابق’ یہ داستان گیتا اور قران میں مساوی تصورات کی عکاسی کرے گی۔‘ایک سوال کے جواب میں فاروقی نے بتایا کہ’ ’داستان کرن از مہا بھارت‘ کی زبان اردو ہے، تاہم سنسکرت، ہندی، فارسی اور عربی کا بہ قدر تقاضا استعمال کیا گیا۔‘ فاروقی نے داستان کے انوکھے اور نادر ہونے کادعویٰ کرتے ہوئے کہاکہ ’ ایسا شاید پہلی بار ہورہا ہے جب ایک شو میں ایک داستان گواتنی زبانوں کا استعمال کرکے ایک کہانی سنائے گا۔‘ انہوں نے داستان تحریر کرنے کے حوالے سے کہاکہ’میں جب جیل میں تھاتب میں نے جیل کی لائبریری میں مہا بھارت کے اصل نسخہ تک رسائی کرکے اس داستان کو تیار کیا۔ جیل سے رہائی کے بعد تزئین وترتیب کے ساتھ اسے پیش کرنے جارہے ہیں۔آئند ہ ماہ۳ اور ۴فروری کوشام ۷بجے (دونوں دن) انڈیا ہبی ٹیٹ سینٹر کے اسٹین آڈیٹوریم میں یہ داستان پیش کی جائے گی۔ واضح ہوکہ داستان گوئی، کہانی بیان کرنے کا ایک مخصوص انداز ہے جس میں رزمیہ داستانوں کو ڈرامہ کے انداز میں پیش کیا جاتا ہے۔ کہانی سنانے والے کے پاس الفاظ کا سمندر ہوتا جس سے وہ کہانی کا مکمل منظر اور نقشہ کھینچتا ہے اور کہانی کچھ اس اندازمیں بیان کی جاتی ہے کہ اس میں سسپنس ہوتاہے، موسیقی ہوتی ہے اور ہرلمحہ انتظار کی کیفیت ہوتی ہے کہ آگے کیا ہوگا۔ داستان گوئی کی روایت قدیم ہندوستان میں بے حد مقبول تھی۔ لیکن تقریباً ایک صدی پہلے داستان گوئی کی روایت ختم ہوتی گئی اور دھیرے دھیرے ہندوستان میں داستان کہنے اور پڑھنے والوں کی آوازیں مدھم ہونے لگی تھیں مگر گزشتہ کچھ سالوں سے یہ روایت دوبارہ زندہ ہورہی ہے اوربہ تدریج مقبول بھی ہورہی ہے۔
(بشکریہ روزنامہ انقلاب)





