ڈاکٹر وسیم راشد
اردو زبان کی بد قسمتی یہ رہی کہ جو بھی ادارے زبان کی ترویج و ترقی کے لئے قائم کئے گئے ،وہ ہمیشہ ہی کسی نہ کسی تنازع کا شکار رہے ہیں۔یہی حال اس وقت قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کا ہے۔ ادیبوں کی کتابوں پر ملنے والی گرانٹ ان ایڈ پر جو فارم بھروایا جاتا ہے ،اس میں ایک نیا فارم شامل کردیا گیا ہے اور اس فارم میں یہ صاف لکھا گیا ہے کہ کونسل کی جانب سے شائع ہونے والے مواد میں حکومت کے خلاف یا حکومت کی کسی بھی پالیسی پر کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہئے۔ اردو ادب کی کسی بھی کتاب پر تبھی کو نسل مالی تعاون دے گی جب اس میں ایک بھی جملہ یا کوئی بھی مواد حکومت کے خلاف نہیں ہوگا۔
قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کا قیام زبان و ادب کی ترقی و ترویج کے لئے ہوا تھا۔ یہ ایک خود مختار ادارہ ہے جو وزارت برائے فروغ انسانی وسائل کے ماتحت کام کرتا ہے۔ اس ادارے کا مقصد نہ صرف زبان کو فروغ دینا ہے بلکہ حکومت کو بھی اردو زبان سے وابستہ پریشانیوں اور زبان کے فروغ سے متعلق اہم نکات اور تجاویز سے آگاہ کرانا ہے۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ جب سے یہ ادارہ وجود میں آیا ہے تبھی سے اس سے وابستہ افراد شک و شبہات کے دائرے میں رہے ہیں۔ قومی کونسل کے سابق ڈائریکٹر کو بڑے گھوٹالے کے تحت گرفتار کیا گیا اور زبان کی ترقی سے متعلق تمام اہم پروجیکٹ ٹھنڈے بستے میں چلے گئے۔ حالانکہ سابق ڈائریکٹر نے اس ادارے کو گمنامی سے نکال کر دلی کے پُر رونق علاقے میں شفٹ کرنے کا بڑا کارنامہ انجام دیا اور جو کونسل آر کے پورم کے 4,3 کمروں پر مشتمل تھی ،وہ اردو بھون کے نام سے پوری بلڈنگ کی شکل میں پھر سے وجود میں آئی۔ان ہی دلی والوں نے وہ دور بھی کونسل کا دیکھاتھا جب چار محدود کمروں میں اردو زبان کے عظیم ادیب و شاعر جمع رہتے تھے۔ مخمور سعیدی، گوپی چند نارنگ،چندر بھان خیال،شمس الرحمن فاروقی ، وسیم بریلوی کے علاوہ متعدد اہم شخصیات تھیں جو زبان و ادب کے فروغ میں کام کررہی تھیں اور پھر جب اس کو اردو بھون جیسی عظیم عمارت نصیب ہوئی تب بھی اہم پروجیکٹ سابق ڈائریکٹر کی قیادت میں چلتے رہے،بھلے ہی بد عنوانی کا ٹھپہ بھی لگارہا لیکن اس زمانے میں اردو زبان و ادب کی کتابوں کی اشاعت کا کام بھی بہت ہوا ، البتہ یہ بد قسمتی بھی ساتھ ساتھ چلتی رہی کہ کونسل کبھی بھی شفافیت کا کوئی سرٹیفکیٹ نہیں پیش کرسکی۔ ہر ڈائریکٹر پر بد عنوانی کی سوئی گھومتی رہی،لیکن ساتھ ساتھ زبان و ادب کے نئے نئے پروجیکٹ پر بھی کام ہوتا رہا۔
پہلے جن ادیبوں کو مالی تعاون دیا جاتا تھا۔وہ اس طرح کے کسی فارم پر دستخط کرنے کے پابند نہیں ہوتے تھے کہ حکومت کی پالیسیوں پر، اس کے کاموں پر کوئی تنقید نہیں ہونی چاہئے اور ہمارا خیال ہے ایسا ہو بھی کیسے سکتا ہے۔ ادب کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ ادب زندگی کا، سماج کا ،اپنے دور کا عکاس ہوتا ہے۔ وہ زندگی و سماج کی تعبیر،تفسیر و تنقید ہوتا ہے جو ہم حقیقی دنیا اور زندگی میں نہیں دیکھ پاتے ،وہ ادب ہمیں دکھاتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو انقلاب زندہ باد کا نعرہ آج نہ ہوتا ،جو بھی انقلابی شاعری وجود میں آئی ہے،اس نے آزادی دلانے میں اہم رول ادا کیا ہے۔ اب اگر ایسا ادب جو سماج کی عکاسی نہ کرے تو وہ تو مردہ ادب ہوگا۔
ہر دور میں کتابیں شائع ہوتی رہی ہیں۔کبھی ایسی روک نہیں لگائی گئی۔ ہر دور کا ادب اپنے دور کا عکاس ہوتا ہے ۔موجود ڈائریکٹر یوں تو شروع سے ہی اپنی مطلق العنانی کی وجہ سے تنازع کا شکار رہے ہیں ، صحافت کے 200سال کے نام پر عظیم الشان سمینار منعقد ہوا ۔ایک سے ڈیڑھ لاکھ روپے ایک صحافی یا ادیب کو باہر سے بلانے پر خرچ ہوئے،لیکن حیرت کی بات یہ رہی کہ ہندوستان کے نامور صحافی و ادیب اس میں شامل نہیں کئے گئے۔اب جبکہ کونسل کی جانب سے یہ نیا فرمان جاری ہوا ہے تو سبھی اردو داں ادیب و شاعر ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوگئے ہیں۔ آخر ایک غیر جمہوری اور غیر آئینی فارم پر اردو ادیبوں کو دستخط کرانے کا کیا مطلب ہے۔
میرا اپنا ماننا یہ ہے کہ اگر اس طرح کی پابندی عائد کردی جائے گی تو ایک صحت مند ادب کیسے تخلیق ہوگا؟اگر زبان پر مہر لگادی جائے گی تو ادب برائے زندگی اور ادب برائے حقیقت کا تصور ہی ناپید ہوجائے گا اور کونسل کی ہی کیوں؟ اس کے علاوہ ہندوستان کی تمام زبانوں یہاں تک کہ ساہتیہ اکادمی کے ذریعہ شائع ہونے والی کتابوں پر بھی یہ شرط لگائی جائے ،میرے خیال سے یہ اقرار نامہ ادیبوں کی انسانی اور جمہوری آزادی کے حقوق کو سلب کرتا ہے۔ اردو ادیبوں کو باندھنا اور انہیں حب الوطنی ثابت کرنے کے لئے مجبور کرنادراصل اردو ادیبوں کو شک کی نظر سے دیکھنا ہے۔جبکہ قومی اردو کونسل ایک خود مختار ادارہ ہے اور حکومت صرف فنڈز دینے کی ہی مجاز ہے تو پھر یہ کیسی خود مختاری ہوئی جس سے اردو ادیب خود کو بھی مجرم سمجھنے لگیں اور دوسرے بھی ان کی نیت پر شک کریں۔
اردو ادب کا دائرہ کار شاعری، تنقید فکشن اور علمی کتابیں ہوتی ہیں،جن میں حکومت کا کوئی لینا دینا نہیں ہوتا ،لیکن شاعری یا کسی نشر پارے میں کوئی جملہ یاشعر حکومت کے خلاف جاتا بھی ہے تو تحریر و تقریر کی آزادی تو آئین بھی دیتا ہے۔ اگر ادب کو پابند کردیا جائے گا تو پھر کیسی تحریر و تقریر کی آزادی رہی۔ایک طرف تو مودی حکومت میں جس کا جو جی چاہے ،نفرت انگیز بیان دے دیتا ہے۔ ان پر کوئی روک ٹوک نہیں ۔دوسری طرف اردو ادیبوں و شاعروں کی زبان پر قفل لگا دیا جائے۔یہ یقیناًغیر آئینی عمل ہے۔ڈائریکٹر کہتے ہیں کہ حکومت سے پیسے لے کر حکومت کے خلاف لکھنے کا جواز کیا ہے؟ہم کہتے ہیں پیسے حکومت دیتی ہے یا قومی خزانہ؟ حکومت کی تشکیل پارٹیوں سے ہوتی ہے ۔ ملک عوام سے بنتا ہے ،افراد سے بنتا ہے،قومی خزانہ عوام کے پیسے سے چلتا ہے ،پارٹیوں کے پیسے سے نہیں ۔پھر کوئی حکومت محض اس وجہ سے تعمیری و تخلیقی تنقید سے بالا تر کیسے ہوسکتی ہے کہ وہ قومی اسکیم کے تحت ادیبوں یا قلمکاوں کو مالی تعاون دے رہی ہے۔
اس طرح کے فرمان سے اردو ادیبوں و شاعروں میں ایک بے چینی سی پھیل گئی ہے اور وہ خود کو بے بس، مجبور اور پابند حکومت محسوس کررہے ہیں۔اگر یہ ایسے ہی چلتا رہا تو ادب صحت مند ادب نہ رہ کر حکومت کی آواز بن جائے گا جو زبان و ادب کا زوال ہے۔(بشکریہ چوتھی دنیا اردو)
(مضمون نگار معروف جرنلسٹ ،شاعرہ اور ہفت روزہ چوتھی دنیا اردو کی ایڈیٹر ہیں )