حفظ اللہ قاسمی
مولانا سلمان ندوی نے تنازعات کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کر دیا ہے جس سے ہندوستانی مسلمان اور خاص طور پر علماء کبار ان کی ان بے تکی باتوں سے بہت پریشان نظر آتے ہیں۔ مولانا نے 7 فروری کو ایک انٹرویو دیا تھا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ وہ بابری مسجد تنازعہ کے سلسلے میں ڈبل شری سے ملاقات کر اس مسئلہ کا حل نکالنے والے ہیں۔ اس کے بعد سے بیانات اور انٹرویو کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کردیا ہے۔ مولانا ندوی کی شخصیت یقیناً ہمارے لیے ایک قابل قدر شخصیت ہے۔ آپ ہندوستان کی مایہ ناز درسگاہ دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنو سے وابستہ ہیں اور وہاں تعلیم و تعلم کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی مولانا ندوی بیان وخطابت کے میدان میں ایک ممتاز مقام رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب سے مولانا نے یہ انٹرویو دیا اور اس انٹرویو پر عمل کرتے ہوئے چند افراد پر مشتمل ایک وفد کے ساتھ انہوں نے ڈبل شری سے ملاقات کی ہے، اس کے بعد سے ہندوستانی مسلمان ایک اضطرابی کیفیت کا شکار ہوگئے ہیں۔ مولانا موصوف کی اس ملاقات کے حوالہ سے راقم نے چند سطریں رقم کردی ہیں اور اس ویڈیو میں ریکارڈ مولانا ندوی کی قابل گرفت باتوں کی نشان دہی بھی کردی گئی ہے۔
آج بات کرنے جارہا ہوں ان انٹرویوز کی جو انہوں نے “سیدھی بات “اور “انڈیا ٹی وی -India TV” کو دیا ہے۔
“سیدھی بات”
مولانا موصوف “سیدھی بات” سے گفتگو کرتے ہوئے کچھ ایسی باتیں کرتے ہیں جن کو ہم درج ذیل میں دیکھیں گے۔
۱۔ عدالت پر عدم اطمینان
مولانا ندوی نے عدالت پر طنز کستے ہوئےکہا کہ جب اس مندر میں مورتیاں رکھی گئیں اور اسی طرح راجیو گاندھی نے اس کا سنگ بنیاد رکھا اور جب مسجد کو شہید کیا گیا تو کیا کیا عدالت نے؟ اسی طرح کی دیگر مثالیں دے کر مولانا ندوی نے کہا کہ عدالت کیا کر رہی تھی؟ مطلب صاف ہے کہ مولانا کو ہندوستانی عدلیہ پریقین نہیں ہے۔ اگر ایسی بات ہے تو مولانا کو Contempt of Court کے تحت سزا بھی ہو سکتی ہے۔ عدالت کی توہین ایک قابل مواخذہ جرم ہے، جس سے بچنا ہر ہندوستانی کا فرض ہے۔
۲۔ طلاق ثلاثہ کے متعلق جھوٹ
مولانا ندودی طلاق ثلاثہ کی مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ علماء کی ایک بڑی تعداد کہتی ہے کہ یہ ایک ہے اور اس کا ذکر حدیث میں ہے۔ اور اس کے بعد مسلم پرسنل لاء پر حملہ کرتے ہوئے کہا کہ “طلاق کے مسئلہ میں عدالت سے فیصلہ آیا، کتنا خوبصورت تحفہ دیا پرسنل لاء کو”، اور یہ بھی کہا کہ جب تم خود کہتے ہو کہ ہم سپریم کورٹ کے فیصلے کو مانتے ہیں تو اسی کو مانئے۔ اس پوری بات میں جملہ “علماء کی ایک بڑی تعداد” کسی بھی طرح ہضم نہیں ہو سکا۔ کیوں کہ تین طلاق کو ایک ماننے والے لوگ جمہور کے مقابلے بہت تھوڑے ہیں۔ مولانا کی اس کذب مقالی کو کیا علماء قبول کرلیں گے۔
۳۔ میں اسے سمجھوں ہوں دشمن جو مجھے سمجھائے ہے
مولانا موصوف جذبات کی رو میں بہہ کر کیا کچھ بول جاتے ہیں انہیں خود بھی پتہ نہیں چلتا۔ جب کوئی ان پر تنقید کرتا ہے تو اسے ایک الگ ڈھنگ سے پیش کرتے ہیں اور جواباً کہتے ہیں کہ مجھے تنقید سے کوئی چڑھ نہیں ہے۔ یہ مولانا ندوی کا طرہ امتیاز ہے کہ جب ان پر تنقید کی جاتی ہے تو وہ ذاتیات تک پہنچ آتے ہیں، اس دریدہ دہنی پر ہزار بار لعنت۔ جب بات رائے اور موقف کی ہو تو دلیل سے راجح اور مرجوح قرار دیا جاتا ہے، نہ یہ کہ ذاتیات پر کیچڑ اچھالے جائیں۔جو بھی حضرات مولانا سے اختلاف رکھتے ہیں وہ اس بناء پر نہیں کہ ان میں کوئی کمی یا خامی نظر آ گئی ہے بلکہ اس لیے کہ ان کے نظریہ میں فساد ہے، اسی لیے وہ ان کی بات دلائل سے غلط ثابت کرکے انہیں صحیح بات بتانا چاہتے ہیں۔ یاد رہے کہ مولانا علی میاں ندوی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتابوں میں مختلف مقامات پر اپنے لیے لفظ شاگرد کا استعمال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں تاریخ کا ایک طالب علم ہونے کے ناطے یہ بات کہتا ہوں۔ علم ایک ٹھاٹھیں مارتا سمندر ہے، ہر شخص اپنے مقدور بھر اس سے سیراب ہوتا ہے۔ بہت ممکن ہے کہ مولانا کو کچھ باتیں معلوم نہ ہوں اور دوسروں کو معلوم ہو۔ اگر ایسا ہے (اور ایسا ہی ہے کیوں کہ کوئی بھی شخص اس کا دعوی نہیں کرسکتا) تو مولانا کو مرجع معلوم کر اس کی تحقیق کرنی چاہئے یا پھر متکلم کی بات تسلیم کر لینی چاہئے۔
۴۔ مخصوص ادارے کو نشانہ بنایا
جذباتیت سے بھر پور ہوکر مولانا ندوی نے کہا کہ “بڑے عالم بنتے ہیں میرے الفاظ کے ساتھ ہیر پھیر کرتے ہیں، وہ تحریف کرنے والے مجرم ہیں۔ ایک بابری مسجد کے ڈھانچہ کے ایشو کو لے کر تحریف کرنا، جھوٹ بولنا، جعل سازی کرنا، جھوٹے مولوی بھی کر رہے ہیں جن پر لیبل لگاہوا ہے، کسی پر قاسمیت کا اور کسی پر کسی اور ادارے کا اور وہ جھوٹ بولتے ہیں۔”مولانا ندوی کی یہ باتیں پڑھ کر قارئین خود اندازہ لگائیں کہ مولانا اپنے قول میں کتنے سچے ہیں؟ کس قاسمی یا کس ادارے کے فارغ التحصیل فاضل نے ان کے بیان میں تحریف کرنے کی جرات کی؟ کیا مولانا ندوی اب بھی اسی اخوت ومودت کے قائل ہیں جس اخوت ومودت کے ڈنکا ڈبل شری سے ملاقات کے وقت پیٹا تھا؟ کیا یہ اشداء علی المومنین رحماء بین الکافرین نہیں ہے؟
ع: اب چپ رہو، ہمارے میں منہ میں زبان ہے
مولانا ندوی غیروں کے پاس جا کر اتحاد کی بات کرتے ہیں اور ایک مخصوص ادارہ کو نشانہ بناکر امت میں مزید انتشار اور خلاء پیدا کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔ کیا ان کا یہی مشن ہے؟ اگر یہی ہے تو امت کو بروقت آگاہ کرنا اور ان کے اس ناپاک منصوبہ کو ناکام کرنا ہماری ذمہ داری ہے، اور اگر یہ ان کا مشن نہیں ہے (اللہ کرے ایسا ہی ہو) تو پھر ایسا کیوں؟ کیا کسی بغض وعناد اور عداوت ودشمنی کا نتیجہ ہے؟
۵۔ الزام تراشی بطریق دیگر
مولانا ندوی نے مبہم انداز میں کچھ لوگوں پر نشانہ سادھتے ہوئے کہا : “سیاسی ذہن رکھنے والے لوگ ہیں جن کی شاید دال گل گئی ہوگی، ان کو کوئی تنخواہ مل رہی ہوگی۔ میں نہیں جانتا، میں الزام نہیں لگاتا لیکن یہ مجرمانہ عمل ہے جو اس وقت ہو رہا ہے۔” مولانا موصوف کو نشانہ بنا کر کوئی کیس خراب کر رہا ہے اور اس کے عوض انہیں پیسے مل رہے ہیں۔ عدم علم کے باوجود مولانا ندوی اس طرح کی بات کر رہے ہیں اور پھر کہہ رہے ہیں کہ میں الزام نہیں لگاتا، اس سے ان افراد کے تئیں مولانا کے اندرون خاطر نفرت وعداوت کی کتنی بھیانک آگ لگی ہے اس کا سبھی کو بخوبی اندازہ ہوگیا ہوگا۔
“انڈیا ٹی وی-India TV”
اس ٹی وی چینل پر مولانا ندوی کا انٹرویو ہوا اور انہوں نے اپنا موقف رکھا ، مگر اس پر بھی وہ کئی ایک غلطی کر بیٹھے۔ ان کو مختصراً آئندہ سطور میں لکھا جاتا ہے۔
۱۔ اللہ کے سامنے بندگی کی اہمیت
مولانا نے کہا : “اینٹ اور گارے کی اہمیت نہیں ہے، اللہ کے سامنے بندگی کی اہمیت ہے۔” مولانا کی اس بات سے اگر اتفاق کرلیا جائے تو کیا ہمیں حرمین شریفین کو بھی اب کوئی اہمیت نہیں دینی چاہئے؟ کیوں کہ بندگی تو کہیں بھی کی جاسکتی ہے۔ اس کے لیے کسی مخصوص جگہ کی قید کیوں؟ حرمین شریفین ہی کیوں، پوری دنیا میں جتنی مساجد ہیں ان کو بھی کوئی اہمیت حاصل نہیں ہے تو اسے بھی کسی دیگر مصرف اور کارِ خیر میں لایا جا سکتا ہے؟
۲۔ تنقیص: اپنی یا دوسرے کی؟
مولانا ندوی نے ظفریاب جیلانی پر نشانہ سادھتے ہوئے کہا کہ وہ7 کچھ بھی کہیں، ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ جس طرح مسلم پرسنل لا بورڈ کا میں ممبر ہوں اسی طرح وہ بھی ایک ممبر ہیں۔ اگر مولانا ندوی یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ظفریاب جیلانی کے قول کا کوئی اعتبار نہیں تو پھر مولانا ندوی کے قول کا بھی کوئی اعتبار نہیں ہے اور اگر مولانا ندوی کے قول کا اعتبار ہے تو ظفریاب جیلانی کے قول کا بھی اعتبار ہونا چاہئے اور ان کی باتوں کا بھی اتنا ہی وزن ہونا چاہئے جتای مولانا ندوی کا ہے۔
۳۔ قول متضاد
“فیصلہ تو عدالت کے باہر کریں گے مگر اس معاہدہ کو مضبوطی دینے کے لیے کورٹ کا سہارا لینا ہوگا اعتماد واعتبار پیدا کرنے کے لیے۔” یہ کیا کہہ گئے مولانا ندوی؟ کسی انٹرویو میں وہ کہتے ہیں کہ انہیں عدلیہ پر اعتماد نہیں ہے اور پھر دوسرے انٹرویو میں جا کر کہتے ہیں کہ اس معاملہ میں ہونے والے معاہدہ کو مضبوطی بخشنے کے لیے عدلیہ کا سہارا لینا ہوگا۔ ع: یا الہی یہ ماجرا کیا ہے
۴۔ دروغ گوئی
مولانا موصوف نے اسی انٹرویو میں کہا کہ “نوے فیصد مسلمان ہمارے ساتھ ہیں۔ دس فیصد نہیں ہوں گے، اگر آپ انہیں شمار کرنا چاہیں تو چند سیکڑے ہو سکتے ہیں۔” مولانا کی حمایت میں کتنے مسلمان ہیں انہیں اس کا اندازہ کیسے ہوگیا؟ کیا انہوں نے رائے شماری کرائی تھی؟ مولانا کا یہ جملہ حقیقت حال سے بالکل مختلف اور مبنی بر کذب ہے۔
لکھنے کو تو بہت کچھ لکھا جا سکتا تھا مگر اختصار سے کام لیتے ہوئے اور قارئین کی سہولت کو ملحوظ نظر رکھتے ہوئے اسی پر اکتفا کیا جا رہا ہے۔ اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ مولانا موصوف کو عقل سلیم دے اور انہیں فتنہ میں پڑنے سے بچائے۔





