وقت کا تقاضا ہے کہ مسلمان جوش پر ہوش کو غالب رکھیں

مدثر احمد قاسمی 

ہمارا ملک ہندوستان اس وقت ایک عجیب و غریب صورت ِ حال سے دوچار ہے۔ہر طرف باہم مخالفت اور مخاصمت کی گونج سنائی دے رہی ہے۔ شدت سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وطنِ عزیز کو کسی بد خواہ کی نظر لگ گئی ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ جس ملک کی مٹی میں سبھی مذہب اور رنگ و نسل کے بزرگوں کا خون شامل ہے، جس سرزمین کو سبھی نے خون جگر سے سینچا ہے اور جس کی ترقی اور سالمیت کو ہر ایک نے اپنی ترجیحات میں شامل کیا ہے، وہاں کے کچھ باشندے خونخوار درندوں کو بھی شرمسار کر نے پر تُلے ہوئے ہیں تو دیگرکچھ مظلومیت کی تصویر بنے اپنی باری کے انتظار میں ایک قطار میں کھڑے ہوئے ہیں؟ جب ہم اس نا گفتہ بہ حالت کی تہ تک پہونچنے کی کوشش کرتے ہیں توہمیں بنیادی طور پر اس کی دو وجہیں نظر آتی ہیں: (۱) مذہب بیزاری (۲) ملکی اقدار کی پامالی۔ کیونکہ کہ کسی بھی مذہب کی بنیادی اور اصل تعلیم میں کہیں بھی ظلم اور نا انصافی کی تعلیم نہیں دی گئی ہے اور نہ ہی ہمارے اس خوبصورت ملک کی تہذیب اور دستور میں ایک دوسر ے کے حقوق کی پامالی یا ناقدری کی ذرہ برابر بھی گنجائش ہے۔
یہاں ایک اہم سوال یہ ہے کہ اس منجدھار سے ملک و ملت کو کیسے باہر نکالا جائے؟ اس سوال کا انتہائی آسان جواب مذکورہ مسئلہ کے بین السطور سے ہی واضح ہے اور وہ یہ کہ ہر مذہب کے رہبران اپنے پیرؤوں کو مذہب میں موجود امن اور رواداری کی تعلیم کا درس بار بار دیں تاکہ اُن لوگوں کے لئے اُن پر عمل کرنا آسان ہوجائے اور وہ گمراہ کرنے والوں سے ہوشیار ہوتے رہیں۔اسی طریقے سے سیاسی قائدین گنگا جمنی تہذیب کی حسین روایت کی بقاء اور اس کو پروان چڑھانے کے لئے عوام کو جوڑنے کی ہر ممکنہ کوششیں کریں تاکہ اس ملک میں امن و محبت کے ساتھ مل جل کر رہنے کے قدروں کو تحفظ اور بلندی ملے۔ یہی وہ دو راستے ہیں جس سے اس ملک کو جنت نشاں بنایا جاسکتا ہے اور اس کے بعد ہی ہر ایک اپنے حصے کا چراغ جلا دینے کا امتیاز حاصل کر سکتا ہے۔
قابلِ توجہ امر یہ ہے کہ ملک میں جاری موجودہ کشمکش کے بیچ بطورِ خاص مسلمان دو دھاری تلوار کی زد میں ہیں۔ایک طرف مٹھی بھر مگر طاقتور برادرانِ وطن نے انہیں مشکوک نظروں سے دیکھ کر تشدد کا نشانہ بنا رکھا ہے اور ملک میں عملاً انہیں دوسرے درجے کا شہری بنادینے کے در پے ہیں تو وہیں دوسری طرف مسلمان جذباتیت اور درونِ خانہ سرد اور گرم جنگ سے اپنے لئے خود پریشانیاں کھڑی کر رہے ہیں۔ یہ ایک عالمی سچائی ہے کہ جہاں محض جذبایتیت ہو اور عقل کو بروئے کار نہ لا یا جائے وہاں وقتی طور پر قلبی سرور تو حاصل کیا جا سکتا ہے لیکن اکثر حالات میں فوراً بعد ہی اس کا نقصان طے ہے ۔ جذباتِ محض کا خطرناک نقصان یہ ہوتا ہے کہ چند لوگوں کے جذبات کا خمیازہ اکثر و بیشتر غیر متعلقہ اشخاص کی ایک بڑی تعداد کو بھگتنا پڑتا ہے۔ آئے دن ہم ملک کے طول و عرض میں اسکا نظارہ کرتے رہتے ہیں۔اسی وجہ سے موجودہ ملکی تناظر میںاس حوالے سے مسلمانوں کو ا نتہائی محتاط رہنے اور مصلحت پسندی سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ واضح رہے کہ مصلحت کے دامن کو تھامنے کی یہ دعوت ہرگز بزدلی پر آمادہ کرنے کے لئے نہیں ہے بلکہ یہ فراست ایمانی کو بروئے کار لانے پر اُبھارنے کی ایک سنجیدہ کوشش ہے۔

” ملک میں جاری موجودہ کشمکش کے بیچ بطورِ خاص مسلمان دو دھاری تلوار کی زد میں ہیں۔ ایک طرف مٹھی بھر مگر طاقتور برادرانِ وطن نے انہیں مشکوک نظروں سے دیکھ کر تشدد کا نشانہ بنا رکھا ہے اور ملک میں عملاً انہیں دوسرے درجے کا شہری بنادینے کے در پے ہیں تو وہیں دوسری طرف مسلمان جذباتیت اور درونِ خانہ سرد اور گرم جنگ سے اپنے لئے خود پریشانیاں کھڑی کر رہے ہیں۔“

نقصان پہونچانے والے جذبات کو لگام دینے کے لئے مسلمان مندرجہ ذیل اعمال اور اس کے سد باب پرلازماًغور کریں:
جلسے جلوس میں ایسے نغمات کو پڑھنے سے گریز کریںجس سے ملک کے کسی دوسرے حصے میں پھیلے انارکی کو جارحانہ انداز میں پیش کیا جائے اور بدلے میں مرنے اور مارنے کی بات کی جائے۔ اسی طریقے سے عوامی مقامات میں ایسی غیر سنجیدہ تقریرکرنے سے پرہیز کر یں جس سے سادہ لوح مسلمانوں کے جذبات کچھ اس طرح بھڑک جائیںکہ وہ غیر جمہوری نعرے بازی پر اُتر آئیں اور بدلے میں ناکردہ گناہ کی سزا میں ماخوذ ہوجائیں اور اپنے پورے خاندان اور ملت کے لئے پریشانی کا سبب بن جائیں۔کیا ہی مناسب ہوگا اگر ہم ایسے جھنڈے کا استعمال نہ کریں جو پڑوسی ملک سے ملتا جلتا ہے،کیونکہ ہم نے اس جھنڈے کو بہانہ بنا کر کئی موقعوں پر ناسمجھ لوگوں کو اشتعال انگیزی پر اترتے دیکھا ہے۔ اس باب میں آخری بات یہ ہے کہ ملکی قانون کے حساب سے جو چیزیں بھی ممنوع ہیں ،اس سے بالکلیہ اجتناب کریں اگرچہ اُن میں سے بعض چیزیں ہمارے لئے مُباح کے درجے میں ہوں۔
اگر ہم نے اس طر ح کی بنیادی باتوں پرسنجیدگی سے توجہ دے دی تو ہماری بہت ساری پریشانیاں از خود دور ہاجائیں گی۔ مذکورہ نکات کو اگرچہ ہم میں سے کچھ لوگ بسا اوقات دل کے جذبات کے اظہار کے لئے استعمال کرتے ہیں لیکن اس سے ہم دو طرح کے نقصانات کا سامنا کرتے ہیں۔ (۱) ملک کی خدمت پر مامور خفیہ ایجنسیز الفاظ کے پیچھے چھپے جذبات کو نہ دیکھتے ہوئے، محض الفاظ کی بنیاد پر ہمیں مشکوک نگاہوں سے دیکھنے لگتی ہیں اوراس طرح ملک سے بے وفائی کا داغ ہماری پیشانی پر چسپاں ہوجاتا ہے۔ حالیہ تجربات شاہد ہیں کہ اس طر ح کی بے بنیاد بے وفائی کا داغ دھونے میں دسیوں سال ضائع ہوجاتے ہیں۔ (۲) شدت پسند برادرانِ وطن ہماری جذباتیت اور غیر مصلحت پسندانہ باتوں کو بنیاد بنا کر ، اپنے خفیہ ایجنڈے کو نافذکرنے کے لئے تیزی سے آگے بڑھتے ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے تباہی و بربادی کی ایک مکمل داستان لکھ دیتے ہیں۔ یقیناً اگر ہم اس طرح کی باتوں سے بچ جاتے ہیں تو چاہ کر بھی اُنہیں کوئی موقع ہاتھ نہیں آئے گا اور اُن کے سارے پلان دھرے کے دھرے رہ جائیں گے اور وہ اپنے مذموم منصوبوں میں ناکام ہو جائیں گے۔
جہاں تک مسلمانوں کے درمیان خانہ جنگی کی بات ہے تو اس عمل نے ہندوستانی مسلمانوں کے کمر توڑنے میں بڑا کردار ادا کیا ہے اور مخالفین کے خفیہ ایجنڈے کے نفاذ کو سہل تر بنا دیا ہے۔ ہم اس وقت مسلمانوں کے مختلف جماعتوں کے درمیان رسہ کشی کی بات نہیں کریں گے کیونکہ اس پر بہت کچھ لکھا اور کہا جا چکا ہے اور خوشی کی بات یہ ہے کہ پے در پے کوششوں سے ہم ایک دوسرے سے قریب بھی ہوئے ہیں ، مستقبل قریب میں، انشاء اللہ،اس کے مثبت اثرات مرتب ہونگے۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم میں سے کچھ معززین انفرادی طور پر وقتاً فوقتاً ایسی باتیں کر جاتے ہیں جوملک کی مسلم نمائندہ قیادت اور عام مسلمانوں کے دل کی آواز سے متصادم ہو تی ہیں، جس سے یقینا ملک میں مسلمانوں کے منصوبے اور تشخص کو زبر دست نقصان پہونچ جاتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ انفرادی رائے اپنانے میں اُن میں سے کچھ لوگ مخلص ہوں لیکن شاید انہیں اس بات کا زیادہ شدت سے احساس نہیں ہوتا کہ اُن کی باتیں دشمنوں کو قوت فراہم کر جاتی ہیں اور اس طریقے سے وہ اپنوں کے خلاف استعمال ہوجاتے ہیں۔
اس تناظر میں اہم بات یہ ہے کہ مسلمانوں کے وہ نمائندے جنہیں اپنے اپنے حلقوں میں مقبولیت حاصل ہے اور جن کے ارد گرعوام کی ایک تعداد ہے،وہ خدارا مفادِ عامہ کے لئے سوادِ اعظم کی جو رائے ہے اُ ن کی حمایت کریں تاکہ ایک متحدہ آواز کی طاقت ہمیں حاصل ہو اور بکھری ہوئی امت کا شیرازہ مزید منتشر ہو جانے سے بچ جائے۔اوریہ معززین اپنی آرا کو قلت رائے اور کثرت رائے کے آئنہ میں دیکھ کر ملت اسلامیہ پر احسان کریں کیونکہ اس طریقے سے اُن کی یہ بے لوث قربانی ملتِ اسلامیہ کے لئے یقیناً ایک بڑے انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہوگی۔
خلاصہ یہ ہے کہ اس وقت ملت اسلامیہ ہند کو جوش سے زیادہ ہوش کی ضرورت ہے اور انہیں اس ملک میں اپنی بنیادوں کو مضبوط کرنے کے لئے قلیل مدتی اور کثیر مدتی دونوں پلان بنانے کی ضرورت ہے ۔ظاہر ہے کہ یہ اسی وقت ممکن ہوپائے گا جب ہم ایک امت کے طور پر اپنے آپ کو متحد کرلیں گے اور تمام مشترکہ مسائل میں اس کا عملی مظاہرہ کریں گے۔یاد رکھئے ہمارا یہ قدم نہ صرف مسلمانوں کو مضبوطی فراہم کرے گا بلکہ ملک کو بھی تعمیر و ترقی کی نئی بلندیوں تک لے جائے گا۔