فیروز احمد
اعتدال اور میانہ روی ایسی صفت ہے جس کو انسان اگر اپنی زندگی کے ہرگوشہ میں نافذ کرلے تو اس کی زندگی ہرآفت و مصیبت سے محفوظ ہوجا ئے گی اور اس پر عمل کرتے ہوئے ادمی بہت سی لعن و طعن سے بچ سکتا ہے خواہ اس کا دوست ہو یا دشمن سب اس کی اچھائی کے قائل ہوجاتے ہیں سب سے بڑی بات یہ ہے کہ وہ گناہ کبیرہ کا بھی مرتکب نہیں ہوتا ہے اس کے برعکس اگر آدمی کسی معاملہ میں بےجا مداہنت اور چاپلوسی میں آکر کسی کی مو افقت یا ذاتی دشمنی اور بغض و عناد میں غلو کرجاتا ہے تو اس انسان کی توقیر و عظمت لوگوں کی نظروں سے ختم ہوجاتی ہے۔
عدل و انصاف اور میانہ روی ایسی چیز ہے کہ انسان جب اس پر کاربند رہتا ہے تو کوئی بھی قدم اٹھانے سے پہلے ہزار بار سوچتا ہے ۔ دیکھنے میں آتا ہے کہ ہم ہر معاملہ میں غلو کرجاتے ہیں اور افراط و تفریط میں مبتلا ہوجا تے ہیں بسا اوقات ہم کسی کے خلاف بولنے یا لکھنے میں لعن و طعن کر جاتے ہیں اور تمام حدود و قیود کو چھلانگ جاتے ہیں اور ہم کو ایسا لگتا ہے اب ہمیں ساری دشمنی کا حساب و کتاب لینے کا موقع ہاتھ آگیا ہے ہم یہ بھی نہیں سوچتے کہ آخر یہ دشمنی ہمیں کہاں تک لے جائے گی اور ذاتی بغض و عناد پوری قوم کے لئے خسارہ کا سبب بن سکتا ہے
مولانا سلمان حسینی ندوی نے آل انڈےا مسلم پرسنل لا بورڈ سے علاحدہ اپنی رائے رکھ کر پوری ملت اسلامیہ ہندیہ کو ایک عجیب کشکمکش میں مبتلا کردیا ہے اور پوری مسلم قوم کو انتشار و افتراق کی نئی مصیبت میں ڈال دیا ہے ، جہاں ایک طرف ان کی رائے اور عمل کو مسلمانوں کی اکثریت موجودہ حالات میں بلا تفریق مسلک و مشرب غیر دانشمندانہ قدم مانتی ہے وہیں معدودے چند لوگ اس حیثیت سے بہتر مانتے ہیں کہ اس سے بابری مسجد کا معاملہ سلجھ سکتا ہے اور ہندوستان کے مسلمانوں کے لئے مصیبت کے ایام ختم ہو سکتے ہیں۔ لیکن ان کو یہ سوچنا چاہیے کہ بھیڑیا ریوڑ میں سے اسی بکری کو ا پنا لقمہ بناتا ہے جو ریوڑ سے الگ ہوجاتا ہے اور اس کا اندازہ ان کو اب ملنے لگا ہے وہیں اگر سواد اعظم اور جمہور کے ساتھ رہتے تو دشمن کو ہرگز یہ موقع نہیں ملتا کہ جس طرح اب ان پر طرح طرح کے من گھڑت الزامات لگائے جارہے ہیں۔ یہ بات قابل شتائش ہے ہزار اختلافات کے باوجود ملت اسلامیہ نے دشمنوں کے بے بنیاد الزامات کے موقع پر ان کا ساتھ دیا اور بیک زبان ہو کر سب نے اس الزام کو جھوٹ اور مکر و فریب قرار دیا ہے۔
قران نے ہم مسلمانوں کو ہمیشہ اعتدال اور میانہ روی کی تاکید کی ہے اسی لئے ہمیں صاف طور پر کہا ہے ؛؛ اسی طرح ہم نے تم کو امت معتدل بنایا ہے تاکہ تم لوگوں پر گواہ بنو اور پیغمبر آخر الزماں تم پر گواہ بنیں ، ( سورہ بقرہ آیت ۳۴۱)۔ اس سے یہ بات صاف سمجھ میں اتی ہے کہ جب ہم کسی کی مخالفت یا اس شخص کی موافقت کریں تو حد سے زیادہ غلو اور افراط و تفریط میں ہرگز مبتلا نہ ہوں جس سے ہم زبان وقلم کے ذریعے غیبت کرنے لگیں اور ہم عند اللہ ماخوذ اور ملعون بن جائیں ۔





