محمد آبشار الدین
مسلم ریسرچ اسکالر کو ملنے والی مولانا آزاد نیشنل فیلوشپ اب حکومت کی چال سازی کے بعد بند ہوتے نظر آرہی ہے جس کا صاف مقصد یہ ہے کہ مسلمان طلبہ ¾ و طالبات کو ہائر ¾ ایجوکیشن میں جانے سے کیسے روکا جائے ¾ مانف کی نئی گایئڈ لائن کے تحت اب یہ اسکالر شپ ان ریسرچ اسکالرکو نہیں مل پائےگی جنہوں نے نیٹ کوالیفائی نہیں کیا ہے حالانکہ اس سے قبل اس طرح کی کوئی شرط نہیں تھی اور مسلمانوں میں ہائر ایجوکیشن کی سخت کمی اور اقتصادی غربت کی وجہ سے یہ اسکالرشپ بنائی گئی تھی کیونکہ مسلم میں زیادہ تر طلبئہ وطالبات جو ماسٹر کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد وسائل کی کمی کی وجہ سے نیٹ کا امتحان نہیں نکال پاتے ہیںجنہیں مزید ریسرچ کی پڑھائی کرنے میں ہر طرح کی دقتوں کا سامنا کرنا پرتاہے اس اسکالرشپ کے ذریعہ یہ امید تھی کہ وہ طلبہ و طالبات جو تعلیم حاصل کرنے میں بہتر ہیں وہ اس فیلوشپ کی مدد سے ایم فل اور پی ایچ ڈی کی پڑھائی جاری رکھ سکیں، کیونکہ اس اسکالر شپ کے ذریعہ طلبہ و طالبات کو پانچ سال تک حکومتی مالی امداد فراہم کی جائے تاکہ مسلم طلبہ و طالبات دوسروں کے برابر آسکے اور مسلم نوجوان بھی تحقیق کے میدان میں آنے کی جرأت ¾ کرسکے، لیکن اب نئی گائڈ لائن کے مطابق مسلم سماج کے جو طلبہ و طالبات اعلی تعلیم کی طرف جانا چاہتے ہیں تو ان کا مستقبل تاریکی میں نظر آرہا ہے، سرکاری اعداد و شمار کے مطابق جہاں اعلی تعلیم میں قومی اوسط اندراج کا ۴۱؍فیصد ہے، وہیں مسلمانوں کا اندراج صرف چار فیصد پر ہی سمٹا ہوا ہے، یہ اعدادوشمار واضح طور پر ظاہر کرتا ہے کہ مانف کی اسکالرشپ ختم کرنے کے بجائے حکومت کو اسی طرح کی دوسری اسکالرشپ شروع کرنی چاہئے، اس سے سرکار کی نیت مسلمانوں کے تئیں جگ ظاہر ہے اور دلت اور پسماندہ سماج کے طلبہ و طالبات کے لیئے اب تک یہ شرط لازم نہیں ہے اور انہیں مزید تحقیق کے لئے صرف میرٹ اور مارکس کو ہی بنیاد بنایا گیا ہے،
جبکہ مرکزی حکومت نے مولانا آزاد نیشنل فیلوشپ میں نیٹ امتحان کی شرط لگاکر اپنی ایک مخصوص ذہنیت کا ثبوت پیش کیا ہے ، مولانا آزاد نیشنل فیلوشپ اقلیتی برادری سے آنے والے ۱۰۰۰ طلباء کے لیئے سائنس ۔ اور ۔ فن تجارت کے شعبوں میں تحقیق کے لیئے دیا جاتا ہے، جس میں ۶۷۷ نششت مسلمان طلبہ کے لیئے ہیں جبکی ۴۲۲ نششتیں دوسرے اقلیتی برادری جیسے سکھ ، عیسائی، جینیزز، پارسی وغیرہ طالب علموں کے لئے ہے ، جبکہ مرکزی حکومت کومعلوم ہے کہ مسلم طلبہ نیٹ امتحان کی کوالیفائینگ میں نہ کے برابر ہے اس سے پہلے جبکہ اس اسکالرشپ سے۶۷۷ طلباء مستفیض ہورہے تھے اور اب اس سے چند ہی طلباء مستفیض ہوسکیں گے اور ممکن یہ بھی ہے کہ مستقبل میں اسے بندبھی کردیاجائے، اب ایسے حالات میں ان تمام مسلم طلبہ جو گریجویشن اور پوسٹ گریجویشن کی تعلیم حاصل کررہے ہیں اور مستوبل میں ایم فل اور پی ایچ ڈی کرنا چاہ رہے ہیں ان کو اس بارے میں سوچنا چاہئے کہ اس مسلم مخالف پالیسی کی شرط کوجلد سے جلد لاگو ہونے سے روکا جائے، اگر وقت رہتے ہوئے دلت مسلم دونوں نے مل کر ہوش کے ناخن نہیں لیئے تو وہ دن دور نہیں جب اقلیت مخالف اور دلت مخالف سرکار انہیں بھی اس سے محروم کردگی
(مضمون نگار خواجہ معین الدین چشتی اردو، عربی، فارسی یونیورسٹی کے طالب علم ہیں)





