مولانا ندیم الواجدی
گذشتہ دنوں دیوبند کے کچھ نوجوانوں نے ایک پروگرام منعقد کیا، یہ نوجوان پڑھے لکھے ہیں، ان کے پاس مدارس کی تعلیم بھی ہے وہ عصری علوم سے بھی بے بہرہ نہیں ہیں اور انگریزی زبان پر بھی عبور رکھتے ہیں، ان حضرات نے دیوبند میں ایک ادارہ قائم کر رکھا ہے جس کے تحت ہفتے میں ایک دن جمعہ کے روز دو گھنٹے کے لئے ایک کلاس لگتی ہے، اس کلاس میں طلبۂ مدارس کو بینکنگ کے اسلامی نظام سے متعارف کرایا جاتا ہے، تجارت کے جو نئے طریقے اس دور میں رواج پا گئے ہیں ان پر بھی روشنی ڈالی جاتی ہے، ایک سال میں جن طلبۂ مدارس نے اس ہفت روزہ کلاس میں شرکت کی، پھر امتحان میں کامیابی حاصل کی، یہ پروگرام ایسے طلبہ کے مابین تقسیم اسناد کے لئے منعقد کیا گیا تھا، مجھے اظہار خیال کی دعوت دی گئی تو میں نے عرض کیا کہ بینک کاری کا اسلامی نظام کوئی نئی چیز نہیں ہے بل کہ یہ اسلام کے روز اول سے معروف ومتعارف ہے، البتہ اس میں عہد بہ عہد تبدیلیاں ہوتی رہی ہیں، بینک کے کاروبار میں دو چیزیں بنیادی ہیں رقم جمع کرانا اور رقم وصول کرنا، دونوں کی مختلف شکلیں ہیں، کچھ شکلیں عہد صحابہ میں بھی متعارف تھیں، بعض صحابۂ کرام دوسروں کا مال اپنے پاس محفوظ رکھنے کا کام کرتے تھے، شروع شروع میں یہ کام بہ طور امانت ہوتا تھا، لیکن کیوں کہ امانت کے ضائع ہوجانے کی صورت میں امانت رکھنے والے پر کوئی تاوان لازم نہیں آتا اس لئے بعض حضرات اس مال کو بہ طور قرض لے لیا کرتے تھے تاکہ اسے تجارت میں لگا کر نفع کمائیں اور صاحب مال کا مال بھی ضائع نہ ہو، حضرت زبیر بن العوامؓ کے متعلق روایات میں آتا ہے کہ وہ لوگوں کی رقمیں بہ طور قرض لے لیا کرتے اور انہیں تجارت میں لگا دیتے، جب ان کی وفات ہوئی تو لوگوں کے بائیس لاکھ درہم ان کے ذمے باقی تھے اور یہ تمام درہم کاروبار میں لگے ہوئے تھے، یہ تو وہ صورت تھی جس میں اصل مالک کی رقم محفوظ تو ہوجاتی تھی مگر اسے کوئی فائدہ نہیں ہوتا تھا، اُس دور میں ایسی صورتیں بھی اختیار کی گئیں جن میں مالک کی رقم کا تحفظ بھی ہو اور اسے کچھ نفع بھی مل جائے، صحابی رسول حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ نے جس وقت وہ عراق کے گورنر تھے ایک بڑی رقم امیر المؤمنین حضرت عمر ابن الخطابؓ کے دو صاحبزادوں حضرت عبد اللہ ابن عمرؓ اور حضرت عبید اللہ ابن عمرؓ کو دی کہ وہ مدینہ منورہ لے جاکر خلیفۃ المسلمین کے حوالے کردیں، انھوں نے یہ مال بہ طور قرض لے لیا تاکہ وہ اس سے تجارت کرتے ہوئے واپس جائیں، اس طرح ان کو نفع کی امید بھی تھی اور اس میں رقم کا تحفظ بھی تھا، اگر یہ رقم کسی وجہ سے ضائع ہوجاتی تو یہ دونوں حضرات ادائیگی کے پابند تھے کیوں کہ انھوں نے یہ رقم امانت کے طور پر نہیں بل کہ قرض کے طور پر لی تھی، حضرت عمرؓ کو جب اس صورتِ حال کا علم ہوا تو انھوں نے یہ اعتراض کیا کہ جب دوسرے مسلمانوں کو بیت المال سے قرض نہیں دیا جاتا تو عمر کے بیٹے اس قرض کے مستحق کیسے ہوسکتے ہیں؟ بعض صحابہؓ نے یہ تجویز پیش کی اس تجارت کو مضاربت قرار دے دیا جائے، اس طریقۂ تجارت میں ایک فریق کا پیسہ ہوتا ہے اور دوسرے فریق کی محنت اور نفع طے شدہ معاملات کے مطابق تقسیم کیا جاتا ہے، حضرت عمرؓ نے یہ تجویز منظور فرمائی، اس طرح بیت المال اور دونوں صاحبزادے فائدے میں رہے۔
حضرت مولانا مناظر احسن گیلانیؒ نے اپنی کتاب ’’امام ابوحنیفہـؒ کی سیاسی زندگی‘‘ میں یہ دعوی کیا ہے کہ حضرت امام ابوحنیفہؒ تاریخ اسلام کی وہ پہلی شخصیت ہیں جنھوں نے اپنے تجارتی ادارے کو باقاعدہ بینک کی شکل دی، انھوں نے لکھا ہے کہ امام ابوحنیفہؒ لوگوں کا سرمایہ کپڑے کے کارخانے میں لگاتے اور اس سے حاصل ہونے والے منافع میں صاحب مال کو بھی شریک فرماتے، اس رقم سے ضرورت مندوں کو بلا سود قرض بھی دیتے، اس طرح اُن کے ذریعے بینک کا مکمل نظام وجود میں آیا جو نہایت کامیابی کے ساتھ چلا، یہ نظام دوسروں کے لئے بھی نمونۂ عمل بنا اور خود امام صاحب کو بھی اس سے بڑا نفع ہوا، بینک کاری کے اس نظام میں اگرچہ بہت زیادہ وسعت نہیں تھی مگر یہ بہت زیادہ محدود بھی نہیں تھا، امام ابوحنیفہؒ کے کاروبار کے سلسلے میں رأس المال اور منافع کے جو تذکرے کتابوں میں ملتے ہیں اُن سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ یہ محض تصوراتی نہیں تھا بل کہ اسے باقاعدہ عملی شکل دے کر ایک ادارے کے تحت کردیا گیا تھا جہاں حساب کتاب کے رجسٹر تیار کئے جاتے تھے، قرض لیتے اور دیتے وقت معاہدات کو تحریری شکل دی جاتی تھی، نفع ونقصان کا حساب کیا جاتا تھا اور طے شدہ معاملات کے مطابق نفع تقسیم کیا جاتا تھا، یہ تجارت دور دور تک پھیلی ہوئی تھی اور بہت سے افراد اس تجارت سے بہ طور ملازم اور اجیر منسلک تھے، ان کی تنخواہوں اور اجرتوں کی ادائیگی کا بھی ایک مکمل سسٹم اور طریقۂ کار موجود تھا اور یہ تمام امور قرآن وسنت کے متعین کردہ خطوط کی روشنی میں وضع کردہ اصولِ تجارت کو رہ نما بنا کر انجام دئے جاتے تھے۔
میں نے پروگرام کے ذمہ داروں سے عرض کیا کہ طلبۂ مدارس کو اسلامی بینک کاری کے نظام اور جدید اصول معیشت وتجارت سے آگاہ کرنے کے لئے آپ حضرات جو کوشش کررہے ہیں وہ قابل تعریف ہے لیکن اگر یہ کام دینی مدارس خود کریں تو اس کا فائدہ زیادہ ہوگا، میں نے عرض کیا کہ اس مقصد کے لئے زیادہ کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہے بل کہ اپنے نصاب میں ایک کتاب کے اضافے کی ضرورت ہے جو ابھی دو سال پہلے منظر عام پر آئی ہے اور جو اس موضوع پر منفرد حیثیت رکھتی ہے، کتاب کا نام فقہ البیوع ہے، مصنف شیخ الاسلام حضرت مولانا محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم ہیں، وہاں تو میں نے اختصار کے ساتھ یہ بات کہی تھی، آج کے اس مضمون میں اس کی کچھ تفصیل پیش کرنے کی کوشش کررہا ہوں، یہ موقع اس تجویز کے لئے غنیمت بھی ہے کہ چند روز بعد دار العلوم دیوبند میں کل ہند رابطۂ مدارس عربیہ کا ایک اجلاس منعقد ہونے والا ہے، ہوسکتا ہے اس موقع پر مدارس کے نصابِ تعلیم پر بھی کچھ بات ہو، ممکن ہے کسی صاحب نظر کی نظر اس مضمون پر پڑ جائے اور وہ فقہ البیوع کو شامل نصاب کرنے کی تجویز کو آگے بڑھا سکیں۔
دیوبند سے خاندانی اور نسبی نسبت رکھنے والے پاکستان کے ممتاز عالم دین مولانا محمد تقی عثمانی کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے، علم وادب کے میدان میں ان کی ہمہ جہتی خدمات نے ان کو دنیائے علم کا بے تاج بادشاہ بنا دیا ہے، تفسیر، حدیث، فقہ، تصوف اور اصلاح معاشرہ وغیرہ موضوعات کے حوالے سے ان کی گراں قدر اُردو، عربی اور انگلش تصانیف وتالیفات نے مقبولیت کے تمام ریکارڈ توڑ کر رکھ دئے ہیں، تصنیف وتالیف، وعظ وتقریر اور تدریس کے ساتھ ہی انھوں نے بہ طور خاص اپنے لئے ایک میدان وہ بھی چنا جو اب تک خالی تھا اور جس میں علماء راسخین کی سخت ضرورت تھی، وہ میدان ہے اسلامی معاشیات کا جس کا ایک بڑا حصہ اسلامی بینک کاری سے تعلق رکھتا ہے، گلوبلائزیشن کے اس دور میں پوری دنیا ڈی جیٹل ہوچکی ہے، اس کے ساتھ ہی ہم تجارت اور معیشت کے کچھ ایسے پہلوؤں سے بھی متعارف ہوئے ہیں جن کا اس سے پہلے تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا، نقد کا تصور ختم ہوتا جارہا ہے اور خرید وفروخت کی تمام سرگرمیوں کا انحصار بینک جیسے مالیاتی اداروں پر ہونے لگا ہے، اس کے ساتھ ہی سود کا دائرہ بڑھ رہا ہے جس کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ہے، جن اہل علم حضرات نے مالیاتی اداروں کو سودی سرگرمیوں سے پاک وصاف رکھنے کے لئے جدوجہد کی ہے ان میں مولانا تقی عثمانی کا نام سب سے نمایاں ہے، آج وہ پاکستان سمیت دنیا کے کئی ملکوں میں قائم اسلامی بینکوں کے ایڈوائز رہیں، اس کے ساتھ ہی اس موضوع پر ان کی تحقیقات کا سلسلہ بھی جاری ہے، پندرہ سال قبل انھوں نے خرید وفروخت کے موجودہ منظر نامے کو سامنے رکھ کر فقہی احکام کی تحقیق وترتیب کا گراں قدر کام شروع کیا تھا جو دو ضخیم جلدوں میں مکمل ہوکر سامنے آچکا ہے، کتاب کا مختصر نام فقہ البیوع ہے، مکمل نام ذ را لمبا ہے مگر یہ لمبا نام ہی ان کے بے مثال کام کا مکمل تعارف ہے کتاب کا پورا نام ہے، فقہ البیوع؛ علی المذاہب الاربعہ مع التطبیقات المعاصرۃ، مقارناً بالقوانین الوضعیۃ۔
نام سے پتہ چلتا ہے کہ اس کتاب میں فقہ اسلامی کے چاروں مذاہب کے وہ احکام ومسائل بیان کئے گئے ہیں جن کا تعلق خرید وفروخت سے ہے، مصنف نے صرف بیانِ احکام پر ہی اکتفا نہیں کیا بل کہ ان احکام کو موجودہ دور کے اصول تجارت پر بھی منطبق کرنے کی کوشش کی ہے، اس کے ساتھ ہی انھوں نے مختلف ملکوں میں رائج تجارتی قوانین کے ساتھ اسلامی قوانین کا موازنہ بھی کیا ہے، اس طرح یہ کتاب بیع وشراء کے احکام کا ایک ایسا انسائیکلوپیڈیا بن گئی ہے جس میں قدیم مسائل جدید تطبیقات اور معاصر تجارتی قوانین کے تقابل کے ساتھ موجود ہیں، یہ دو پہلو ایسے ہیں جو اس کتاب کو معاصر فقہی ذخیرۂ کتب میں ممتاز کرتے ہیں اور اس کی قدر وقیمت میں اضافہ کرتے ہیں، بلاشبہ یہ دونوں کام ایسے ہیں جو وہی شخص کرسکتا ہے جس کے فکر ونظر میں بے پناہ وسعت ہو، ایک طرف تو اس کی نظر مسائل کے قدیم ذخیرے پر ہو، دوسری طرف وہ عصری مسائل پر بھی گرفت رکھتا ہو، پھر اس میں یہ صلاحیت بھی ہو کہ وہ زمانے کے نئے مسائل پر قدیم مسائل کو منطبق کرسکے، اس کے ساتھ ہی وہ پیش آمدہ مسائل کا فقہی حل بھی پیش کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو، کتاب خود اپنے منہ سے بول رہی ہے کہ اس کے مصنف میں یہ تمام صلاحیتیں بدرجۂ اتم موجود ہیں، بہ طور خلاصہ ہم اتنا کہہ سکتے ہیں کہ اس میں مصنف نے مندرجہ ذیل امور پیش نظر رکھے ہیں۔
۱- اس کتاب میں فقہ حنفی کے ساتھ ساتھ باقی تینوں فقہی مکاتب فکر کے تمام اہم مسائل ان کے مستند اور بنیادی مآخذ کے حوالوں کے ساتھ ذکر کئے گئے ہیں۔
۲- اسلامی قوانین تجارت کے ساتھ بعض یورپین ملکوں کے قوانین بھی حسب ضرورت ذکر کردئے گئے ہیں تاکہ دونوں طرح کے قوانین پڑھنے والوں کے سامنے آجائیں اور پڑھنے والوں کو یہ معلوم ہوسکے کہ انسان کے وضع کردہ قوانین کے مقابلے میں وحی الٰہی سے مستنبط قوانین انسانیت کے لئے زیادہ مفید ہیں۔
۳- کتاب میں جدید مسائل کا بہ طور خاص ذکر کیا گیا ہے، اس کے ساتھ ہی کتاب وسنت کی روشنی میں ان مسائل کا حل بھی پیش کیا گیا ہے، حسبِ ضرورت معاصر علماء کی آراء بھی پیش کی گئی ہیں،مصنف نے بہت سے مسائل میں اپنا نقطۂ نظر بھی سامنے رکھا ہے اور اس کے لئے مضبوط دلائل بھی فراہم کئے ہیں۔
۴- کتاب کا انداز بیان سہل ہے، نہ بہت طویل عبارتیں ہیں کہ پڑھنے والوں میں اکتاہٹ پیدا ہو اور نہ بہت ایجاز ہے کہ طبیعتیں الجھ جائیں، ہر مسئلہ فقہی ترتیب پر نہایت وضاحت کے ساتھ پیش کیا گیا ہے اور ساتھ ساتھ دلائل بھی ذکر کردئے گئے ہیں۔
۵- اس کتاب کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس میں قدیم فقہی اصطلاحات کے ساتھ نئی اصطلاحات بھی بیان کی گئی ہیں اور ان کی مرادف انگریزی اصطلاحات بھی لکھ دی گئی ہیں، یہ اصطلاحات ان لوگوں کے لئے مفید ثابت ہوں گی جو اسلامی بینکنگ میں دلچسپی رکھتے ہیں، آخر میں ان تمام اصطلاحات کو حروف تہجی کے اعتبار سے جمع کرکے ضمیمے کی شکل میں کتاب کے ساتھ ملحق کردیا گیا ہے۔
۶- کتاب کے آخر میں مصنف نے صیغۃ مقترحۃ لقانون البیع الاسلامی کے عنوان سے اپنی کتاب کی تلخیص بھی پیش کی ہے، اگر کسی اسلامی ملک کو اللہ توفیق دے اور وہ اپنے یہاں اسلامی قانون تجارت ومعیشت نافذ کرنا چاہے تو وہ کتاب کی اس تلخیص کو رہ نما بنا سکتا ہے۔
معلوم ہوا ہے کہ گجرات کے متعدد مدارس نے مذکورہ بالا تلخیص کتاب کو ہدایہ کے نصاب میں داخل کرلیا ہے، گجرات ہی کے ایک عالم نے دار العلوم دیوبند کے استاذ حدیث مولانا نعمت اللہ اعظمی کی رائے اور مشورے سے ’’اسلامی قانون خرید وفرخت‘‘ کے نام سے اس کا اُردو ترجمہ بھی کیا ہے، ضرورت ہے کہ فقہ البیوع کو تمام مدارس کے نصاب کا حصہ بنایا جائے، ہدایہ آخرین کے سال میں اس کو داخل کیا جاسکتا ہے، افتاء کے نصاب میں اس کو شامل کرنا تو بے حد ضروری ہے، اس سے مستقبل کے مفتیوں کو معیشت وتجارت کے جدید وقدیم مسائل سے واقفیت تو ہوگی ہی اس کے ساتھ ہی ان میں یہ سلیقہ بھی پیدا ہوگا کہ وہ فقہی احکام کو عصری مسائل پر منطبق کرسکیں، ان میں جدید مسائل کا حل ڈھونڈنے کی صلاحیت بھی پیدا ہوگی، نیز وہ یورپین ممالک میں رائج قوانین سے بھی آگاہ ہوں گے، سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس کتاب کی تدریس کے ذریعے ہم کچھ ایسے افراد پیدا کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے جو بینک کاری کے موجودہ نظام کو اسلامی نظام میں تبدیل کرسکیں جس کے لئے لگاتار کوششیں ہورہی ہیں لیکن افراد کی کمی ان کوششوں کی راہ میں رکاوٹ پیدا کررہی ہے، خدا کرے ہماری یہ آواز صدا بہ صحرا ثابت نہ ہو۔
nadimulwajidi@gmial.com





