عالمی یوم خواتین اور حقوق کی جنگ

ڈاکٹر سیّد احمد قادری
8 مارچ کو عالمی سطح پر یوم خواتین کا انعقاد، اس کی اہمیت کے پیش نظر تقریباََ پوری دنیا میں ہوتا ہے۔ یوں تو ہمارے ملک میں کہیں نہ کہیں پورے سال ہی خواتین پر ہونے والے ظلم ،تشدّد، بربریت اور مختلف طرح کے استحصال کے واقعات کی خبریں بازگشت کرتی رہتی ہیں ، چند سال قبل ہی عالمی یوم خواتین کے موقع پر ناگا لینڈ اور نربھیا آبرو ریزی کا معاملہ پورے ملک میں ہنگامے کی صورت میں موضوع بحث بنا ہوا تھا۔ نربھیا معاملے میں بی بی سی نے جیل میں سزا کاٹ رہے مجرم مکیش کا انٹرویو لے کر ڈاکومینٹری فلم بنائی تھی، جس میں مجرم نے جس انداز سے باتیں کی تھیں، وہ ہمارے سماج اور معاشرے کو شرمندہ کر دینے والا تھا۔ مکیش کی باتیں سن کر ایسا لگا تھاکہ اسے اپنے کئے گئے جنسی ظلم و بربر یت کی انتہا پر کوئی پشیمانی نہیں ، بلکہ بے شرمی سے اس نے کہا تھا کہ عصمت دری کے وقت نربھیا کو مزاحمت نہیں کرنا چاہئے تھا ۔
اس حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ مرد اساس سماج اور معاشرے میں خواتین کو جو حقوق اور انصاف ملنا چاہئے تھا ، وہ اب تک نہیں ملا ۔ مردو ںکی برتری حاصل شدہ سماج میں، خواتین کے اندراپنے ساتھ ہو رہے ظلم ، تشدّد اور استحصال کے خلاف، آواز بلند کرنے کی پہلے ہمّت تھی ، نہ حوصلہ تھا اور نہ ہی جرأت تھی۔
لیکن 8 مارچ 1957 ہی عالمی سطح پر وہ اہم تاریخی دن ہے ، جب امریکہ کے ایک کپڑا مِل میں مزدور خواتین نے کام کے اوقات کو سولہ گھنٹے سے دس گھنٹہ کرنے اور اجرت بڑھانے کے لئے پہلی بار صدائے احتجاج بلند کی تھی ، اعتراض اور احتجاج کا سلسلہ جاری رہا اور آخر کار ان مزدور خواتین کو 1908ء میں جد و جہد کا صلہ ملا ۔ 8 مارچ 1915 کو اوسلو (ناروے) کی عورتوں نے پہلی عالمی جنگ میں انسانی تباہی و بربادی بھی پر سخت ردّ عمل کا اظہار کیا تھا ۔ 8 مارچ 1917ءکو روسی خواتین نے امن اور بقائے باہمی کے لئے آواز بلند کی تھی۔ دھیرے دھیرے یہ 8 مارچ عالمی سطح پر خواتین کے لئے حق ، خود اختیار ی اور عزت و افتخار کے پیغام کا دن بن گیا اور مسلسل خواتین کے پُر زور مطالبات نے اقوام متحدہ کو آخر کار مجبور کر دیا ،اور اس نے خواتین کے حقوق اور انصاف کے لئے 8 مارچ 1975ء سے 8 مارچ 1985ء تک عالمی خواتین دہائی کا اعلان کیا کہ اس دہائی میں عالمی سطح پر خواتین کے ساتھ ہو رہے ناروا سلوک ، ظلم ، تشدّد، بربریت، استحصال اور نا انصافی کو ختم کر انھیں حقوق انسانی کا تحفہ دینے کے ساتھ ساتھ قومی اور بین ا لاقوامی سطح کی ترقی رفتار میں شامل کیا جائے ۔
اقوام متحدہ کی ایسی کوششوں کا ترقی یافتہ ممالک میں مثبت نتائج دیکھنے کو ملے ، لیکن دوسرے بہت سارے ممالک بشمول بھارت میں عالمی خواتین دہائی بس ایک رسم ادائیگی بھر رہی ۔
حقیقت یہ ہے کہ بین الاقوامی سطح پر خواتین کے حقوق اور انصاف کے لئے بہت ساری کوششیں ہو ئی ہیں۔ جان اسٹوارٹ مل جیسے مفّکر نے انسانی آزادی کے تصور کو ظاہر کرتے ہوئے حقوق نسواں کی طرف داری کی اور سچ کو سچ کہنے کے لئے حوصلہ اور جرأت کو وقت کی ضرورت بتایا تھا۔
1967ء کے بعد 1980ء میں کوپ ہینگن میں دوسرا بین القوامی خواتین کانفرنس کا انعقاد کیا گیا اور
1985 میں نیروبی میں خواتین کی ترقی کے لئے بہت ساری پالیسی اور حکمت عملی تیار کی گئیں ۔ 1992ء میں خواتین اور ماحولیات کا جائزہ لینے کے لئے اس بات کو بطور خاص نشان زد کیا گیا کہ خواتین اور ماحولیات، ان دونوں پر تباہی کے اثرات نمایاں ہیں۔ لہٰذا ماحولیات کے تحفظ میں خواتین کی حصّہ داری کی اہمیت کو بطور خاص سمجھا جائے۔
1993ء میں یوم خواتین کے موقع پر انسانی حقوق پر منعقدہ، ویئنا عالمی کانفرنس میں حقوق نسواں کے مُدّعے کو حقوق انسانی کی فہرست میں شامل کیا گیا اور خواتین پر ہو رہے تشدّد اور استحصال کو ختم کرنے کی ہر ممکن کوشش کا اعلان کیا گیا ۔ 1995ء میں منعقد چوتھے عالمی خواتین کا نفرنس میں خواتین کے وجود اور ترقی میں سدّ راہ بن رہے نکات پر گہری تشویش ظاہر کی گئی اور ان کے سد باب کے لئے” پلیٹ فارم برائے ایکشن “ اپنایا گیا ۔ جس پر پوری دنیا میں بہت سنجیدگی سے غور و فکر کیا گیا ۔
ایسی تمام کوششوں سے بہت سارے ممالک میں بہتر نتائج سامنے آئے ، لیکن افسوس کہ بھارت سمیت بہت سے ایسے ممالک ہیں ، جہاں ان مساعی کوششوں کی روشنی ، خواتین کے تئیں سطحی ذہنیت کو بدلنے میں کامیاب نہیں ہو سکی ہیں۔
خواتین کے جنسی استحصال کےخلاف سخت سے سخت قوانین بنتے رہے ہیں ، لیکن ان پر سنجیدگی سے کبھی بھی عمل در آمد نہیں ہو ا ، جس کی بنا پر خوف ِ قوانین ختم ہو چکا ہے ۔ ہماری حکومت اس وقت جاگتی ہے ، جب جلسہ، جلوس ، احتجاج اور مظاہرے زور پکڑتے ہیں۔ 1980ء میں آزاد بھارت میں پہلی بار خواتین نے متحّد ہو کر متھرا عصمت دری کے خلاف اپنی زبردست طاقت کا مظاہرہ کیا تھا، جس سے حکومت اور انتظامیہ کو مجبور ہو کر متھرا جنسی زیادتی معاملہ پر دوبارہ غور کرتے ہوئے سنوائی کرنا پڑی تھی، ساتھ ہی ساتھ عصمت دری سے متعلق قوانین میں ترمیم کے لئے بھی مجبور ہونا پڑا تھا۔ یہ یقیناََ بھارت کی خواتین کے اتحاد اور جد و جہد کی بڑی کامیابی تھی۔
لیکن ان تمام کوششوں اور قوانین کے باوجود عصمت دری کے واقعات میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔ جنسی زیادتی کی شکار عورتوں اور بچّیوں کا مستقبل کس قدر تاریک ہو جاتا ہے ، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایسی لڑکیا ں موت کو گلے لگانے کو زیادہ ترجیح دیتی ہیں اور جو کسی وجہ کر خودکشی نہیں کر پاتی ہیں ، وہ زندگی بھر ،بے حِس سماج میں بے وقعت اور ذلّت بھری زندگی گزارنے پر مجبور ہوتی ہیں ۔
ایسی لڑکیوں کے لئے ، میروالا، پاکستان کی بہادر ، جانباز ، جرأت مند اور حوصلہ مند مختارن مائی جہادی عورت کی علامت بن کر سامنے آتی ہے ۔جو پوری دنیا کی دبی کچلی اور نا خواندہ عورتوں کی نگاہوں کی مرکز بنی ہوئی ہے۔ مختارن مائی کا قصّہ بہت تفصیل طلب ہے، مختصر طور پر بس اتنا کہا جا سکتا ہے کہ1972 ءمیں پاکستان کے مظفر گڑھ کے میر والا قصبہ میں پیدا ہونے والی مختارن مائی کے بارہ سالہ بھائی شکور پر22 جون 2002ء میں یہ الزام لگا یا گیا کہ اس نے مستوئی قبیلہ کی ایک بیس سالہ لڑکی کی آبرو ریزی کی ہے ۔ جس کی پاداش میں اس قبیلہ کے لوگوں نے اس لڑکے پر ظلم و تشدّد کی انتہا کر دی اور اسے قید میں ڈال دیا ۔ اس کی بے گناہی ثابت کرنے جب مختارن مائی، مستوئی، جرگا پنچایت میں پہنچی تو اسے کہا گیا کہ زنا کا بدلہ زنا ہے اور پنچایت کے حکم کی تعمیل میں کئی مسلح افراد کی مدد سے اس نا خواندہ، معصوم اور غربت و افلاس کی ماری لڑکی کی اجتمائی آبرو ریزی کی گئی ۔ اس جنسی ظلم و زیادتی کی انتہا کے بعد مختارن بائی نے دو بار خود کشی کی کوشش کی ، لیکن غیبی طاقت نے اسے ایسا کرنے سے روک دیا اور بعد میں، اس نے اپنا ارادہ بدلتے ہوئے جرگا پنچایت میں ہوئے اس غیر اسلامی فیصلہ اور غیر انسانی سلوک کے خلاف سینہ سپر ہو کر کھڑی ہو گئی اور مقامی پولیس اسٹیشن سے لے کر سپریم کورٹ تک کا دروازہ کھٹکھٹا یا ۔ عدلیہ ، انتظامیہ اور حکومت سے اسے انصاف نہیں ملا ، پھر بھی اس نے ہمّت نہیں ہاری اور مسلسل وہ میڈیا اور کچھ خواتین سماجی کارکنان کے تعاون سے جد و جہد کرتی رہی ۔ لاہور ہائی کورٹ نے تو یہ کہہ کر مقدمہ خارج کر دیا کہ اس معاملے میں ایسے دو گواہ نہیں ہیں ، جنھوں نے آبرو ریزی کے اس عمل کو یوں دیکھا ہو کہ جیسے سرمہ دانی میں سلائی جاتے ہوئے دیکھتے ہیں ۔
لیکن جب معاملہ طول پکڑنے لگا اور اس کی بازگشت بیرون ممالک میں ہونے لگی، تب حکومت نے تلافی کے طور پر ہرجانہ کی رقم دی اور ملنے والی اس رقم سے مختارن مائی نے وہ کا رنامہ انجام دیا ، کہ جس کا تصّور بھی نہیں کیا جا سکتا ۔ اس رقم سے مختارن مائی نے اپنے گاؤں میں ایک اسکول قائم کیا ، جہاں ابتدائی دنوں میں صرف چار سے چھہ بچیاں تھیں ۔ لیکن جب مقصد جنون بن جائے تو پھر راہ آسان ہو جاتی ہے اور مختارن مائی کے ساتھ یہی ہوا ۔ بعض مخّیر حضرات اور بیرون مما لک کے مالی تعاون سے چار چھہ بچیوں پر مشتمل یہ اسکول ہزاروں نادار ، بے بس، بے کس اور بے سہارا بچوں کو تعلیم دینے کا اہم مرکز بن گیا۔ جنسی اور نفسیاتی تشدّد کی شکار لڑکیوں کے لئے شیلٹر ہاؤس اور قانونی امداد کے لئے الگ قانون دانوں کا انتظام اس نے کیا ۔ ایسے کسی بے رحم حادثہ کی شکار عورت کو ہسپتال پہنچانے کے لئے ایمبولنس بھی ہے، اس سے دور دراز کی بچیوں کو اسکول لانے لے جانے کا بھی کام لیا جاتا ہے۔
مختارن مائی نے جس حوصلہ ، ہمّت اور جرأت کے ساتھ یہ لڑائی لڑی، اس کے اس جہاد نے اسے عالمی سطح پر متعارف کرا نے ساتھ ساتھ ایک منفرد پہچان دے دی ۔ 2003 ءمیں جنیوا کانفرنس برائے حقوق انسانی اور دیگر کئی تنظیموں نے مختلف اوقات میں اس عظیم خاتون کو اس منزل تک پہنچنے کی روداد سننے اور اس کے تجربات سے دوسری ایسی خواتین کو حوصلہ، ہمّت اور جرأت و جد و جہد کے ساتھ نبرد آزما ہونے کی تلقین کرنے کے لئے بلایا جاتا ہے۔ ’ جد و جہد برائے انصاف ‘ اور ’ ظلم کو علم سے ختم کرو ‘ کا نعرہ دینے والی ایسی علامتی خاتون کو سامنے رکھ کر اگر عالمی یومِ خواتین کے موقع پر بہت سنجیدگی سے لائحہ عمل تیار کیا جائے اور قانون کی بالا دستی برقرار رکھنے کی کوشش کی جائے تو یقیناً خواتین کے ساتھ آئے دن ہونے والے ظلم و زیادتی ، استحصال اور بربریت سے نجات ملنے کے ساتھ ساتھ خواندہ سماج کی تشکیل ہوگی، جس سے بہت سارے مسائل خود بخود ختم ہو جائیں گے۔ بس شرط یہ ہے کہ عالمی یوم خواتین کی اہمیت کو سمجھا جائے اور مرد بھی اس میں اپناعملی تعاون دیں ۔ ویسے ان دنوں مودی حکومت کے بہت خوبصورت نعرہ ’ بیٹی بچاؤ، بیٹی پڑھاؤ ‘ کی بازگشت بھی پورے ملک میں سنائی دے رہی ہے ۔ حکومت بہار نے بھی طالبات کو سائیکل اور دیگر سہولیات دے کر یقینی طور پرتعلیم سے جوڑنے کی جو کوشش کی ہے ، اس کے اچھے نتائج بھی دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ آج کے یوم خواتین کے موقع پر 1931ء میں انڈئن نیشنل کانگریس کے کراچی میں منعقدہ اجلاس میں خواتین کو بہت ساری بنیادی اور دستوری حقوق دینے کا جو اعلان ہوا تھا ، جس میں کہا گیا تھا کہ ’ جنس کے اختلاف کی بنا پر کوئی تخصیص نہیں برتی جائے گی‘ اس کی یاد بھی آتی ہے اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ اکیسویں صدی میں ہمارے ملک اور بیرون ممالک کی خواتین نہ صرف اپنے حقوق حاصل کرنے میں کامیاب ہیں ، بلکہ ترقی کے منازل بھی بہت تیزی سے طے کر رہی ہیں جو خوش قوم و ملک کے لئے آئند ہے۔
email: squadri806gmail.com

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں