ڈاکٹر فرقان حمید
مجھے ترکی میں رہائش پذیر ہوئے تقریباً 30 سال کا عرصہ بیت چکا ہے اور میں نے اپنے قیام کے دوران پہلی بار پاکستان سے کسی میڈیا ٹیم کو اپنے وسائل سے ترکی کا دورہ کرتے ہوئے دیکھا ہے ۔ پاکستان سے صدر اور وزیراعظم کے ساتھ تو بڑی تعداد میں صحافی ترکی آتے رہے ہیں اور یا پھر ترکی کے مختلف اداروں کی جانب سے پاکستانی میڈیا کو ترکی کے دورے کی دعوت دی جاتی رہی ہے لیکن یہ پہلا موقع ہے کہ54 رکنی پاکستانی میڈیا ٹیم ترکی دورے پر تشریف لائی ہے۔ اگرچہ مجھے بھی یقین نہ تھا کہ پاکستان سے کوئی بھی میڈیا ٹیم اپنے مالی وسائل پر بھرو سہ کرتے ہوئے صرف ترکی کے حقائق کو جاننے کے لیے یہاں کے دورے پر تشریف لائی ہے اس لیے اپنی اس بات کو کنفرم کرنے پاکستان سے حکام سے بات چیت کی تو انہوں نے بھی میری ہی سوچ کی تائید کیونکہ آج تک کبھی اتنی بڑی تعداد میں پاکستانی صحافیوں نے ترکی کا دورہ نہ کیا تھا۔ اس دوران جب پاکستان میڈیا کلب PMCکے صدر ضیا ء خان نے مجھ سے رابطہ قائم کیا تو میں ان سے سب سے پہلے ان کے سپونسر ہی کے بارے میں آگاہی حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن انہوں قطعی طور پر یہ دورہ پاکستان میڈیا کلب کے وسائل سے کیے جانے سے آگاہ کیاجو میرے لیے بڑی خوشگوار حیرت کا باعث تھا کہ اب پاکستان کی میڈیا ٹیمیں بھی اپنے مالی وسائل پر بھروسہ کرتے ہوئے غیر ممالک کا دور کررہی ہیں۔ پاکستان میں ترکی سے متعلق خبروں پر زیادہ تر غیر ملکی میڈیا پر ہی انحصار کیا جاتا ہے اور شاذو نادر ہی پاکستانی میڈیا نے ترکی سے متعلق براہ راست طور پر کوئی خبر پیش کی ہو۔ پاکستانی میڈیا اس حد تک مغربی میڈیا سے متاثر ہے کہ وہ صدر ایردوان کا نام بھی مغربی یا عرب میڈیا پر بھروسہ کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں جبکہ جدید جمہوریہ ترکی میں برپا ہونے والے ” حروفِ تہجی ” کے انقلاب کے نتیجے میں لفظ ” غ” ترکی زبان سے خارج کردیا گیا تھا لیکن آج بھی ہمارے کئی ایک صحافی دوست ان کے نام کو غلط “ایردوغان” یا پھر “اردگان” کے طور پر لکھنے کو ترجیح دیتے ہیں حالانکہ اُردو زبان میں تلفظ کے لحاظ سے ان کا نام ” ایردوان” تحریر کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان میڈیا کایہ دورہ اگرچہ بڑا مختصر تھا لیکن بڑے دور رس نتائج کا حامل تھا اور امید یہی ہے کہ پاکستان میڈیا کلب کی پیروی کرتے ہوئے دوسری میڈیا تنظیمیں بھی ترکی کا دورہ کرتی رہیں گی۔ جیسا کہ پہلے عرض کرچکا ہوں پاکستانی میڈیا مغرب سے بہت متاثر ہے اور مغربی میڈیا ترکی سے اچھی خبروں کے بارے میں بڑے بخل سےکام لیتا ہے جبکہ منفی خبریں پھیلانے میں بڑا شیر ہے اور پاکستانی میڈیا نے کبھی بھی ان منفی خبروں کوپیش کرنے سے گریز نہیں کیا ہے۔
پہلی بار ترکی کے دورے پر تشریف لائے ہوئے پاکستان میڈیا کلب کے اراکین نے اپنا پہلا روز استنبول کے تاریخی شہر کا نظارہ کرتے ہوئے گزارا ۔پاکستان میڈیا کلب کے اراکین نے اگلے روز صبح سویرے چار بجے بس کے ذریعے انقرہ کے لیے روانہ ہونا تھا اور انقرہ میں صبح ساڑھے نو بجے ان کی یورپی یونین کے امور کے نائب وزیر علی شاہین ( جو پاکستان میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرچکے ہیں ) سے ملاقات متوقع تھی لیکن میڈیا ٹیم کی تھکاوٹ کی وجہ سے روانگی میں کافی تاخیر ہوئی اور میڈیا ٹیم ساڑھے بارہ بجے انقرہ پہنچے لیکن اس وقت تک علی شاہین، شام سے ملحقہ شہر غازی انتیپ میں میٹنگ کی وجہ سے روانہ ہوچکےتھےتاہم ان کی منسٹری میں موجود ان کے معاون نے پاکستانی میڈیا کلب کی ٹیم کو خوش آمدید کہا اور پاکستانی میڈیا کو ترکی اور یورپی یونین کے تعلقات اور ترکی کی یورپی یونین کی مستقل رکنیت کے بارے میں بریفنگ دی۔ یہاں پر ہی میڈیا کلب کے صدر کی خواہش پر راقم نے ترکی سے متعلق مختصر سی معلومات فراہم کیں تاکہ میڈیا ٹیم کو متعلقہ حکام سے سوالات کرنے میں آسانی رہے۔ اس کے بعد ترکی کے محکمہ پریس اینڈ انفارمیشن کی جانب سے پاکستان میڈیا کے اعزاز میں دوپہر کے کھانے کا بندو بست کیا گیا تھا اور اس کے بعد میڈیا ٹیم ترکی کی قومی اسمبلی روانہ ہوئی جہاں پارلیمنٹ میں پاک ترک پارلیمانی دوستی گروپ کے چئیرمین مہمت بالتا اور پاکستان ترک کلچرل ایسوسیایشن کے چئیرمین برہان قایا ترک نے ان کا استقبال کیا۔ دونوں رہنما پہلی بار پاکستان میڈیا کے اتنی بڑی تعداد میں اراکین کو قومی اسمبلی کی عمارت میں دیکھ بہت خوش ہوئے۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے مہمت بالتا نے کہا کہ ” ہم امید کرتے ہیں کہ پاکستانی میڈیا ترکی کی جانب بھر پور توجہ دے گی کیونکہ ترکی اور پاکستان دونوں کو کسی تیسرے ملک کی بجائے براہ راست ایک دوسرے متعلق خبروں کا تبادلہ کرنے کی ضرورت ہے۔ مغربی میڈیا پر کسی صورت بھی انحصار نہیں کیا جاسکتاکیونکہ مغربی میڈیا جان بوجھ کر ترکی سے متعلق ڈس انفارمیشن کا طریقہ کار استعمال کررہا ہے۔ ترکی اور پاکستان جو دہشت گرد تنظیموں کے خلاف برسر پیکار ہیں اسلامی ملک ہونے کے ناتے ان کے خلاف مغربی ممالک میں منفی پرا پگینڈا جاری ہےجسسےبچنے کی ضرورت ہے ۔ ترکی اور پاکستان جو دونوں برادر اور دوست ملک ہیں کو ایک دوسرے سے قریبی رابطہ قائم کرتے ہوئے ایک دوسرے ملک کی خبر ایجنسیوں سے برارہ راست خبریں حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ اس موقع پر برہان قایا ترک نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ترکی اور پاکستان کے تعلقات دنیا میں مثال کی حیثیت رکھتے ہیں اور وہ پاکستان میڈیا کو ان ہی کے وطن “ترکی ” میں خوش آمدید کہتے ہیں۔ انہوں نے بھی دونوں ممالک کی میڈیا کے درمیان براہ راست تعلقات قائم کرنے اور خبروں کا تبادلہ کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ پاکستان میڈیا جن کا انقرہ میں قیام کا کوئی پروگرام نہیں تھا ، ایک رات کے قیام اور طعا م کا بندو بست برہان قایا ترک نے اپنےذاتی وسائل سے کیا تاکہ پاکستانی بھائیوں کو اپنے انقرہ میں قیام کے بارے میں کسی قم کی کوئی مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے ۔ اسی بارے میں رات کو جب برہان قایا ترک کی جانب سے ڈنر کا بندو بست کیا گیا تھا سفیر پاکستان جناب محمد سائرس قاضی نے پاکستان میڈیا کے صدر ضیاء خان کو بتایا کہ یہ ترکی ہی جہاں پاکستانی میڈیا کے قیام کا کوئی بندو بست نہ ہونے کے باوجود برہان قایا ترک نے انتظام کرتے ہوئے پاک ترک دوستی کے کس قدر گہرا ہونے کا ثبوت فراسہمکردیا ہے اگر آپ ترکی کے علاوہ کسی اور ملک میں ہوتے تو کوئی دوسرتے ملک میں پاکستانی میڈیا کے لیے اس طرح فوری طور پر قیام کا بندوبست نہ کیا جاتا جیسا کہ برہان قایا ترک نے کیا ہے۔ پارلیمنٹ کے بعد میڈیا ٹیم نے ڈیزاسٹرمینجمنٹ ” آفاد” آفس کا دورہ کیا جہاں ہر میڈیا ٹیم کو قدرتی آفات کے موقع پر کی جانے والی انسانی امدادا کے بارے میں معلومات فراہم کی گئی۔ برینگ میں پاکستان میں 2005ء میں زلزلے اور 2010ء میں سیلاب کے موقع پر ترکی کی جانب سے فراہم کی جانے والی امداد کے بارے میں بھی بریفنگ فراہم کی گئی۔ رات کو براہانقایا ترک کی جانب سے میڈیا کے اعزاز میں عشائیے کا اہتمام کیا گیا اور اس عشاءیے میں سفیر پاکستان اور پریس ایٹیچی کو بھی مدعو کیا گیا۔ اگلے روز میڈیا ٹیم ترکی اور شام سے ملحقہ علاقے غازی انتیپ روانہ ہوگئے جہاں انہوں نے کلیس میں پناہ گزینوں کی بستی کا دورہ کیا۔( پاکستانی میڈیا اس بستی کو دیکھ کر حیران رہ گیا کیونکہ ان کے زہنوں میں افغانستان کے مہاجرین کے لیے تیار کیے جاسنے والے کیمپ تھء جبکہ یہ بستی بہت ہی خوبصورت چھوٹی چھوٹی عمارتوں پر مشتمل تھی جہاں ڈسپنسری ، اسکول اور دیگر تمام سہلوتیں فراہم کرنے کے لیے جدید ٹیکنولوجی پر مشتل عمارتیں موجود تھیں۔ میڈیا ٹیم نے بستی کا دورہ کرنے کے بعد گورنر سےبھی ان کے دفتر میں ملاقات کی اور پناہ گزینوں سے متعلق معلومات حاصل کیں۔ اغازیانتیبپ کو گرونرا نے میڈیا ٹیم کو بتایا کہ ترکی میں اس وقت ساڑھے تین ملین کے لگ بھگ شامی پناہ گزین موجود ہین جن کی دیکھ بھال کا کام ترکی کود سرانجام دیتا ہے ۔ غازنیانتیپ کا دورہ مکمل کرنے کے بعد میڈیا ٹیم استنبول روانہ ہوگئی جہاں سے وہ پاکستان روعانہہوگئی اور اس طرح میڈیا ٹیم نے پہلی بنار ترکی کا دورہ کرتے ہقوئےاپنء آنکھوں سے ترکی کو دیکھا اور پھر ترکی کے الات کو ایک باردراوع دوست ملک ترکی سے متعلق اپنے اخبارات اور ٹوی چینلز کے لیے پیش کیا۔
اٹھاتے ہوئے اخبارات اور ٹی چینلز میں چلاتے رہے ہیں اور جب ترکی میں سن 2016ء میں ترکی میں ایردوان حکومت کا تختہ کی ناکام کوشش کی گئی تھی تو اس وقت بھی پاکستان کے میدیا میں ایردوان کے خلاف ہی خبروں کو بریکنگ نیوز کے طور پر جگہ دی گئی ہے اور صرف میں ہی واحد نمائندہ تھا جس نے پانچ گھنٹوں تک وقفے وقفے سے ترکی میں ناکام فوجی بغاوت کی جی نیوز پر لائیو کوریج کی تھی اور بعد میں پاکستان کے تمام ہی میڈیا نے جیو نیوز کی اس لائیو کوریج کا سراہا تھا اور صحافی بھائی آج بھی مجھے اس حقیقت پسندانہ کوریج پر مبارکباد پیش کرتے ہیں۔
(مضمون نگار ترکی کے صدر رجب طیب اردگان کے اردو ترجمان اور ٹی آرٹی میں اردو سیکشن کے انچارج ہیں)