نئی دہلی: 19؍مارچ
(ملت ٹائمز کی خصوصی رپوٹ )
ہند و نیپال کی سرحد پر واقع بہار کی عظیم دینی درس گاہ جامعہ عربیہ اشرف العلوم کنہواں میں اجلاس صد سالہ کی تیاریاں شباب پر ہے، پورے بہار کے مسلمانوں کی توجہ 24 تا 26 مارچ کو وہاں منعقد ہونے والے سہ روزہ صد سالہ اجلاس پر مرکوز ہے ، ہندوستان بھر کے مسلمان بے صبری سے اس تاریخ کا انتظار کررہے ہیں، جس میں اشرف العلوم کے سو سال مکمل ہوں گے ، ہندوستان کے جید علماء کرام اور اکابرین اپنی نگاہوں سے اس منظر کا مشاہدہ کریں گے ، عوام ایک نئی تاریخ اور تحریک کا مشاہد کرے گی ۔ اشرف العلوم کے سو سال مکمل ہونے پر پیش ہے ملت ٹائمز کی خصوصی رپوٹ ۔
آج سے سو سال قبل بہار میں تعلیمی اداروں کی شدید قلت تھی، اسکول وکالجز کے ساتھ مدارس کی تعداد بھی آٹے میں نمک کے برابر تھی ، کفر و الحاد کا زمانہ تھا انہیں ایام میں دارالعلوم دیوبند کے جواں سال فاضل مولانا صوفی رمضان رحمۃ اللہ علیہ نے ہند و نیپال کی سرحد پر ایک ادارہ قائم کرنے کا منصوبہ بنایا۔ ان کا مقصد کفر و شرک کا خاتمہ اور دینی علوم کا فروغ تھا ، چناں چہ 1338 ہجری مطابق 1918 میں کنہواں کی ایک بستی میں انہوں نے ایک تعلیمی ادارہ قائم کیا۔ اپنے شیخ حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ سے منسوب کرکے اشرف العلوم نام رکھا۔
کنہواں کے ایک زمین دار شخص مرحوم واعظ گماشتہ اپنے دو نواسے کو لیکر مدھوبنی میں واقع مدرسہ محمود العلوم دملہ پہونچے وہاں ان کی ملاقات سیتامڑھی کے ایک استاذ مولانا عبد العزیز بسنتی رحمہ اللہ سے ہوئی ، مولانا بسنتی رحمۃ اللہ علیہ نے مرحوم واعظ گماشتہ سے کہاکہ آپ کے دو بچے یہاں داخلہ لیکر تعلیم حاصل کرلیں گے لیکن پورے خطے کا کیا ہوگا، وہاں کوئی مدرسہ نہیں ہے ، کوئی تعلیم گاہ نہیں ہے ، گماشتہ مرحوم نے پوچھا آپ چاہتے ہیں کیا ہیں ، پھر مولانا نے بتایا کہ آپ اپنے علاقے میں ایک مدرسہ قائم کریں ۔ یہ بات ان کے ذہن و دماغ میں گردش کرنے لگی ، گھر آکر انہوں مدرسہ قائم کرنے کا فیصلہ کیا، سیتامڑھی کے ایک گاﺅں آواپور سے تعلق رکھنے والے دارالعلوم دیوبند کے نئے نئے فاضل مولانا صوفی رمضان علی سے ملاقات کرکے اپنا منصوبہ پیش کیا ، زمین کی تلاش کا سلسلہ شروع ہوا ، مختلف جگہوں کا انتخاب ہوا لیکن بات نہیں بنی، ایک دن مرحوم گماشتہ کے ایک کھلیان پر مولانا صوفی رمضان علی کے جانے کا اتفاق ہوا جہاں سے انہیں علم کی بو آئی اور گماشتہ مرحوم سے کہاکہ یہاں مدرسہ قائم کیا جائے ،اس مٹی سے علم کی بو آرہی ہے ، بالآخر اسی ویران جگہ پر مدرسہ قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ۔مولانا صوفی رمضان علی دارالعلوم دیوبند کے جواں سال فاضل تھے ،حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ سے بھی مراسلت کا سلسلہ جاری تھا اس لئے اپنے شیخ کے نام منسوب کرتے ہوئے انہوں نے اشرف العلوم اس کا نام رکھا ۔ سوئے اتفاق مولانا صوفی رمضان علی کی عمر نے وفا نہیں کی ،1438 میں مدرسہ قائم ہوا اور دو سال بعد 1340 میں اس دار فانی سے کوچ کر کئے ۔ ان کی وفات کے بعد رفیق ہمدم مولانا عبد العزیز بسنتی رحمۃ اللہ علیہ نے دملہ سے یہاں آکر اس ادارے کی باگ دوڑ سنبھالی اور 1971 تک اشرف العلوم کے نوک و پلک کو سنوراتے رہے ۔ اشرف العلوم سیتامڑھی کے جس گاﺅں میں واقع ہے اس کا نام کنہواں ہے ،یہ ہندوستان کا آخری گاﺅں ہے ، یہاں ملک کی سرحد نیپال کے گاﺅں شمسی سے ملتی ہے ۔
اشرف العلوم کنہواں کا شمار ہندوستان کے نمایاں مدارس میں ہوتاہے ،تقریباً 700 سے زائد طلبہ یہاں زیر تعلیم ہوتے ہیں، حفظ وناظرہ کے ساتھ عربی ششم تک کی تعلیم دی جاتی ہے ، یہاں کے بعد عموماً طلبہ دارالعلوم دیوبند یا مظاہر علوم کا رخ کرتے ہیں، ایک رپوٹ کے مطابق دارالعلوم دیوبند میں یہاں سے پڑھے ہوئے 99 فیصد طلبہ کا داخلہ ہوجاتا ہے ، عربی اور مولیت کی تعلیم کے حوالے سے پور بے بہار میں اشرف العلوم کو خصوصی امیتاز حاصل ہے ،یہاں سے فارغ طلبہ مختلف میدانوں میں دنیا کے مختلف خطوں میں نمایاں کارنامہ انجام دے رہے ہیں۔ قیام سے لیکر اب تک اشرف العلوم کو بنانے اور سنوارنے میں جن شخصیات نے نمایاں کارنامہ انجام دیاہے ان میں بانی مولانا صوفی رمضان علیؒ ، مولانا عبد العزیز بسنتیؒ ، مولانا قاری طیبؒ ،مولانا طیب کماویؒ ، مولانا داﺅدؒ کا نمایاں کردار رہا ہے ۔ علاوہ ازیں موجودہ مہتمم فقیہ ملت مولانا زبیر احمد قاسمی اور نائب مہتمم مولانا اظہار الحق مظاہری کی خدمات بھی ادارہ کی تعمیر و ترقی میں ناقابل فراموش ہے ۔
اشرف العلو م کے مہتمم فقیہ ملت مولانا زبیر احمد قاسمی نے ملت ٹائمز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اشرف العلوم کی شروع سے تعلیم پر توجہ رہی ہے، سو سال مکمل ہونے پر عوام کی خواہش اور مجلس شوری کے فیصلہ کے بعد سہ روزہ اجلاس عام کرنے کا فیصلہ کیا گیا تاکہ اشرف العلوم کی 100 سالہ خدمات سے عوام کو واقف کرایا جائے ۔یہ موقع تاریخی اور قابل فخر ہے ، کسی بھی ادارے کی عمر کا سو سال ہوجانا ادارہ ،اس کے بانین ، معاونین ، مخلصین ، ذمہ داران اور سبھی وابستگان کیلئے باعث فخر ہوتا ہے ۔
اشرف العلوم کنہواں کے نائب ناظم مولانا محمد اظہار الحق قاسمی نے ملت ٹائمز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ صد سالہ اجلاس کی نوعیت مروجہ جلسوں سے مختلف ہے ، یہ سہ روزہ اجلاس رات کے بجائے دن میں ہوگا ۔تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے مولانا نے بتایاکہ 24 مارچ کو تین نششتیں ہوگی پہلی نششت صبح 8 بجے سے ایک بجے تک، دوسری نششت عصر تا مغرب ، تیسری نششت مغرب تاگیارہ بجے شب ۔ جبکہ 26 مارچ کو آخری نششت صبح 8 بجے شروع ہوگی اور ایک بجے دعا پر صد سالہ اجلاس کا اختتام ہوجائے گا ۔
صد سالہ اجلاس میں ہندوستان کے بھر کے جید علماء کرام کو مدعو کیا گیا ہے جن میں دارالعلوم دیوبند کے مہتمم مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی ، آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے جنرل سکریٹری مولانا محمد ولی رحمانی ، جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا سید ارشد مدنی ۔دارلعلوم دیوبند کے نائب مہتمم مولانا عبد الخالق سنبھلی ۔ اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کے جنرل سکریٹری مولانا خالد سیف اللہ رحمانی ۔ جامعہ اشاعت العلوم اکل کوا کے بانی و مہتمم مولانا غلام محمد وستانوی ، آل انڈیا یوناٹئیڈ ڈیمو کریٹک فرنٹ کے قومی صدر مولانا بدر الدین اجمل قاسمی ۔ جمعیۃ علماء ہند کے جنرل سکریٹری مولانا محمود مدنی ۔ امارت شرعیہ کے ناظم مولانا انیس الرحمن قاسمی ۔ نائب ناظم مولانا ثناء الہدی قاسمی ۔ جامعۃ القاسم دارالعلوم الاسلامیہ سپول بہار کے بانی و مہتمم مولانا مفتی محفوظ الرحمن عثمانی وغیرہم کے نام سر فہرست ہیں ۔ علاوہ ازیں بہار کے وزیر اعلی نتیش کمار اور اپوزیشن لیڈر تیجسودی یادو کی بھی شرکت متوقع ہے ۔
صد سالہ اجلاس میں اشرف العلوم کنہواں میں حفظ و دور کرنے والے تمام طلبہ کی دستار بند ی ہوگی، اشرف العلوم کی تاریخ ، فتاوی اور اس طرح کی کئی کتابوں کا اجراء عمل میں آئے گا ، علماء و ائمہ اور اہل مدارس کیلئے خصوصی نششت ہوگی ۔ صد سالہ اجلاس کی تیاری جو ش و خروش کے ساتھ جاری ہے ، عوام و خواص دونوں میں جوش و جذبہ دیکھا جارہا ہے، سوشل میڈیا پر بھی اشرف العلوم کی تصاویر اور اجلاس کی تیاریوں کی سرگرمیوں کو یوزرس بڑی تعداد میں شیئر کررہے ہیں ۔





