جناب فیاض صاحب کے حوالے سے وائرل ویڈیو

عمر فاروق قاسمی
ان کے حوالے سے جو ویڈیو وائرل ہے اس کو دیکھئے جے شری رام کا نعرہ تو بےشک انہوں نے نہیں لگا لیکن اس ویڈیو میں فیاض صاحب صاف کہ رہے ہیں کہ بھگوان رام آدرش بھگوان تھے ہم لوگوں کے، ان کی پوجا، ان کی ارچنا ، ایسے شبھ یاترا میں ہم سب کو سبھی دھرم اولمبیوں کو ساتھ ہوکر ، گلے سے گلے مل کر کندھا سے ملا کر شبھ یاترا میں شامل ہونا چاہیے اور آخر میں بھارت ماتا کی جے، ــ بھگوان رام ہم لوگوں کے آدرش بھگوان تھے _ جب کہ لاالہ الا اللہ کا مطلب ہی یہی ہے کہ اللہ کے علاوہ کوئی پوجنے کے لائق (بھگوان) نہیں ہے ایک طرف ہر دن نماز میں کہتے ہیں کہ ’’ اے اللہ ہم تیری ہی پوجا کرتے ہیں ‘‘ دوسری طرف وہ کہہ رہے ہیں ’’ رام ہم لوگوں کے آدرش بھگوان تھے ‘‘ کیا مطلب ہے اس کا؟ بھگوان کا مطلب تو یہی ہوتا کہ جس کی پوجا کی جائے؛ پھر پوجا ارچنا میں شامل ہونے کی دعوت بھی تمام مذاہب کے لوگوں کو دے رہے ہیں، قومی یکجہتی کا مطلب یہ ہے کہ ہم دوسروں کو ان کے مذہب کے مطابق زندگی گزارنے کی چھوٹ دیں، دکھ درد اور پریشانیوں میں ان کا ساتھ دیں انسانی حقوق اور ہمدردی میں اس کے ساتھ ساتھ رہیں ان کو اگر خون کی ضرورت پڑے تو اپنا کلیجہ نچوڑ کر دے دیں، ان کی کڈنی اگر فیل ہوجائے تو اپنی دوسری کڈنی انہیں گفٹ دے دیں، نہ کہ اپنا مذہبی حکم بدل کر ان کی پوجا میں ہم بھی شریک ہوجائیں، کافروں نے حضور کو مصالحت کا یہی فارمولا دیا تھا کہ ــ ایک دن ہم آپ کے خدا کی پوجا کرتے ہیں دوسرے دن آپ ہمارے خداؤں کی پوجا کرلیں ــ لیکن خدا نے اس کو انکار دیا، قل یا ایھا الکافرون کی پوری تشریح اور تفسیر پڑھ لیں، اس لیے جناب فیاض صاحب کو اس کی وضاحت کرنی چاہیے کہ ہم لوگوں سے کیا مراد ہے صاف کہہ دینا چاہیے کہ ہم نے انجانے میں یہ غلطی کی ہے، ہم یا کوئی بھی مسلمان رام کو بھگوان نہیں مان سکتا ہماری زبان پھسل گئی ہے، ورنہ ان کے جو الفاظ ہیں وہ یقیناً شرک تک پہنچاتے ہیں، پھر یہ کہ ’’ بھارت ماتا کی جے ‘‘ بھی محل نظر ہے ، جب ہمارے برادران وطن ماں کے علاوہ کو ماتا بولتے ہیں تو کہیں نہ کہیں وہ ذات مراد ہوتی ہے ، جو ان کے یہاں پوجا کے لائق ہوتی ہے جیسے، درگا ماتا، سرسوتی ماتا، گنگا ماتا، بھارت ماتا، ان کے یہاں ان سبھی کی پوجا ہوتی ہے۔ بھارت ماتا بھی ان کی ایک دیوی ہے صرف ایک ملک مراد نہیں ہے بلکہ جب وہ بھارت ماتا بولتے ہیں تو اس سے وہ ذات مراد ہوتی جو پوجا کے لائق بھی ہو، بازاروں میں بھارت ماتا کی ایک تصویر بھی ملتی جو بھارت کے نقشے سے الگ ہوتی ہے، اس لئے اس جملے کے استعمال میں بھی شرک چھپا ہوا ہے ، بلا شبہ جناب ڈاکٹر فیاض صاحب ایک نیک طبیعت انسان ہیں، انسانی ہمدردی اور قوم و ملت کے لئے ہمیشہ وہ پیش پیش رہتے ہیں، راقم الحروف کے وہ خاندانی ماموں لگتے ہیں، چندر سین پور میں ان گھر اور میرے نانی ہال کے درمیان پچیس سے پچاس قدم کا ہی فاصلہ ہوگا، اکثر ملاقات میں وہ مجھے بھیگنا ( بھانجا) ہی سے پکارتے ہیں ، نماز اور قرآن کے بہت ہی پابند ہیں، الیکشن جیسے ہما ہمی کے موقع پر بھی ان کی نماز قضا نہیں ہوتی ہے، بلکہ عملی میدان وہ مجھ سے بہت آگے ہیں، لیکن یہ معلوم رہنا چاہیے کہ عقیدۂ توحید کے بغیر ہمارا کوئی عمل مقبول نہیں ہے، نہایت ہی افسوسناک خبر ہے۔ جناب ڈاکٹر فیاض احمد صاحب سے ایسی امید نہیں تھی، شرک اللہ کے نزدیک ناقابل معافی جرم ہے مرنے سے پہلے اگر توبہ نہیں کیا تو اللہ کبھی معاف نہیں کرے گا جس طرح شرک حرام ہے اسی طرح شرک کا علامتی اظہار بھی حرام ہے، یہی وجہ ہے کہ نماز بہتر عمل ہونے کے باوجود سورج نکلنے کے وقت حرام ہے، کیوں کہ اس وقت کچھ لوگ سورج کی پوجا کرتے ہیں تو پھر کھلم کھلا رام کو اپنا بھگوان ماننا کب جائز ہوگا،؟ ویسے یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ تقریر یا بھاشن میں زبان پر ان کی پکڑ مضبوط نہیں ہے ، الفاظ پر ان کا کنٹرول نہیں رہتا ہے میرے خیال میں ان سے چوک ہوئی ہوگی، اور اگر ایسا ہے تو انہیں اس کی وضاحت کرنی چاہیے ۔

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں