محمد عاقل حسین، مدھوبنی (بہار)
گذشتہ 17؍ مارچ سے سوشاسن بابو کا راج بہار تشدد کی آگ میں جھلس رہا ہے لیکن سوشاسن بابو کاضمیر ابھی تک جاگا نہیں ہے جو کئی سوال کھڑےکررہا ہے۔ جو سوشاسن بابو ہمیشہ ضمیر کا حوالہ دے کر اتحادی پارٹیوں سے رشتہ توڑ لئے مگر اب جس طرح سے ریاست کے کئی اضلاع تشدد کی آگ میں جل رہے ہیں اس کے باوجود سوشاسن بابو کا ضمیر انہیں جھنجھوڑ نہیں رہاہے۔ سوشاشن بابو کو معلوم ہونا چاہئے کہ یہ بہار ہے جس نےکانگریس جیسی نیشنل پارٹی کو ایک مرتبہ بہار سے واپس کیا تو اب تک وہ بہار میں واپس نہیں لوٹ سکی ہے۔ ویسے بھی ریاست کی کمان ڈی جی پی کے ہاتھ سونپی گئی تھی تو سیاسی گلیاروں سے آوازیں آنے لگی تھی کہ پھر کہیں 1989؍ کا بھاگلپور جیسا فرقہ وارانہ فساد برپا نہ ہوجائے۔ بھاگلپور میں رام شیلا پوجن کے دوران فساد ہوا تھا جس میں تقریباً 1؍ہزار افراد کی جانیں گئی تھیں۔ اس وقت وہاں کے ایس ایس پی موجودہ ڈی جی پی کے ایس دوبے ہی تھے۔ حالیہ حالات پر اگر روشنی ڈالیں تو گذشتہ 17؍مارچ کو بھاگلپور سے شروع ہوا فرقہ وارانہ فساد ابھی تک تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ بھاگلپور، اورنگ آباد، سمستی پور، مونگیر اور پھر نالندہ تک یہ آگ پہنچ چکی ہے۔ اب ہر کسی کو یہی انتظار ہے کہ ہمارے سوشاشن بابو اس تشدد کو روکنے کے لئےاپنے ضمیر کو آواز دیں۔ کیوںکہ سوشاشن بابو بھی اسی نالندہ سے تعلق رکھتے ہیں لیکن سوشاشن بابو وزیر اعلیٰ نتیش کمار کا اب تک ضمیر نہیں جاگ سکا ہے۔ بھاگلپور میں 17؍مارچ کو جو فرقہ وارانہ فساد ہوئے اس میں مرکزی وزیر اشونی چوبے کا بیٹا ارجت چوبے کا اہم رول رہا۔ جس کے بعد ارجت کو نامزد ملزم بنایا گیا اور مقامی کورٹ نے اس کےخلاف گرفتاری وارنٹ بھی جاری کیا۔ لیکن این ڈی اے حکومت مرکز اور ریاست میں کام کررہی ہے اور ان کے ہی مرکزی وزیر ریاست وملک کی فکر کئے بغیر اپنے بیٹے کے دفاع میں کھل کر سامنے آچکے ہیں، میڈیا کے سامنے کھل کر انہوں نے ایف آئی آر کو کاغذ کا ٹکرا بتاتے ہوئے بیٹے کو بے داغ بتادیا۔ لیکن سوشاشن بابو کی پولیس وارنٹ جاری ہونے کے بعد بھی ان کے بیٹے کو گرفتار کرنے میں ناکام ثابت ہورہی ہے۔ ارجت کھلے عام ریاست کی پولیس کو چیلنج کرتے ہوئے پٹنہ میں ایک جلوس میں شامل ہوا اور خود کو بے قصور ثابت کرنےکی کوشش میں لگا ہوا ہے۔ مرکزی وزیر کے بیٹے کی جگہ اگر کوئی عام آدمی ہوتا تو پولیسیا کارروائی کب کی ہوچکی ہوتی۔ سوشاشن کی پولیسیا کارروائی نہیں ہونے سے شرپسند عناصر کے حوصلے بلند ہورہے ہیں اور یہی وجہ رہی کہ اورنگ آباد، مونگیر، سمستی پور میں بی جےپی، آر ایس ایس اور بجرنگ دل کے کارکنان نے کھلے عام نفرت کا ننگا رقص کیا۔ سمستی پور کے روسڑا میں بابری مسجد کی طرح ہی منصوبہ بند سازش کے تحت مسجد اور مدرسہ پر حملہ کیا گیا اور زبردستی مسجد پر چڑھ کر بھگوا جھنڈا لگاتے ہوئے قریب کے مدرسہ میں تعلیم حاصل کررہے طالب علموں کی پٹائی کی اور کتابیں باہر پھینک کر آگ لگادی گئی۔ جس طرح سے بجرنگ دل، آر ایس ایس اور بی جے پی کارکنان نےمنصوبہ بند طریقے سے روسڑا واقع مسجد پر حملہ کیا اس سے ثابت ہورہا تھاکہ اعلیٰ سطح پر منصوبہ بناکر مسجد کو منہدم کرنے کا منصوبہ تھا! اسی طرح کےحالات اورنگ آباد میں پیدا کئے گئے۔ یہاں مسلم آبادی والے حلقہ میں مسجد کے قریب پہنچ کر آکر بجرنگ دل، بی جےپی اور آر ایس ایس کارکنان نے ہنگامہ برپا کیا اور یہاں کے تقریباً 9؍مسلم علاقوں میں ہنگامہ آرائی کی گئی۔ اس میں 60؍لوگ زخمی ہوئے جس میں قریب 20؍پولیس افسران و اہلکار بھی شامل ہیں۔ اس کے باوجود بھی وہاں کی پولیس جس طرح سے کارروائی کرنی چاہئے وہ نہیں کرسکی ہے۔ ریاست بہار کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی ایک تاریخ رہی ہے۔ یہاں گنگا جمنی تہذیب کے تحت لوگ زندگی گزارتے ہیں، اس کی مثال ملک ہی نہیں بیرون ممالک بھی دی جاتی ہے۔ کیوںکہ جب ریاست میں گذشتہ اسمبلی انتخاب ہوئے تھے اور بی جے پی پورے ملک میں گؤ کشی، لوجہاد، گھر واپسی کےنام پر فرقہ وارانہ ماحول بگاڑنے کی کوشش کررہی تھی تو یہاں کے سیکولر عوام نے اس کا مضبوط جواب دےکر این ڈی او کو شکست فاش دی تھی۔ اس وقت عظیم اتحاد میں سوشاشن بابو بھی انتخابی ریلیوں میں بی جے پی کو ملک کی سب سے بڑی فرقہ پرست پارٹی بتارہے تھے۔ اسی کے بدولت سوشاشن بابو کو عظیم اتحاد کے ساتھ بہار کا کمان یہاں کے عوام نے پھر سے سونپا اور سوشاشن بابو کچھ ہی مہینوں کے بعد بدعنوانی کا مدعا لاکر عظیم اتحاد سے علیحدگی اختیار کرلی۔ عوامی پریس کانفرنس کر انہوںنے کہاکہ بدعنوانی کے معاملے میں ان کا ضمیر گوارا نہیں کررہا ہے اسی لئے عظیم اتحاد سے الگ ہوکر پھر سے این ڈی اے میں شامل ہوگئے۔ لیکن اب ریاست کے عوام یہ پوچھ رہے ہیںکہ سوشاشن بابو نتیش کمار کا ضمیر کیا مرچکا ہے؟ کیونکہ جس طرح سے ریاست میں آر ایس ایس، بجرنگ دل اور بی جے پی کھل کر فرقہ وارانہ ماحول خراب کررہی ہے اس کے باوجود سوشاشن بابو کھل کر عوام کے سامنے نہیں بیان دے سکے ہیں۔ سوشاشن بابو کی کیا مجبوری ہے وہ مجھے نہیں معلوم مگر سوشاشن بابو کو اپنے ضمیر کو جھنجھوڑنا چاہئے۔ سوشاشن بابو کو معلوم ہونا چاہئے کہ یہ بہار ہے‘ جس نے 1989؍کےبھاگلپور فساد کے بعد اس فساد کے دوران اس وقت کے وزیر اعظم راجیو گاندھی بھی فوری بھاگل پور پہنچے مگر وہاں کے عوام کی شدید مخالفت کا انہیں سامنا کرنا پڑا تھا۔ اس کے بعد سے ریاست بہار کے عوام نے کانگریس کو دوبارہ بہار میں نہیں پنپنے دیا اور آج کانگریس اس کی جدوجہد کررہی ہے۔ کہیں ایسا ہی معاملہ سوشاشن بابو کے ساتھ بھی نہ ہوجائے۔ بتاتے چلیں کہ اکتوبر 1989؍میں بھاگلپور میں فساد ہوا جس میں تقریباً 1؍ہزار لوگوں کی جان گئی تھی۔ اس وقت کے وزیر اعلیٰ ستندر نارائن سنگھ نے ہائی کورٹ کی تین جج کی ایک کمیٹی جانچ کیلئے تشکیل دی تھی اور اس وقت کے تین جج کی کمیٹی نے جو رپورٹ پیش کی تھی اس میں اس وقت کے ایس ایس پی اور موجودہ ڈی جی پی کے ایس دوبے کی کارکردگی پر سوال کھڑا کیا تھا۔ اس میں مزید ذکر کیا گیا کہ انہوںنے ہی لوگوں کو فساد کے لئے اکسایا تھا۔ لیکن اس کے بعد ہائی کورٹ نے تین جج میں سے 2؍کی رپورٹ کو صرف نظر کر 1996؍ میں کارروائی کی تھی اور اس میں ایک اے ایس آئی کو قصوروار قرار دیتے ہوئے سزا سنائی گئی تھی۔ ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو سپریم کورٹ نے بھی برقرار رکھتے ہوئے کے ایس دوبے کو کلین چٹ دیدی تھی۔ جس کے بعد موجودہ ڈی جی پی کو 1998؍ سے ریاست کی جانب سےملنے والی سبھی سہولیات شروع کردیئے گئے جو ہنوز جاری ہے۔ ریاست کے سیکولر عوام سوشاشن بابو سے ایک ہی سوال کررہے ہیں کہ جب انہیں معلوم تھا کہ ڈی جی پی کا 1989؍ میں بھاگلپور فرقہ وارانہ فساد میں کردار تھا تو پھر انہیں ریاست بھر کی ذمہ کیوں دی گئی؟ وزیر اعلیٰ کو یہ بھی معلوم تھا کہ بی جے پی دنگا کرانےوالی پارٹی ہے !تو پھر انہوں نے اس سے ہاتھ ہی کیوں ملایا؟ کچھ بھی ہو مگربی جے پی اپنے میشن میں کامیاب ہوگئی ہےاور سوشاشن بابو کے ہاتھ بہار نکلتا جارہا ہے۔ اگر بی جےپی دنگائی پارٹی نہیں ہوتی تو پھر جس طرح سے اس کے مرکزی وزیر اشونی چوبے اورگری راج سنگھ جیسے لیڈر وقت وقت پر فرقہ وارانہ ماحول خراب کرنے والے بیانات دیتے رہتے ہیں اس کے باوجود این ڈی اے حکومت کے مکھیا اس طرح کی بیان بازی کرنے والے وزراء پر کارروائی کیوں نہیں کرتے؟ اس سے ثابت ہوتا ہےکہ ان وزراء کو ماحول خراب کرنے کی کھلی چھوٹ دی گئی ہے، کیونکہ آئندہ سال پارلیامانی انتخاب ہے اور بی جے پی کا یہی مقصد ہوتا ہے کہ انتخاب سے قبل انگریزوں کی طرح عوام کو بھڑکاکر اور ہندو مسلم میں تقسیم کردیاجائے اور اسی پر وہ آج بھی چل رہی ہے۔ اگر ایسا نہیں تو پھر اسی طرح کے حالات مغربی بنگال کے بھی ہیں لیکن وہاں ممتا بنرجی کی حکومت ہے جس پر مرکزی حکومت نے رپورٹ بھی طلب کی ہے مگر بہار کے معاملے میں مرکز بھی خاموشی اختیار کئے ہوئی ہے۔ کیوں کہ یہاں این ڈی اے کی حکومت ہے اور اس کی گود میں بیٹھ کر سوشاشن بابو راج کررہے ہیں۔ ریاست وملک کے گنگا جمنی تہذیب کی بقاء کے لئے ملک و ریاست کے سیکولر عوام کو ہی متحد ہوکر آگے آنا ہوگا تبھی اس طرح کی ذہنیت کو مات دی جاسکتی ہے اور ایسی سیاست کرنے والوں کو طمانچہ لگے گا۔ ہمارا ملک جس کے گنگا جمنی تہذیب اور جمہوری نظام کی مثال پوری دنیا میں دی جاتی ہے وہ قائم رہے گی۔
موبائل نمبر۔9835880322





