امام رشیدی کے اس عظیم حوصلے کو سلام !

امام رشیدی صاحب !آپ نے بیٹاکھوکر بھی انسانیت اور امن کی بات کی ہے ،اسلام کی حقیقی اور سچی تصویر پیش کی ہے ،لخت جگر کو قربان کرکے نفرت اور انتہاءپسندی پر گامزن طبقہ کو قیام امن کا فارمولادیاہے ۔آپ کی یہ قربانی رائیگا ں نہیں جائے گی ،آپ کے زبان سے نکلے ہوئے جملے مشعل راہ ثابت ہوں گے ،آپ کے اس عظیم جذبہ، حوصلہ ،تحمل ،قوت برداشت اور مذہب کی حقیقی ترجمانی کو ہم سلام پیش کرتے ہیں ۔

خبر در خبر :(553)
شمس تبریز قاسمی
”میر ے بیٹے کی موت ہوگئی ہے کوئی بات نہیں ،اس کی تقدیر یہی تھی ،اسی تاریخ میں اس کی موت ہونی تھی، یہ میرایقین اور ایمان ہے ۔آپ کو اگر مجھ سے محبت ہے ،میری تیس سالہ خدمات کا آپ کو پاس ولحاظ ہے تو خدا کے واسطے آپ انتقام لینے کے بجائے اس شہر میں امن بنائے رکھیئے ،شہر کو جلنے سے بچائیے ،ہم شہر اور شہریوں کا تحفظ چاہتے ہیں،ہمار اسلام امن وسلامتی کو ترجیح دیتاہے “۔ مغربی بنگال کے ضلع آسنسول کی مسجد کے امام مولانا امداد اللہ رشیدی کی زبان سے یہ جملے اس وقت نکلے جب ہندو انتہاءپسندوں نے ان کے 16 سالہ بیٹے کو مارمار کر شہید کردیاتھا،بی جے پی ایم پی بابل سپریو یہ نعرہ دے رہے تھے کہ کھال کھینچ لوںگا ۔امام صاحب کی محبت میں آسنسول کے ہزاروں مسلمان عیدگاہ میں جمع ہوگئے تھے ،سبھی معصوم بچے کی موت کا انتقام لینا چاہ رہے تھے ، فسادیوں پر ہلہ بولنے کیلئے امام صاحب کی جانب سے اشارہ ملنے کا انتظار کررہے تھے ۔شد ت جذبات سے بے قرار تھے ،ایسا لگ رہاتھاکہ معصوم کے انتقام لینے کیلئے یہ مجمع انتہاءپسند عناصر کی بوٹیاں تک نوچ ڈالے گا ۔
مولانا امداد اللہ رشید ی کے یہ جملے تاریخ کے اوراق میں سنہرے حروف سے لکھے جانے کے قابل ہیں،ہندوستان سمیت دنیا بھر میں امن وسلامتی کے قیام کیلئے نظیر ہے ،امن وآشتی پر لیکچر دینے والوں اور دنیا میں فروغ امن کے مشن پر کام کرنے والوں کو اس سے بہتر کوئی نظیر نہیں مل سکتی ہے کہ بیٹے کی موت کا انتقام لینے کے بجائے ایک شخص انسانیت کو بچانے کی بات کرے ۔اپنے عقیدت مندوں کو جنگ پر آمادہ کرنے کے بجائے انہیں صلح سمجھوتہ کا سبق پڑھائے ۔میرا خیال ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی صاحب کو بھی امام رشیدی کے اس جملہ سے سبق لینا چاہئے ،کم ازکم من کی بات میں اپنے بھگتوں سے انہیں یہ ضرور کہ دینا چاہیئے کہ ایک امام رشیدی ہیں جو لخت جگر کو کھوکر بھی سلامتی کی بات کرتے ہیں ایک تم لوگ ہو جو گائے کا نام پر انسانوں کا قتل کرتے ہو۔
امام رشید ی نے یہ بات ایسے وقت میں کی ہے جب پورا ہندوستان تشدد اور نفرت کی آگ میں جھلس رہاہے ،مذہبی ،سماجی ،ذاتی تشدد مسلسل پنپ رہی ہے ،آر ایس ایس مسلسل اسے بڑھاوا دے رہی ہے ، اس کی ذیلی تنظیمیں نفرت اور تشدد کو فروغ دینے میں مصروف عمل ہے ۔مرکز میں بر اقتدار بی جے پی حکومت بھی فساد ،تشدد اور انتہاءپسندی کی پالیسی پر عمل پیرا ہے ۔گذشتہ چار سالوں میں ہندوستان کا ہر علاقہ مذہبی انتہاءپسندی کا شکار ہوگیاہے ،کئی گاﺅ ں اور علاقے جہاں ہند ومسلم آپسی اتحاد ویکجہتی کے ساتھ رہتے تھے وہاں کی صورت حال اب بدل گئی ہے ۔اکثریتی فرقہ سے تعلق رکھنی والی نئی نسل انتہاءپسندی اور تشدد پر یقین کرنے لگی ہے ۔مسلمانوں کے خلاف نفرت اور عداوت کے ان کے ذہن ودماغ میں پیوست کردی گئی ہے ۔یہ ماحول ہندوستان کے مستقبل کیلئے شدید خطرہ اور تباہی کی علامت ہے ۔اس بڑھتی ہوئی ہندو انتہاءپسندی کے اصل شکاربھی وہی لوگ ہوں گے جو آج اس کی پشت پناہی کررہے ہیں۔ بی جے پی حکومت میں آر ایس ایس اور ہندوسماج کے ایک طبقہ کا حقیقی چہرہ بھی سامنے آگیاہے جس کی خمیر میں نفرت ،تشدد اور انتہاءپسندی کے علاوہ کوئی چیز نظر نہیں آتی ہے ۔ جن کے مذہبی رہنما اور اب یوپی کے وزیر اعلی ایک کے بد لے سو کی جان لینے کی بات کرتے ہیں ۔یہ اپنے بھگوان رام اور اس جڑے تہواروں پر خوشیاں منانے کے بجائے بے گناہوں کا قتل کرنے لگے ہیں۔فساد ،لڑائی،جنگ ،مساجد اور مدارس پر پتھرواﺅ ا،مسلمانوں پر حملہ ہندوتہواروں کی علامت بنا چکے ہیں ۔
مولانا امداد رشیدی کے اس عظیم جذبہ کو ہم سلام کرتے ہیں،اسلام کی حقیقی اور سچی تصویر انہوں نے پیش کرکے تمام ہندوستان سمیت دنیا بھر کے مسلمانوں کا سر فخر سے اونچا کردیا ہے ، اپنے عظیم حوصلہ ،صبر ،تحمل اور قوت برداشت سے انہوں نے واضح طور پر یہ ثابت کردیاہے کہ ہندوستان کا مسلمان ہر حال میں امن چاہتاہے ،سلامتی ان کی اولین ترجیح ہے ،عدوات ،نفرت اور تشدد سے انہیں شدید نفرت ہے ۔امام رشیدی جیسے لوگ انسانیت کے علمبر دار ،امن کے پیامبر اور سلامتی کے حقیقی ایمبیسڈر ہیں ۔ہندوستان کی تعمیر وترقی کے اصل پاسبان ہیں ۔ یہی اسلام کی سچی اور حقیقی تصویر ہے ،ہمار مذہب اسی انسانیت کا سبق پڑھاتاہے ۔اسلام میں ہی انسانیت ہے ۔
امام رشیدی صاحب !آپ نے بیٹاکھوکر بھی انسانیت اور امن کی بات کی ہے ،اسلام کی حقیقی اور سچی تصویر پیش کی ہے ،لخت جگر کو قربان کرکے نفرت اور انتہاءپسندی پر گامزن طبقہ کو قیام امن کا فارمولادیاہے ۔آپ کی یہ قربانی رائیگا ں نہیں جائے گی ،آپ کے زبان سے نکلے ہوئے جملے مشعل راہ ثابت ہوں گے ،آپ کے اس عظیم جذبہ، حوصلہ ،تحمل ،قوت برداشت اور مذہب کی حقیقی ترجمانی کو ہم سلام پیش کرتے ہیں ۔