امریکی دہشتگردی پر ایک نظر رنگ لائےگا خونِ شہیداں

تحقیق و ترتیب : مفتی محمد شاہد قاسمی
امریکہ نے جس طرح سے افغانستان کے حفاظ اور مدراس اسلامیہ میں تعلیم حاصل کرنے والے معصوم بچوں پر بم باری کی وہ تاریخ انسانی کی بدترین دہشت گردی ہے، جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے دنیا آج دہشت گردی کے خاتمہ کے لئے طرح طرح کی کوششیں کی جارہی ہے اور وہ بھی قوم مسلم کو نشانہ بناکر، دنیاجانتی ہے کہ سب سے بڑے دہشت گرد اسرائیل اور امریکہ ہیں، داعش اور دیگر دہشت گرد تنظیمیں انکی پشت پناہی میں کام کررہی ہیں۔
زمانے کی یہ تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ جرائم اور جرائم پیشہ افراد کا کوئی مذہب نہیں ہوتا اور نہ کوئی ملک ہوتا ہے۔ اسی طرح دہشت گرد کا بھی کوئی ذات، مذہب یا ملک نہیں ہوتا۔ مگر جب ملت اسلامیہ کا تعلق آتا ہے، فوراً پیمانے بدل جاتے ہیں اور اس کی ہر حرکت وعمل کو مخصوص خوردبین سے دیکھاجاتا ہے کہ کس طرح اور کیسے اس کو بدنام کیا جائے اور اپنے مقاصد کی تکمیل کے لئے راستے ہموار کئے جائیں۔
ملک میں جہاں بھی تشدد کا کوئی ناخوشگوار واقعہ ہو، حکومت کے پاس انتہاپسند گروپوں کے ناموں کی فہرست اور استعمال کئے گئے سامان کی تفصیل پہلے ہی سے موجود رہتی ہے۔
پولس اور میڈیا کی جانب سے مسلم نوجوانوں پر شک کی سوئیاں گھماکر، فرضی کہانیاں گھڑکر نوجوانوں کو گرفتار کیا جاتا ہے۔ ان کو ظلم و ستم کا نشانہ بنایاجاتا ہے۔ اس طرح پوری مسلم قوم کو مجرم ثابت کرنے کی سازش عمل میں آ تی ہے۔ پوٹا اور مکوکا جیسے قوانین تو بنائے ہی اس لئے گئے ہیں تاکہ اس کا بے دریغ استعمال مسلم اقلیت کے لئے کیا جاسکے۔ چنانچہ یہ حقیقت ہے کہ آج تک ان قوانین کی دفعات کے تحت ملت کے نوجوانوں کو ہی گرفتار کیاگیا ہے۔
تعصب کی انتہا تو یہ ہے کہ مالیگاؤں، حیدرآباد، اجمیر وغیرہ کی مساجد میں ہونے والے بم دھماکوں کے سلسلے میں بھی ملت کے افراد ہی کو حراست میں لے کر ٹارچر کیا جارہا ہے۔
ممکن ہے بالفرض یہ تسلیم بھی کرلیاجائے کہ مذکورہ واقعات میں ہماری قوم کے کچھ نادان، ناسمجھ یا جنونی نوجوان شامل ہیں تو ان کا تناسب بہت ہی کم ملے گا۔ ان کو کسی خاص مذہب سے جوڑ کر دیکھا نہیں جاسکتا۔ بلکہ دیگر مجرمین کی طرح ہی وہ بھی مجرم ہیں۔ ان معاملات میں انصاف کا تقاضا ہے کہ کسی کا جرم ثابت ہونے پر انہیں سخت سزا دی جائے۔ تاکہ لوگوں کے لئے باعث عبرت ہو۔
لیکن جس طرح سے ۹/۱۱ کے بعد سے امریکہ اور دیگر یورپی ممالک نے دہشتگردی کو اسلام اور مسلمانوں کے لئے خواص کردیا ہے “اسکے حقائق سے پردہ اٹھاتے ہیں اس موقع پرامریکی تاریخ پر ایک سرسری اور طائرانہ نظر ڈالتے ہوئے چلیں جس سے ہمیں آج کی انسانیت اور حقوق انسانی کے سب سے بڑے مسیحا کی تاریخ کو سمجھنے کا پورا اندازہ ہوجائےگا، انیسویں صدی کی دوسری دہائی میں تاریخ کو ایسے دلدوز وہیبت ناک مناظر دیکھنے کو ملے جن کی تاریخ کو رقم کرنے میں امریکہ کا اہم کردار رہا ہے۔ ۱۹۱۶ء میں پہلی جنگ عظیم میں کل ۱۶ سولہ ممالک نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔
صرف ترکی ایسا واحد ملک تھا جس نے اس خونی جنگ سے اپنے آپ کو کنارہ کش رکھا اور اس کی جنگ عظیم کا حلیف بننے سے انکار کردیا۔ یہ جنگ سربیا کے ایک قوم پرست اور اسٹریا اور ہینگری کے ولی عہد فرانس فرڈی نینڈ کے قتل سے شروع ہوئی۔ ۱۹۱۶ء میں شروع ہونے والی پہلی جنگ عظیم نے ۸۵ لاکھ ۲۸ ہزار ۸۰۰ سے زیادہ انسانی جانوں کو لقمہ تر بنالیا۔ ۱۹۱۸ء میں یہ جنگ اپنے اختتام پر پہنچی۔ ۱۹۳۹ء میں شروع ہونے والی دوسری جنگ عظیم میں کل ۲۷ ممالک نے حصہ لیا اور یہ سب کے سب غیرمسلم تھے اور اسی دوران ہیروشیما کا انسانیت سوز سانحہ بھی دیکھنے میں آیا۔ جس میں موجودہ دور کے حقوق انسانی اور امن وشانتی پھیلانے کے سب سے بڑے مسیحا امریکہ نے ایک ایٹم بم کے ذریعہ لاکھوں انسانوں کو سوختہ کر ڈالا۔
اوراس ملک کی آب وہوا کو مسموم و پراگندہ بناڈالا۔ جہاں کی فضا پر اب بھی موت کا سناٹا چھایا ہوا ہے۔ جہاں ماہرین سائنس جاکر اب بھی تجربہ کرتے ہیں کہ یہ شہر کب اپنی سابقہ حالت پر لوٹ سکے گا۔ بات اسی پر ختم نہیں ہوئی بلکہ تین دن کے وقفہ سے ۹/اگست ۱۹۴۵ء کو ایک اور ایٹم بم جاپان کے شہر ناگاساکی پر گرادیا اور آن کی آن میں ۲۸ہزار سے زائد انسانوں کو جلاکر راکھ کا ڈھیر بناڈالا۔ اور دوسری جنگ عظیم میں ۴۹ لاکھ ۴۰ ہزار انسان موت کے گھاٹ اتاردئیے گئے۔ ۱۹۴۵ء میں ہی چین پر ڈھائی سو جنگی طیاروں کی مدد سے دولاکھ پونڈ بارود برساکر موت کا رقص عام کیا۔ اسی طرح سے وقفہ وقفہ سے مختلف ممالک امریکی جارحیت و درندگی کا نشانہ بنتے رہے۔ ۱۹۵۰ء میں امریکہ نے کوریا پر چڑھائی کردی ۱۹۵۴ء میں کیوبا میں۔ ۱۹۶۴ء میں امریکہ و ویتنام کی جنگ نے ۴۵ ہزار سے زائد لوگوں کو موت کی لپیٹ میں لے لیا۔ اور اس جنگ کا ایندھن بننے والوں میں بڑی تعداد عورتوں اور بچوں کی تھی جو یہ نہیں جانتے تھے کہ ان کا جرم کیا ہے۔ کس جرم کی پاداش میں انہیں موت کی نیند سلایا جارہا ہے۔ ۱۹۶۵ء میں پیروں، اور ۱۹۷۳ء میں لاوس میں، ۱۹۷۵ء میں ویتنام میں، ۱۹۸۷ء میں گرینیڈا، ۱۹۸۴ء میں لبنان میں، ۱۹۸۹ء میں پناما میں، ۱۹۹۱ء میں عراق میں، ۱۹۹۸ء میں سوڈان میں، اور ۱۹۹۹ء میں یوگوسلاویہ میں۔ ان تمام خونی جنگوں کے بعد سوچا جانے لگا کہ شاید اب امریکی انسانیت جاگ اٹھی ہو۔ اس کا نعرہ امن حقیقت میں تبدیل ہوجائے اور دنیا امن وشانتی کا گہوارہ بن جائے۔ امن وامان کا بول بالا ہوجائے۔ لیکن ضمیر فروش اور مردہ دل کے جسم میں انسانیت تھی ہی کہاں کہ جاگتی کیونکہ وہ تو خون چوسنے کا عادی ہوگیا تھا
بالآخر پھر اس نے ۱۷/اکتوبر ۲۰۰۱ء میں افغانستان و عراق میں اپنی درندگی وسفاکیت اور حیوانیت و بہیمیت کا ایسا ننگا کھیل کھیلا کہ روئے زمین تھرا اٹھی لیکن اس کا ضمیر نہیں جاگا۔تاریخ گواہ ہے کہ دہشت گرد تم ہو نہ کہ مسلمان، دہشت گردی تم پھیلاتے ہو نہ کہ مسلمان، قتل وخون ریزی تمہارا پیشہ ہے نہ کہ مسلمانوں کا، دنیا کے امن وامان میں بدامنی کی فضا تم بناتے ہو، بدامنی کا ماحول تم سازگار کرتے ہو نہ کہ مسلمان، درندگی وسفاکیت اور بہیمیت وسبعیت کا مظاہرہ تم کرتے ہو نہ کہ مسلمان، حقوق انسانی پر ڈاکہ تم ڈالتے ہو نہ کہ مسلمان، عدل وانصاف کا گلہ تم گھونٹتے ہونہ کہ مسلمان، مذکورہ ممالک وریاستوں میں معصوموں کے قاتل تم ہو نہ کہ مسلمان، پوری دنیا میں جابرانہ نظام کے قیام کی جدوجہد تم کررہے ہو نہ کہ مسلمان، تم ایک ایسے نظام کے قائل ہو جس میں کمزور و ناتواں لوگوں کی حصہ داری نہ ہو بلکہ طاقت وقوت کی حکمرانی ہو۔ “یورپین یونین کی قانون نافذ کرنے والی ایجنسی ’یوروپول‘ کے مطابق 2007ء سے2008ء تک یورپ میں دہشت گردی کے99.6 فیصد واقعات غیرمسلموں نے کئے۔ ان میں سے 84.8 فیصد واقعات علیحدگی پسندوں نے کئے جبکہ کوئی علیحدگی پسند مسلمان نہیں تھا۔ بائیں بازو کے گروہوں کی دہشت گرد کارروائیوں کی تعداد مسلمان دہشت گردی کی نسبت 16 گنا زیادہ ہیں۔ کیاپہلی جنگ عظیم مسلمانوں نے شروع کی تھی؟ جس میں 3 کروڑ70لاکھ انسان ہلاک ہوئے اور 2 کروڑ 23 لاکھ 79 ہزار53انسان زخمی ہوئے،ان میں سے70لاکھ سویلینز تھے۔ کیا دوسری جنگ عظیم مسلمانوں نے شروع کی تھی؟ جس میں 6کروڑانسان ہلاک ہوئے۔ کیا مسلمانوں نے آسٹریلیا کے 2کروڑاصل باشندوں کو ہلاک کیا تھا؟ کیا مسلمانوں نے ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرایاتھا؟ جس کے نتیجے میں ایک لاکھ 66ہزارانسان ہیروشیما اور 80 ہزار ناگاساکی میں ہلاک ہوئے۔ شمالی امریکہ میں دس کروڑ ریڈانڈینز کو کس نے ہلاک کیا تھا؟ جنوبی امریکہ میں پانچ کروڑ انڈینز کو کس نے ہلاک کیا تھا؟18 کروڑ افریقیوں کو کون غلام بناکر امریکہ لایا تھا؟ جن میں سے 88 فیصد افریقی غلام ہلاک ہوئے ، ان کی لاشوں کو بحراوقیانوس میں پھینک دیا گیا تھا۔
ان کروڑوں انسانوں کاخون ان لوگوں نے کیا جو آج دنیا میں سب سے زیادہ مہذب ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، جو دنیا میں امن کا پرچم اٹھائے پھرتے ہیں، جو دنیا میں انسانی حقوق کا شور مچائے ہوئے ہیں اور جو چند واقعات کی بنا پر اسلام اور مسلمانوں کو دہشت گرد قراردے رہے ہیں، جو یہودیوں کی دہشت گردی کو چھپاتے ہیں۔
اسلام میں دہشت گردی انتہاپسندی اور ناجائز سخت گیری کا کوئی جواز ہی نہیں ملتا اور نہ اس کے کسی مذہبی حکم سے انسانیت مخالف عناصر کی حمایت ہوتی ہے بلکہ اسلام کے ہر شعبے میں نرم خوئی، امن و سلامتی، انسانیت پسندی اورحقوق کی رعایت وحفاظت کا ایک طویل ترین باب ملتا ہے !