بے کسوں کا خونِ ناحق رائیگاں نہ جائے گا 

عبد الرشید طلحہ نعمانی

امریکا کی زیر قیادت استعماری قوتوں نےپیہم حملوں کے ذریعہ مسلم ممالک بالخصوص افغانستان پر تسلط جمانے کی بھر پور کوشش کی، ملک گیری کی اسی ہوس نے متعدد علاقوں کو کشت و خون میں نہلا دیا،ہر حملے میں سیکڑوں نہتے شہری شہید اور زخمی ہوتے رہے، بڑے اور چھوٹے دیہات تباہ ہو گئے، باغات و جنگلات کو بھاری بمباری سے آگ لگا دی گئی اور زرخریدمیڈیا نے خود انہیں کو دہشت گرد بتلاکرساری دنیا کے سامنےمجرم کی حیثیت سے پیش کرنے کی ناپاک سازش کی ۔
عالمی سطح پر دہشت گردی،فسادانگیزی اور ستم رانی کی انتہاء کا دوسرا نام ’’امریکہ‘‘ ہے،اسلام کے نام پر بننے والی تنظیموں اور تحریکوں کے خلاف ظلم و بربریت کی انتہا کرنے والا یہ وحشی جانوراور سفاک درندہ وقفے وقفے سے اپنے آپ کو مہذب ترین انسان باور کرانے کی کوشش میں ایڑی چوٹی کا زور لگاتا رہتاہے اور انسانیت کے تحفظ اور دہشت گردی کے انسداد کا ایجنڈا لے کر دنیا کے طول وعرض میں کانفرنسیں منعقد کرتا اور کرواتا ہے؛ جبکہ اسی اسلام دشمن نے ایک ایک کر کے پہلے عالم اسلام میں داخلی انتشار و اندرونی خلفشار کو جنم دیا پھر منصوبہ بند سازش کے تحت یکے بعد دیگرے اُنہیں مسمار کرنا شروع کیا۔
چناں چہ انسانی حقوق کی تنظیموں اور کارکنوں کے مطابق صرف افغانستان میں گزشتہ سترہ برسوں کے دوران ڈھائی لاکھ سے زیادہ شہری شہید، جب کہ ہزاروں کو ملک و بیرون ملک قید اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ ستم در ستم یہ کہ خود کو انسانیت نواز کہلانے والے اس درندہ صفت ملک کی آمریت، جارحیت اور دہشت کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔
گزشتہ چند سالوں میں شہری ہلاکتوں میں نسبتا کمی کے بعد اب ایک بار پھر جارحیت پسندوں اور کٹھ پتلی حکومت نے ٹرمپ کی نئی حکمت عملی کے نام پر عوام اور گنجان آبادی والے علاقوں پر بمباریوں، رات کے چھاپوں، میزائل اور ڈرون حملوں میں اضافہ کر دیا ہے۔ ابھی تین یوم قبل قندوز میں نیٹو اور افغان فورسز نے بدترین دہشت گردی کا مظاہرہ کرتے ہوۓ حفاظ قرآن اور علماء امت خیرالانام پر بمباری کر کے سینکڑوں کو شہیداور زخمی کردیا۔ سینئر طالبان کمانڈر کے مطابق تقریب میں2ہزار افراد شریک تھے جس میں 750صرف طلبہ تھے ۔

آبلے پڑ گئے زبان میں کیا؟

اس وقت سمجھ میں نہیں آ رہا کہ ان معصوم لاشوں پر آہ و فغاں اور ماتم و شیون کیا جائے یا اس قتل عام پر اختیار کی گئی مجرمانہ خاموشی پر بلک بلک کر رویا جائے؟؟؟۔
امریکہ سے کیا گلہ کہ اس کی تو تاریخ کے ورق ورق پر خون مسلم کی ارزانی جلی حروف میں لکھی ہوئی ہے،سوال یہ ہے کہ وہ دانشورقسم کے وہ امن پسند حضرات کہاں ہیں جوآئے دن حقوق انسانی کا دم بھرتے ہیں؟روشن خیالی کے وہ مدہوش ملنگ کدھر ہیں؟جو گلا پھاڑ پھاڑ کر فرمایا کرتے ہیں کہ ہمارا تو مذہب ہی انسانیت ہے؟
شاید ان کے نزدیک انسانیت کا خون تب ہوتا ہے جب کوئی مشرک یا ملحد مارا جاتاہے،کوئی دہریہ یا گستاخ رسول قتل کیاجاتاہے! انسانیت کا درد تب پوری قوت کے ساتھ جوش میں آتا ہے جب مرنے والا یہود و نصاریٰ میں سے ہو۔ ویسے دعویٰ تو مذہب سے بڑھ کر صرف انسانیت کا کیا جاتا ہے، مگر کلمہ گو انسانوں کے مرنے پر یہ انسانیت جاگتی نہیں۔
یہ انسانیت تب مکمل طور پر سو جاتی ہے جب افغانستان کے نہتے غریب مسلمانوں پر روس اور امریکہ جیسے عفریت ان کے وسائل سمیت نگل جانے کی خاطر زہریلی گیسوں، کیمیائی ہتھیاروں اور نت نے مہلک توپوں کا تجربہ کرتے ہیں۔

قندوز لہو لہو

کیا خوب صورت سماں اور حسین ودلکش نظارہ ہوگا جہاں درجنوں حفاظ،پچاسوں علماء دستار باندھے آخری سبق کی تلاوت و تیاری کررہے ہوں گے، کیسےمسرت آمیز لمحات اور خوش کن گھڑیاں ہوں گی کہ اساتذہ اپنی روحانی اولاد کو تیار کرکے فرحت و شادمانی محسوس کر رہے ہوں گے،ان والدین کی خوشی کا کیا ٹھکانہ ہوگا جو اپنے لخت جگر اور نورنظر سے ملنے کے لیے بے تاب ہوں گے۔
ہائے افسوس کہ وہ تمام خوب صورت کلیاں،وہ ننھے غنچے،وہ معصوم بچے جو کھلنے سے پہلے ہی توڑدیے گئے، پھول بننے سے پہلے ہی مسل دیے گئے،بڑے ہونے سے پہلے ہی تاراج کردیےگئے۔
تلاوت کلام پاک کی وہ پیاری پیاری آوازیں،نورایمانی سے تاباں وہ روشن و درخشاں چہرے،سفید لباس میں ملبوس وہ فرشتہ صفت بچے،آن کی آن میں خاک و خون میں غلطاں ہوگئے،لاشوں کے ڈھیر لگ گئے،ایک دو معصوم نہیں،درجن دو درجن بچےنہیں،پورے ایک سو ایک طلبہ شہید کردیےگئے، وہ بھی ایسے طلبہ جو قرآن کی گراں قدر امانت اپنے سینوں میں دبائے ہوئے تھے،وہ طلبہ جو دستار فضیلت باندھے بخاری شریف کی آخری روایت پڑھ کر دعوت دین کےلیے پرعزم ہوچکے تھے،وہ طلبہ جو دنیوی و اخروی اس عظیم کامیابی پر جشن منارہے تھے۔
مگر یہ کیا ہوا کہ ماں کی آنکھوں کے چراغ بجھ گئے ،باپ کی امیدوں کے دئیے گل ہو گئے،اساتذہ کےلگائے ہوئے سرسبز وشاداب باغ اجڑ گئے،مستقبل کے روشن ستارے ٹوٹ کر بکھرگئے،افق کے مہر و ماہ ہمیشہ کےلئے غروب ہوگئے۔
علامہ شبلی نعمانی نے شاید اسی کی منظر کشی کرتے ہوئے لکھا تھا:

یہی دس بیس اگر ہیں کشتگان خنجر اندازی

تو مجھ کو سستی بازوئے قاتل کی شکایت ہے

عجب کیا ہے جو نوخیزوں نے سب سے پہلے جانیں دیں

کہ یہ بچے ہیں ان کو جلد سو جانے کی عادت ہے

آہ۔۔۔ احساس کی مرگِ ناگہاں

ویسے یہ ’’ شہید ‘‘ کا لفظ بھی کتنا موزوں ہے نا ہر سانحے کی تصویر کشی کے لئے! کسی جہاز کا حادثہ ہو،کہیں اسکول پر حملہ ہو ،زلزلہ یا سیلاب ہو،معصوم بچوں کا قتل عام ہو۔ ہم بہت آسانی سے بہ یک جنبش زباں کہہ دیتے ہیں کیا کریں کہ سب شہید ہو گئے ، اللہ کی راہ میں قربان ہو گئے! کتنا سہل ہے اس طرح کے چند جملے کہہ دینا،خواہ یہ فقرے ارباب اقتدار ادا کریں یا ہم اور آپ جیسے افرادجن کے پاس سوائےحسرت وافسوس کے اور کچھ نہیں؛لیکن کاش ہم ان ماؤں کے دکھ کو محسوس کر سکتے ، ان باپوں کی تکلیف کا تصور کر سکتے جنہوں نے اپنے جگر گوشوں کو تیار کر کے مدرسہ روانہ کیا ، ان کے شاید وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ مدرسہ جیسی محفوظ جگہ اور ختم قرآن مجید کا عظیم اجلاس بھی مقتل میں تبدیل ہو جائے گا،وہ تو اولاد کے استقبال میں سراپا انتظاربنے ہوئے تھے،دیدہ و دل کو فرش راہ کیے ہوئے تھے،گھر بارسجائے جارہے تھے؛مگروالدین کو کہاں پتہ کہ ان کےنونہالوں کو تو سیدھےجنت النعیم جاناہے،وہاں کی دائمی نعمتوں سے لطف اندوز ہونا ہے،وہاں فرشتے ان کا انتظار کررہے ہیں اور معصوم بچے زبان حال سے کہہ رہے ہیں ؎

تم کو احساس رنگ و بو نہ ہوا

یوں بھی اکثر بہار آئی ہے

یہ دہشت گردی کیوں؟

اس حوالےسےاستاذ محترم حضرت مولانا حبیب الرحمن اعظمیؔ مدظلہ محدث دارالعلوم دیوبند ارقام فرماتے ہیں:حقیقت یہ ہے کہ دہشت گردی، کا لیبل اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ چسپاں کرنے کا کھیل عالمی سازش کا حصہ ہے۔ جس کی خاکہ سازی اور انھیں برپا کرنے کی عملی تدابیر میں عالمی صہیونیت اور اسلام دشمن عناصر یہودیت کا پورا پورا ہاتھ ہے۔ جن کی چاپلوسی اور حکم برداری میں مسلم ممالک کے بعض اسلام بے زار حکمراں اور دیگر ممالک کی مسلم دشمن تنظیمیں پورے شدومد کے ساتھ اس کو اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کررہی ہیں اور وہ اسلام کو ”دہشت گرد“ مذہب اور مسلمانوں کو ”دہشت گرد“ قوم ثابت کرنا چاہتے ہیں۔
یہاں ہم اس بات کو بھی واضح کردینا چاہتے ہیں کہ اسلام کو دہشت گردی کا مذہب اور مسلمانوں کو دہشت گرد قوم ثابت کرنے کا اصل مقصد کیا ہے۔ اور اس کے بہانے مسلم نوجوانوں، دینی اداروں، اسلامی تنظیموں ، مسلم دانشوروں اورعلماء کرام کی مقدس ہستیوں کو دیدہ ودانستہ طور پر اس کا نشانہ بنانے کا مقصد کیا ہے ….؟
اسلام جو خدا تعالیٰ کا آخری اور پسندیدہ دین ومذہب ہے، جس کے ہر ہر احکامات انسانی طبیعت کے عین مطابق اور نظام کائنات کی سلامتی و ترقی کیلئے بنیاد اور سرچشمہ ہیں، حیات انسانی پر مشتمل سارے شعبوں میں رہ نمائی اور زندگی کی صحیح ڈگر سے ہٹے ہوئے لوگوں کی دستگیری کرتے ہیں، اس کی تعلیمات بڑی پاکیزہ، صاف و شفاف حقوق انسانی کی محافظ، امن وسلامتی کی ضامن اور مرضیٴ حق کے عین مطابق ہیں۔ نیز اسلام نے بڑی قلیل مدت میں اپنی صداقت و حقانیت پر صدہا ہزار مستحکم دلائل اور اپنی تلوار امن ومحبت اور مساوات وخوش اخلاقی کے ذریعہ پورے عالم کے حق پسند، حق جو اور حق شناس لوگوں کے قلوب میں جو غیرمعمولی اور بے پناہ مقبولیت اورعظمت حاصل کرلی ہے اس پر معاندین اسلام کی حیرانی اور بوکھلاہٹ بے جا نہیں ہے۔ گرچہ وہ اسلام دشمن، خبیث ذہنیت کے حامل، دل سے اس کی صداقت وسچائی اور حقانیت کو تسلیم کرتے ہیں، مگر ان کی بے جا دشمنی اور عناد نے انھیں حق کو تسلیم وقبول نہ کرنے اور اس کی مخالفت پر کمر کس لینے، نیز اسے دبانے اور مٹانے کیلئے آمادہ کردیا ہے۔(ماہ نامہ دارالعلوم دیوبند)
لیکن میں سوال کرنا چاہتاہوں ان نام نہاد انسانیت کے علم برداروں سے کہ کیوں وقفے وقفے سے مسلم ممالک پر شب خون مارا جارہاہے؟ کیوں اسلام دشمن طاقتوں یہود و نصاریٰ کو بار بار یہ ناپاک جسارت کرنے کا حوصلہ مل رہا ہے؟ کیا اس قسم کی گھٹیا حرکات سے دنیا میں برداشت اورامن کو فروغ مل سکتا ہے؟ کیا یہ مزید انتشار اور عدم برداشت کے جذبوں کو ابھارنےکاباعث نہیں؟ کیا اس سے تہذیبوں کے تصادم کا اندیشہ یقین میں نہیں بدلے گا؟

جواب چاہیے مجھے جواب ڈھونڈتا ہوں میں!