نئی دہلی: 5 اپریل (پریس ریلیز) افغانستان کے صوبہ قندوز میں جلسہ دستار بندی پر فضائی حملہ افسوسناک اور کھلی ہوئی دہشت گردی ہے ،رپوٹ کے مطابق اس حملہ میں ایک سوسے زائد حفاظ کرام شہید ہوئے ہیں جن کی عمر 12 سے پندرہ سال کے درمیان تھی اور سبھوں کی دستار بندی ہورہی تھی ۔ان خیالات کا اظہار آل انڈیا ملی کونسل کے جنرل سکریٹری ڈاکٹر محمد منظور عالم نے ایک پریس ریلیز میں کیا ۔انہوں نے مزید کہاکہ تعلیم حاصل کرنا ہر ایک بچے کا بنیادی حق ہے ،دنیا کا ہر مذہب اور قانون تعلیم کو ضروری قراردیتاہے خواہ وہ عصری تعلیم ہویا مذہبی تعلیم ہو کسی بھی طرح کی تعلیم حاصل کرنا نہ تو دہشت گردی ہے اور نہ ہی جرم ہے لیکن افغانستان میں قرآن کریم حفظ کرنے والے بچوں پر دہشت گردانہ حملہ کرکے یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ مذہبی تعلیم حاصل کرنا اور قرآن کریم سیکھنا دہشت گردی ہے ۔
ڈاکٹر عالم نے کہاکہ کیا بچوں کا اسلامی لباس پہننا دہشت گردی ہے ؟ نابالغ بچوں کا قرآن کریم حفظ کرنا دہشت گردی ہے ؟ جلسہ دستار بندی سے دہشت گردی کو فروغ ملتاہے ؟ آخر کس بنیاد پر ان معصوم بچوں پر حملہ کیاگیاہے ؟ کیا جرم تھا ان نونہالوںکا جنہیں خون میں نہلادیاگیاہے ؟ کیا قصور تھا چھوٹے حفاظ کرام جن پر بمباری کرکے کھلتے پھول کوکچل دیاگیاہے ۔ کیا یہ سب طالبان کے ممبر تھے ؟ کیا ان لوگوں نے کوئی دہشت گردانہ حملہ کیاتھا؟ کیا ان سے دنیا کے امن وسلامتی کو خطرہ لاحق تھا ؟ کیا ان بچوں نے امریکہ کے خلا ف کبھی ہتھیار اٹھایاتھا ؟ آخر کیا کیاتھا ان بچوں نے جس کی پاداش میں انہیں حملہ کرکے موت کی نیند سلادیاگیاہے ۔
ڈاکٹر عالم نے بہت افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ حیرت اس بات پر ہے کہ بچوں اور معصوموں کے قتل عام پر پوری دنیا خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے ۔جولوگ ایک انسان کی موت پر ہنگامہ برپا کردیتے ہیں وہ ان سیکڑوں معصوم بچوں کی موت پر بے زبان بن گئے ہیں ۔ میڈیا میں بھی اس کا کوئی تذکرہ نہیں ہے ؟۔اس ظلم اور بربریت کے خلاف کہیں سے کوئی آواز نہیں اٹھ رہی ہے ؟۔امریکہ اور عالمی طاقتوں کو اب یہ واضح کردینا چاہیئے کہ دہشت گردی کا پیمانہ کیا ہے ؟ کس طرح کے لوگوں کو مارنے سے دہشت گردی کا خاتمہ ہوگا ؟ کب تک یہ سلسلہ چلتارہے گا ؟کس بنیاد پر قرآن پڑھنے والے دہشت گرد اور اوجب القتل ہیں ۔





