اک پھول
اک پھول چمن کا بکھر گیا
وہ پھول جسے ابھی کھلنا تھا
جسے جگ کو خوشبو بانٹنی تھی
ابھی عمر ہی کیا تھی یا مولا
کچھ وحشی اس پر جھپٹ پڑے
ان ظالم وحشی کتوں نے
اک ہوس کو تن ہر پہن لیا
اور ننھے پھول کو روند دیا
اسے روند دیا اسے مار دیا
اس پھول نے جیون ہار دیا
مرے مولا سورج روز چڑھے
پر ظلمت کیوں نہیں چھٹتی ہے
ہر ظالم ہے آزاد یہاں
مظلوموں کی کیا ہستی ہے
یہاں جنس بھی کتنی سستی ہے
جو ظلم کا پرچم لہرائے
بس اس کی نیّا چلتی ہے
جو حق بولے جو سچ بولے
کبھی اس کی رات نہیں ڈھلتی
مرے لفظ بہت بے چین خدا
مرجھا جو گیا وہ پھول میرا
اسے جتنا کرب ملا مولا
ان ظالموں تک دگنا پہنچے
دگنا تگنا چگنا پہنچے
اے پاک خدا اب رحم بھی کر
اس ظلم کو آج قضا پہنچے
اک پھول چمن کا بکھر گیا
وہ پھول جسے ابھی کھلنا تھا
فوزیہ ربابؔ
گوا، الہند