ترکی میں قبل از وقت انتخابات

ڈاکٹر فرقان حمید

ترکی میں نئے صدارتی نظام کے تحت نومبر 2019ء میں صدارتی اور پارلیمانی انتخابات کروانے کا شیڈول وضع کیا گیا تھا لیکن اب یہ انتخابات ڈیڑھ سال قبل ہی کروانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اگرچہ ترکی کی تمام اپوزیشن جماعتیں اس سے قبل ملک میں قبل از وقت صدارتی اور پارلیمانی انتخابات کا مطالبہ کرتی چلی آرہی تھیں لیکن صدر ایردوان نے کبھی بھی اپوزیشن جماعتوں کے ان مطالبات کی طرف کوئی توجہ نہ دی تھی بلکہ ملک میں انتخابات وقت پر ہی کروانے پر زور دیتے رہےتھے لیکن صورتِ حال نے اس وقت پلٹا کھایا جب ایردوان ہی کے اتحادی اور نیشلسٹ موومنٹ پارٹی کے چئیرمین دولت باہچے لی نے پارلیمنٹ میں پارٹی گروپ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ملک میں موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے 26 اگست2018ء بروز اتوار ملک میں ایک ساتھ ہی صدارتی اور پارلیمانی انتخابات کروانے کا مطالبہ کردیا۔ ملک کی مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کے مطابق دراصل ” باہچے لی ” نے صدر ایردوان ہی کی ہدایت پر قبل از وقت انتخابات کا اعلان کیا تھا جبکہ صدر ایردوان نے اس بارے میں ایک نجی ٹیلی ویژن کو بیان دیتے ہوئے کہاتھا کہ انہوں نے پارلیمنٹ آتے ہوئے ہی راستے میں دولت باہچے لی کے اس مطالبے سے آگاہی حاصل کی تھی اور اس لیے انہوں نے پارلیمنٹ میں پارٹی کے گروپ اجلاس کے موقع پر (باہچے لی کے خطاب کے بعد ) خطاب کرتے ہوئے قبل از وقت انتخابات کا نہیں بلکہ وقت پر ہی انتخابات کروانے سے آگاہ کیا تھا لیکن بعد میں اسی روز نیشنلسٹ موومنٹ پارٹی کے چئیرمین کے ساتھ ہونے والے مذاکرات کے دوارن قبل از وقت انتخابات کروانے کی حامی بھر لی تھی اور پھر انہوں نے اپنی پارٹی کے اعلیٰ حکام سے مشورہ کرنے کے بعد 24 جون 2018ء بروز اتوار قبل از وقت انتخابات کروانے کا فیصلہ کیا جس کا انہوں نے اسی روز پریس کانفرنس کرتے ہوئے اعلان بھی کردیا ۔ اگرچہ اپوزیشن جماعتیں اس سے قبل قبل از وقت انتخابات کروانے کا مطالبہ کرتی چلی آرہی تھیں لیکن دراصل وہ اس مطالبے کے بعد لمبی تان کر سوچکی تھیں اور انہیں صدر ایردوان کے اس اعلان کی ہرگز توقع نہ تھی۔ صدر ایردوان نے اپوزیشنکی ان جماعتوں کو خوابِ غفلت میں آن گھیرا تھا اوراب ان جماعتوں کے پاس بیدار ہونے کے علاوہ کوئی اور چارہ کار اگرچہ انہوں نے صدر ایردوان کی نیت پر شک و شبہات کا اظہار کیا لیکن اب ان کے پاس انتخابات میں حصہ لینے کے علاوہ کوئی اور چارہ کار باقی نہ بچا تھا۔
رجب طیب ایردوان دنیا بھر میں بڑے منجھے ہوئے سیاستدان تصور کیے جاتے ہیں اور اپنی اس سیاسی بصیرت، عقل و دانش اور فہم و فراست کی بدولت ترکی کی سیاست میں اپنی دھاک بٹھا رکھی ہے اور جب سے انہوں نے سیاست میں قدم رکھا ہے کامیابیوں پر کامیابیاں سمیٹتے چلے آرہے ہیں۔ وہ ایک ایسی شخصیت ہیں جنہوں نے ترکی کے متوسط طبقے میں پرورش پائی اور اپنی قوتِ بازو کے بھروسے پر ترکی کی سیاست کے تمام زینے چڑھتے ہوئے اس مقام تک پہنچنے میں کامیابی حاصل کی اور پھر کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ انہوں نے ترکی میں سیاست کو علمِ سائنس اور علمِ ریاضی کی شکل عطا کرتے ہوئے سیاست کو نئی جہت عطا کی اور اب وہ ترکی میں سیاست کو ریاضی اور سائنس کے اصولوں پر عمل درآمد کرتے ہوئے دوسرے سیاستدانوں پر برتری حاصل کیے ہوئے ہیں۔ انہوں نے سیات میں اس نئی حکمتِ عملی کو اپنا کر اپنے مردِ مقابل تمام حریفوں کو بچھاڑنے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ انہوں نے اپنی اور اپنی جماعت کا مقبولیت میں ہونے والی کمی و بیشی کا اندازہ لگانے کے لیے ہر ماہ باقاعدگی سے سروئے کروانے کے نظام پر عمل درآمد کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ وہ اس سلسلے میں کسی خود فریبی میں مبتلا ہونے کی بجائے غیر جانبدار سروئیز کرنے والی فرموں کے ساتھ ساتھاپوزیشن جماعتوں کے سروئیز کا بھی جائزہ لیتے رہتے ہیں اور ان کے نتائج کے سہارے ہی اپنی حکمتِ عمل کو وضع کرتے ہیں۔ ایردوان کو جب ان سروئیز ہی کی بدولت معلوم ہوا کہ مختلف شہروں کے مئیرز کی مقبولیت میں کمی آرہی ہے اور اس کے اثرات ان کی جماعت پر بھی مرتب ہورہے ہیں تو انہوں نے فوری طور پر ان مئیرز کو مستعفی ہونے پر قائل کیا اور نئے پرجوش اور مقبول مئیرز کو ان کی جگہ پر منتخب کروایا۔ ایردوان ایک ایسے لیڈر ہیں جن کو ملکی تجارت سے لے کر ٹورازم، اقتصادیات سے لے کر ثقافت، دفاع سے لے کر ملکی امن و امان تمام ہی شعبوں پر مہارت حاصل ہے اور ان تمام شعبوں کے اعداد و شمار پر گہری نگاہ رکھی ہوئی ہے۔ ملک میں زرمبالہ کے ذخائر اور ملکی کرنسی کی قدرو قیمت اور اقتصادی ترقی کے تمام پہلووں اور اعداد و شمارکا انگلیوں پر حساب رکھنے والے ایردوان اکثر و بیشتر اقتصادی ماہرین کی غلطیوں کی نشاندہی کے ساتھ ساتھ درست اقدام اٹھانے سے بھی آگاہ کرتے رہتے ۔ انہوں نے جب شام میں فوجی آپریشن شروع کرنے کا اعلان کیا اپوزیشن جماعتوں کے تمام سیاستدان اس بات پر متفق تھےکہ اب ایردوان کو منہ کی کھانی پڑے گی اور اس سے ایردوان کے زوال کا آغاز ہو جائے گا۔ اُردو زبان کی مشہور کہاوت ہے ” بنیا کچھ دیکھ کر ہی گرتا ہے” ایردوان نے بلا سوچے سمجھے فوجی آپریشن شروع نہیں کیا تھا۔ اب یہی فوجی آپریشن جس میں ترک فوج کو بے شمار کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں اور ترک فوج نے دنیا میں ایک بار پھر اپنا کھویاہوا مقام حاصل کرلیا ہے صدر ایردوان کی کامیابی اور قبل از وقت انتخابات کا فیصلہ کرنے کو سبب بنا ہے۔ ترک فوج نے امریکہ کے تمام تر وارننگز کی پرواہ کیے بغیر شام کے سرحدی علاقوں کو فتح کرتے ہوئے جو تاریخی کامیابی حاصل کی اس سے ترکی میں دہشت گردی کے واقعات ختم ہو کر رہ گئے ہیں اور صدر ایردوان کے مخالفین بھی صدر ایردوان کے ان اقدامات کی دل کھول کر تعریف کرتے ہیں۔ ملک میں امن و امان کی وجہ سے ملک میں غیر ملکی سرمایہ کاری میں ریکارڈ حد تک اضافہ ہوا ہے۔ غیر ملکی سرمایہ کاری کے ترکی کی اقتصادیات پر مثبت اثرات مرتب ہوئے اور ترکی نے گزشتہ سال ساڑھے سات فیصد کی شرح سے ترقی کرتے ہوئے آئی ایم ایف ، عالمی بینک اور قرضہ جات کی درجہ بندی کرنے والے تمام بین الاقوامی اداروں کے تخمینوں کو غلط ثابت کر دکھایا اور ترقی کے اس سفر کو مزید تیز تر کردیا ہے۔ ان تمام حالات نےصدر ایردوان کو بھی اپنا فیصلہ تبدیل کرنے اور ڈیڑھ سال پہلے ہی قبل از وقت انتخابات کا اعلان کرتے ہوئے خوابِ خرگوش میں کھوئی ہوئیں سیاسی جماعتوں بیدار کرنے پر مجبور کردیا ہے۔ اپوزیشن جماعتوں میں فی الحال ایسی کوئی جماعت دکھائی نہیں دیتی ہے جو تن و تنہا صدر ایردوان کا مقابلہ کرسکے۔ بائیں بازو کی ری پبلیکن پیپلز پارٹی کے چئیرمین کمال کلیچدار اولو ابھی تک صدارتی انتخابات میں خود حصہ لینے یا نہ لینے کا فیصلہ ہی نہیں کرسکے ہیں جبکہ ان کے ساتھ اتحاد کے لیے تیار جماعتوں میں سے سابق وزیر داخلہ ” میرالآقشینر” کی قائم کردہ ” Good” پارٹی جو دائیں باوز کی جماعت سمجھی جاتی ہے نے ری پبلیکن پیپلز پارٹی کے ساتھ صدارتی اور پارلیمانی انتخابات اتحاد کرتے ہوئے مشترکہ طور پر حصہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس پارٹی کے علاوہ اس اتحاد میں مرحوم ایربکان کی “سعادت پارٹی” کے بھی شریک ہونے کی توقع کی جا رہی ہے۔ اس موقع پر ری پبلیکن پیپلز پارٹی نے صدارتی امیدوار کی حمایت حاصل کرنے کے لیے نئی قائم شدہ جماعت ” گڈ پارٹی ” کو اپنے 15اراکین کو ٹرانسفر کردیا ہے تاکہ اس جماعت کو پارلیمنٹ میں بیس اراکین پر مشتمل گروپ بنانے میں مدد ملے اور اس طرح وہ سرکاری طور پر انتخابی مہم کے دوران حکومت سے فنڈ حاصل کرسکے۔ ( ترکی کے آئین کی رو سے پارلیمنٹ میں بیس ارکان کو گروپ تشکیل دینے اور حکومت سے انتخابی مہم کے دوران فنڈ حاصل کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔) ترکی کے سیاسی حلقے ان 15 اراکان کی ٹرانسفر کو غیراخلاقی سودے بازی قرار دے رہے ہیں اسے 5 جون 1977ء کے اس واقعے سے تشبیح دے رہے ہیں جس کے تحت اس وقت کے ری پبلیکن پیپلز پارٹی کے چئیرمین بلنت ایجوت نے جسٹس پارٹی کے گیارہ اراکین کو وزارتوں کا لالچ دے جسٹس پارٹی کی حکومت کو گرادیا تھا اور بلنت ایجوت نے ان گیارہ ارکان کی حمایت سے نئی حکومت قائم کی تھی۔ اب ری پبلیکن پیپلز پارٹی کے ان 15 ارکان کی ” گڈ پارٹی”میں ٹرانسفر کو ری پبلیکن پیپلز پارٹی اور گڈ پارٹی کے ماتھے پر بد نما داغ سمجھا جا رہا ہے جس کے لازمی اثرات صدارتی اور پارلیمانی انتخابات پر بھی مرتب ہوں گے۔
(مضمون نگار معروف صحافی اور ترکی اخبار ٹی آرٹی میں اردو ایڈیشن کے سربراہ ہیں)

furqan61hameed@hotmail.com

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں