خسرہ روبیلا سے ہوگی ہریانہ، پنجاب کے بچوں کی حفاظت

ڈاکٹر مظفر حسین غزالی
پیدائشی روبیلا سنڈروم (سی آر ایس) سے ہونے والی انتہائی خطرناک بیماری کے خاتمے کے لئے مرکزی وزارت صحت وخاندانی بہبود نے یونیسیف، عالمی ادارہ صحت لائنس کلب، بین الاقوامی چلڈرن فنڈ اور دوسرے معاونین کی مدد سے ایم آر ٹیکہ کاری مہم کا کرناٹک سے آغاز ہوا تھا۔ اس کے تحت پورے ملک کے پندرہ سال تک کے41 کروڑ بچے مرحلہ وار کور کئے جائیں گے ۔ اس لحاظ سے دیکھیں تو یہ دنیا کی سب سے بڑی ٹیکہ کاری مہم ہے ، جو شروع کی گئی ہے ۔ اس مہم کے ذریعے ملک کی پندرہ ریاستوں کے بچوں کو ایم آر ٹیکہ دیا جا چکا ہے ۔ مہم کے پانچویں مرحلہ میں ہریانہ، پنجاب کے 153 لاکھ بچوں کو (80لاکھ ہریانہ اور 73 لاکھ پنجاب ) ٹیکہ دیا جائے گا ۔ ہریان ، پنجاب میں مہم کی شروعات اس موقع پر ہوئی ہے جب دنیا امیونائزیشن ہفتہ منا رہی ہے ۔ہریانہ میں وزیر اعلیٰ منوہر لعل کھٹر جبکہ پنجاب میں وزیر صحت برہم مہندرا نے خسرہ روبیلا مہم کو لانچ کیا۔ اس موقع پر چیف سیکریٹری ، سکریٹری ہیلتھ، میڈیکل آفیسر، امیونائزیشن آفیسر، شعبہ تعلیم، سماجی فلاح وبہبود، شہری ڈولپمنٹ، لیبر اور دوسرے تمام متعلقہ محکموں کے ذمہ داران موجود تھے ۔
نیشنل ہیلتھ مشن ڈائرکٹر ہریانہ امنیتا پی کمار نے اپنی گفتگو میں کہا کہ مہم کو کامیاب بنانے کے لئے ریاست کے سبھی 23000 اسکولوں (14000سرکاری اور 9000 پرائیوٹ) 26000 آنگن واڑی مراکز اور پرائمری ہیلتھ سینٹر، سب سینٹرز میں ٹیکے دئے جائیں گے ۔ اس کے لئے 51000 سیشن ہونگے اور کام کو پورا کرنے کے لئے 5000 اے این ایم، 20000 آشا اور 25000 آنگن واڑی کارکنوں کی مدد لی جائے گی ۔ انہوں نے کہا کہ ٹیکے لگانے والی ہر ٹیم کے ساتھ ایک ڈاکٹر رہے گا تاکہ لوگوں کا اس مہم میں یقین پیدا ہو اور اے ای ایف آئی کی صورت میں بچے کو فوراً طبی مدد مل جائے ۔ مزہبی رہنماؤں کو مہم کے ساتھ جوڑے جانے کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 80 فیصد بچوں کو اسکول میں ٹیکہ مل جائے گا باقی کو کور کرنے کے لئے الگ الگ ٹیمیں بنائی جا رہی ہیں ۔ ہارڈ ریچ اور جگی جھونپڑی ایریاز کو پھر بھی چنوتی بھرا ہوگا ۔ انہوں نے بتایا کہ میوات، بھوانی اور جھند ہریانہ کے پچھڑے علاقے ہیں وہاں ٹیکہ کاری پر خصوصی توجہ دی جا رہی ہے ۔ اس سے پہلے وہاں اتنا دھیان نہیں دیا گیا۔ اب حالات بہتر ہوئے ہیں ۔
پنجاب میں ایم آر ٹیکہ کاری مہم کو کامیاب بنانے کے لئے سرکاری وغیر سرکاری اداروں کو ساتھ لایا گیا ہے ۔ ان میں ساڑھے انیس ہزار سرکاری امداد یافتہ اور ساڑھے نو ہزار پرائیوٹ اسکول شامل ہیں ۔ اسکولوں کے ساتھ کریش، ڈے کیئر، جیل، جوویلاین ہوم میں بھی بچوں کی ٹیکہ کاری کی جائے گی ۔ نکل مکانی کرکے آنے والے بچوں کو کور کرنے کا خصوصی منصوبہ بنایا گیا ہے ۔ وزیر صحت وخاندانی بہبود برہم مہندرا نے بتایا کہ ضلع وبلاک کی سطح پر کمیٹیاں بنائی گئی ہیں اور سرکار کے تمام شعبے مل کر اس مہم کو کامیاب بنائیں گے ۔ انہوں نے کہا کہ اسکولوں کے ساتھ مدرسوں کے بچوں کو بھی ٹیکہ لگایا جائے گا ۔ بچے ہوئے بچوں کو گھر گھر جا کر ٹیکا دیا جائے گا ۔ 5200 صحت و آنگن واڑی کارکنوں میں 1700 سپر وائزر ہوں گے ۔ اس مہم میں ادارہ صحت اور یونیسیف انڈیا کی بھی شمولیت رہے گی ۔ ان کا ماننا ہے کہ گرمی اور اسکولوں کی چھٹی ہونے کی وجہ سے اس کام کے پورا ہونے میں وقت لگ سکتا ہے ۔
خسرہ روبیلا ایک مہلک مرض ہے ۔ جو وائرس کے ذریعہ پھیلتا ہے ۔ بچوں میں خسرہ کے سبب معزوری اور بے وقت موت ہو سکتی ہے ۔ روبیلا کی علامت بھی خسرہ جیسی ہوتی ہے ۔ بخارآنا، ناک بہنا، کف اور جسم پرلال نشان پڑ جانا وغیرہ ۔ یہ لڑکے یا لڑکی دونوں کو متاثر کر سکتا ہے ۔ روبیلا کا انفیکشن چھوٹا ہوتا ہے لیکن اگر اس کی زد میں کوئی حاملہ خاتون حمل کے ابتدائی ایام میں آجائے تو اس کے خطرناک نتائج سامنے آتے ہیں ۔کچھ بچے مردہ ہی پیدا ہوتے ہیں تو کچھ پیدا ئشی بہرے، نا بینا، دماغی طور پر کمزور یا پھر دل میں سوراخ ہونے جیسی بیماریوں کی گرفت میں آ جاتے ہیں ۔اسے خلقی روبیلا سنڈروم کہتے ہیں جس کا کوئی علاج نہیں ہے ۔ میڈیکل سائنس دانوں کی نظر میں ان بیماریوں سے محفوظ رہنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ خسرہ روبیلا جیسے وائرس کو ختم کرنے کے لئے صدفیصد ٹیکہ کاری کے ہدف کو پورا کیا جائے۔
ایم آر ویکسین دنیا کے 120 ممالک میں استعمال ہو رہا ہے ۔خود بھارت میں پرائیویٹ ڈاکٹر آٹھ نو سو روپے کی فیس وصول کر کے یہ ٹیکا فراہم کرتے ہیں ۔اس لئے غریب عوام کی پہنچ سے خسرہ روبیلا کا ٹیکا دور تھا ۔ ایم آر ویکسین خسرہ روبیلا سے بچاؤ کرتا ہے، جس کی وجہ سے بڑی تعداد میں بچوں کی موت ہو جاتی ہے ۔ خسرہ میں خاصی مقدار میں انفیکشن پھیلانے والے جرثومے ہوتے ہیں، جو کف اور چھینکنے سے پھیلتے ہیں ۔2015 میں خسرہ کی وجہ سے عالمی سطح پر 134,200بچوں کی موت ہوئی تھی ۔ ان میں سے 49,200 یعنی 36 فیصد بچے بھارت کے تھے۔ایک اندازہ کے مطابق اب بھی ہر سال32 -35 ہزار بچے موت کے منھ میں چلے جاتے ہیں۔ جو بچ گئے ان سے دوسروں کے انفیکٹڈ ہونے اور ڈائریا و نمونیا جیسے موذی مرض کی زد میں آ نے کا جوکھم اور بڑھ جاتا ہے ۔
شعبہ صحت نے 2020 تک خسرہ روبیلا کو پوری طرح ختم کرنے کا ہدف رکھا ہے ۔ اس ٹارگیٹ کو حاصل کرنے کے لئے پندرہ سال تک کی عمر کے41 کروڑ بچوں و نوعمروں کو ٹیکہ لگا یا جائے گا بھلے ہی وہ پہلے خسرہ کا ٹیکا لگواچکے ہوں ۔ اسے سبھی اسکولوں، کمیونٹی سینٹروں، آنگن واڑی مراکز اور سرکاری صحت مراکز پر لگایا جائے گا تاکہ کوئی بھی بچہ چھوٹ نہ پائے ۔ ایم آر ویکسین ایک خاص طرح کی سیرنج کے ذریعے دی جاتی ہے ۔ اس میں مقررہ خوراک سے کم یا زیادہ دوائی نہیں لی جا سکتی اور نہ ہی انجکشن دوباره استعمال ہو سکتا ہے ۔ ایم آر ٹیکہ پوری طرح محفوظ ہے، اس کے کو ئی سائیڈ ایفیکٹ نہیں ہو تے ۔ بچوں کو ٹیکہ تربیت یافتہ طبی کارکنوں کے ذریعے لگایا جاتا ہے ۔ کئی لوگ اس کو لے کر غلط فہمیوں کا شکار ہیں جبکہ تمام ماہر امراض اطفال، سائنس دان، سماجی کارکن اور مزہبی رہنما ٹیکہ کاری کی حمایت کرتے ہیں ۔
مرکزی وزارت صحت وخاندانی بہبود میں ٹیکہ کاری معاملوں کے ڈپٹی کمشنر ڈاکٹر پردیپ ہلدر کا کہنا ہے کہ روبیلا پندرہ سال تک کے بچوں کے لئے زیادہ خطرناک ہے ۔ ایک روبیلا انفیکٹڈ بچہ آس پاس کے 80-95 فیصد بچوں تک یہ وائرس پہنچا سکتا ہے ۔ مہم کے تحت پانچ سال تک کی عمر کے قریب ایک تہائی بچوں کی موت کو ٹیکہ کاری کے ذریعہ روکا جائے گا ۔ دیش میں ممکنہ مکمّل ٹیکہ کاری کے ہدف کوایک مقررہ مدت یعنی 2020 تک پورا کرنے کے لئے یہ مہم چلائی جا رہی ہے ۔ مرحلہ وار سبھی بچوں کو ایم آر ٹیکہ دئے جانے کے بعد اسے معمول کی ٹیکہ کاری میں شامل کر دیا جائے گا اور یہ یونیورسل ایمو نائزیشن پروگرام میں خسرہ کے ٹیکے کی جگہ لے گا ۔ انہوں نے کہا کہ امیونائزیشن ہفتہ میں 21 ہزار ان گاؤں کو ٹارگیٹ کیا گیا ہے جہاں ٹیکہ کاری کمزور رہی ہے ۔ ان میں زیادہ تر پسماندہ اور حاشیہ پر ڈھکیلے ہوئے لوگ رہتے ہیں ۔ ہمارا عزم ہے کہ اس بچے کو ٹیکہ لگے جس کو اس کی ضرورت ہے۔