نئی دہلی 27؍اپریل (پریس ریلیز) وقف کی زمین پر تعمیر ایک مدرسہ اور مسجد میں لاؤڈاسپیکر کے استعمال کی اجازت کو لیکر دائر شدہ ایک مقدمہ میں الہ آباد ہائی کورٹ کے جسٹس سدھیر اگروال نے دائر ے سے تجاوز کرکے جوعجیب وغریب فیصلہ دیا تھا اس سے وقف شدہ کھیتی کی زمین پر تعمیر تمام عبادت گاہوں اور مدرسوں کی کے وجود کو خطرہ لاحق ہوگیا تھا ، اس فیصلہ کو جمعیۃعلماء ہند نے سپریم کورٹ میں چیلنج کیاہے جس پر آج سپریم کورٹ آف انڈیا کی تین رکنی بینچ جس میں جسٹس جوزف کورین ، جسٹس شانتانوگوڈار اور جسٹس نوین سنہا کے روبرو سماعت عمل میں آئی جس کے دوران عدالت نے الہ آباد ہائی کورٹ کے اس فیصلہ پر اسٹے دے دیا ۔ہے جمعیۃعلماء ہند کی یہ ایک اور بڑی کامیابی ہے اس قضیہ کی شروعات اترپردیش کے ضلع فتح پور کے ایک گاؤں چریان سے ہوئی جہاں محمودحسن نامی ایک شخص نے اپنی زمین مدرسہ کے نام وقف کردی تھی اس پر مدرسہ چل رہا تھا تنازعہ تب شروع ہوا جب مدرسہ میں نماز کی ادائیگی کے لئے لاؤڈاسپیکر سے اذان ہونے لگی ، مقامی لوگوں نے اس پر اعتراض کیا محمودحسن نے متولی کی حیثیت سے اس کو لیکر الہ آباد ہائی کورٹ میں ایک عرضی داخل کی جس پر عدالت نے کہا کہ وہ اس سلسلہ میں ضلع کلکٹر سے رجوع کریں کیونکہ اجازت دینے کا مجاز وہی ہے انہوں نے جب ضلع کلکٹر کو عرضی دی تو کہا گیا کہ چونکہ ماحول خراب ہونے کا اندیشہ ہے اور لااینڈ آڈرکا مسئلہ بھی پیداہوسکتا ہے اس لئے وہ عدالت سے ہی رجوع کریں چنانچہ انصاف کے لئے دوبارہ الہ آبادہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایاگیا ۔
معاملہ پر سماعت ہوئی تو جسٹس سدھیر اگروال کی یک رکنی بینچ نے مذکورہ وقف کی زمین کو زراعت والی زمین قراردیدیا اور کہا کہ زراعت والی زمین وقف نہیں کی جاسکتی انہوں نے دوسری دلیل یہ دی چونکہ یہ زمین انہیں زمینداری ایکٹ کے نفاذ کے بعد اسٹیٹ سے ملی ہے اس لئے وہ نہیں بلکہ اس کی اصل مالک اسٹیٹ ہے جسے وہ وقف نہیں کرسکتے جچ موصوف نے اس تعلق سے زمینداری ایکٹ کی دفعات کا حوالہ دیا اور کہا کہ کھیتی باڑی والی زمین کو مسجد اور مدرسے کے لئے وقف نہیں کیا جاسکتا اور اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر کوئی شخص ایسی زمین پر کوئی دوسراکام کرنا چاہتاہے تو اسے اس کے لئے پہلے ضلع کلکٹر سے اجازت لینی ہوگی ،
اگرچہ محمودحسین نے اپنی عرضی میں لاؤڈاسپیکر کے استعمال کی اجازت طلب کی تھی مگر فاضل جج سدھیر اگروال نے اس سے بھی آگے بڑھتے ہوئے نہ صرف یہ کہ وقف کی حیثیت پر سوال کھڑاکردیا بلکہ انہوں نے ریاست کے چیف سکریٹری کو یہ ہدایت بھی جاری کردی کہ وہ کھیتی باری کی زمین پر تعمیر تمام عبادت گاہوں اور مدارس پر 28؍مئی تک مفصل رپورٹ عدالت کو پیش کریں اور اس طرح کی زمینوں کی بازیافت کرکے اسے اسٹیٹ کے حوالہ کرنے کی کارروائی کریں حالانکہ وقف سے متعلق ایک دوسرے معاملہ میں الہ آبادہائی کوڑت کی فل بینچ اس سے پہلے یہ فیصلہ دے چکی ہے کہ کھیتی باڑی والی زمین کو بھی وقف کیا جاسکتا ہے لیکن جج موصوف نے فیصلہ سناتے ہوئے عدالت کے سابقہ فیصلہ کو پیش نظرنہیں رکھا ہائی کورٹ کے اس عجیب وغریب فیصلہ کے خلاف متولی کی حیثیت سے محمودحسین کے ساتھ سنی سینٹرل وقف بورڈ نے بھی سپریم کورٹ میں عرضی داخل کی تھی معاملہ چونکہ بے حد حساس تھا اوراس حکم سے ریاست کی بہت سی عبادت گاہوں امام باڑوں اورمدارس کے وجودپر سوالیہ نشان لگ چکا تھا اس لئے مسلمانوں کی ایک نمائندہ تنظیم کی حیثیت سے جمعیۃعلماء ہند نے بھی اس فیصلہ کو سپریم کورٹ میں چیلنچ کیا اور ایک فریق بن گئی عدالت مین جب سماعت شروع ہوئی تو جمعیۃکے وکلاء نے نہ صرف یہ کہ مضبوط دلائل پیش کئے بلکہ الہ آباد ہائی کورٹ کے سابقہ فیصلہ کی نظیر بھی سامنے رکھی جس کو عدالت نے اہم تصور کیا اور جسٹس سدھیر اگروال کی چیف سکریٹری کو دی گئی ہدایت پر اسٹے لگادیا اور اس تعلق سے اترپردیش سرکارکو ایک نوٹس بھی جاری کی البتہ محمودحسین مقدمہ میں ابھی بحث جاری رہے گی
جمعیۃ علماء کی جانب سے ایڈوکیٹ آن ریکارڈ فضیل ایویی، سینئر ایڈوکیٹ اندرا جےء سنگھ، سنی وقف بورڈ کی جانب سے راجو رام چندرن جبکہ متولی محمود حسین کی جانب سے سنجے ہیگڑے نے عدالت میں اپنے دلائل پیش کیئے۔
جمعیۃ علماء ہند کے صدرمولانا سید ارشدمدنی نے سپریم کورٹ کے فیصلہ کا خیرمقدم کیا ہے اور اس امید کا اظہا ر بھی کیا ہے کہ اس اہم معاملہ میں حتمی فیصلہ بھی ہمارے حق میں ہوگا انہوں نے یہ بھی کہا کہ الہ آباد ہائی کورٹ کے غیر منطقی فیصلہ سے ریاست میں ہزاروں عبادت گاہوں اور مدارس کا وجود خطرہ میں پڑگیا تھا کیونکہ ایسی بہت سی زمینیں وقف کی ہیں جو کھیتی باڑی کے دائرے میں آسکتی ہے مولانا مدنی نے کہا کہ اس فیصلہ سے بہت سے مٹھ اور اشرم بھی زدپر آگئے تھے کیونکہ وہ بھی کھیتی والی زمینون پر ہی بنے ہوئے ہیں انہوں نے سوال کیا کہ اگر کھیتی والی زمینوں پر کالونیاں آباد ہوسکتی ہیں ، فیکٹریا ں قائم ہوسکتی ہیں ، سڑکیں تعمیر ہوسکتی ہیں تو اس پر عبادت گاہیں اور تعلیمی ادارے کیون نہیں قائم ہوسکتی ؟۔





