محمد عاطف اسراہوی، نئی دہلی
بچپن سے ہی مجھے درسی سرگرمیوں سے کہیں زیادہ غیر درسی سرگرمیوں کا شغف رہا ہے۔ ان میں لکھنا ، تقریری مقابلوں میں حصہ لینا ، غیر نصابی کتب کا مطالعہ کرنا اور کرکٹ کھیلنا وغیرہ شامل ہیں۔ جبکہ والدین کا سارا زور نصابی کتب کے مطالعے کی طرف رغبت دلانے میں صرف ہوتا رہا ہے۔ تفصیل پھر کبھی کہ کیسے میں ڈاج دے کر اپنے شوق پورا کرتا رہا کیونکہ ان میں کچھ تو اپنی نوعیت کے اعتبار سے قابل قبول تھے مگر کچھ والدین کی نگاہ میں محض وقت کا ضیاع تھے۔
بہرحال میرا ایک محبوب مشغلہ تاریخ اسلام ، سیرت اور حالات حاضرہ سے مختلف ذرائع سے آگاہ رہنا بھی تھا۔ ذرائع کیا بلکہ ایک ہی ذریعہ تھا اخبار قومی تنظیم اور بعد میں راشٹریہ سہارا ہمارے یہاں آنے لگا۔ تاریخ اسلام اور سیرت وغیرہ کے لئے لائبریری کی کتابیں کھنگالا کرتا۔
اب جب اتنی معلومات اکٹھی ہو جائے تو اپنی قابلیت دکھانے کے لئے کوئی پلیٹ فارم درکار ہوتا۔ پلیٹ فارم مہیا ہوجاتا کوئز مقابلوں کی صورت میں۔ کوئز مقابلے ہماری درسگاہ میں اجتماعی صورت میں منعقد ہوتے اس طرح کہ تمام طالب علموں کو دو یا اس سے زائد گروپوں میں منقسم کر دیا جاتا۔
میرے سارے ساتھی عمر میں ، شعور میں ، ہر لحاظ سے مجھ سے بڑے ہوتے اور میں ٹھہرا ننہا ضدی بچہ۔ وہ باہم مشورہ کرتے اور سب کو سمجھاتے کہ کوئز کے کسی سوال کا جواب معلوم ہونے کی صورت میں پہلے سب کے ساتھ شیئر کرنا ہے اور سب کے اتفاق کے بعد باہم سے ایک طالب علم متعین کرتے کہ انہوں نے کھڑے ہوکر جواب دینا ہے۔ ظاہر ہے وہ ایسا اغلاط سے اجتناب کرتے ہوئے کوئز مقابلہ جیتنے کے مقصد سے کرتے۔ لیکن ادھر میں سارے منصوبے پر پانی پھیر دیتا یہ کہہ کر کہ میرا جواب میں خود دوں گا۔ مجھے یہ قطعی ناپسند تھا کہ بات میری ، جواب میرا اور کریڈٹ کوئی دوسرا لے جائے۔ یہاں قارئین مطمئن رہیں کہ میں شک و شبہ والے جواب خود کبھی دیتا ہی نہیں تھا جب تک کہ سو فیصد پریقین نہ ہو رہوں اپنے جواب سے۔
خیر یہ تو تھی بچپن کی بات۔ واقعہ سنانے کا مقصد یہ کہ آج ہم اپنے کسی مسئلے کو حل کرنے میں ، اپنی کسی تحریک کو کامیاب بنانے میں ان نام نہاد سیکولروں اور لبرلوں کی جانب پرامید نگاہوں سے کیوں تکتے ہیں۔ کیوں چاہتے ہیں کہ وہ آکر ہمارے منہ کی بات بولیں ، ہماری قیادت کریں۔ کیوں ہم آج بھی اسی ذہنیت میں پڑے رہنا چاہتے ہیں جس میں ہمیں برسوں رکھا گیا ہے کہ ہماری آواز کوئی سیکولر ، لبرل اور ترقی پسند ہی بلند کر سکتا۔ کیا ہم اپنی آواز خود نہیں بلند کر سکتے؟ کیا ہم اپنی بات خود نہیں رکھ سکتے؟ کیا ہم اپنے مسائل خود نہیں اپنے زور بازو سے سلجھا سکتے؟ کیا ہم اس کے اہل نہیں ہیں؟ یقینا ہیں!
احساس کمتری سے نکلو یاروں۔ ہم اہل زبان ہیں بھئی۔ کوئی گونگے اور کم ہمت لوگ نہیں۔
خطابت کس کو کہتے ہیں دنیا نے ہم سے سیکھا ہے۔ اپنے الفاظ سے مکمل مجمع کو باندھ لینا لوگوں نے ہم سے جانا ہے۔ سیدنا جعفر طیار سے لے کر ابوالکلام آزاد تک تاریخ گواہ ہے ہمارے جوہر کی۔
پھر کیوں؟ کیوں ہم غیروں میں اپنی آواز تلاشتے ہیں؟
دیکھتا ہوں علیگڑھ یونیورسٹی کے حالیہ معاملے میں احباب یہ سوال کر رہے ہیں کہ کیوں شہلا ، کنہیا اور خالد ہمارے مسئلے پر آکر نہیں بولتے۔ کیوں خاموش ہیں یہ لوگ۔
نادانوں! کیوں اپنی قیادت تھالی میں سجا کر انہیں سونپنا چاہتے ہو؟ یہ تو قیادت کے بھوکے لوگ ہیں اور اس سے بڑھ کر یہ خائن ہیں ، ملاوٹ کرنے والے لوگ ہیں۔ یہ ذرا سی آپ کی بات کہیں گے اور بقیہ اپنی سنائیں گے ، آپ کے اسٹیج سے اپنی فکر پروان چڑھائیں گے۔ وہ فکر جو بدترین ہے اور نجس ہے۔
ابوالکلام کے وارثوں! اپنی تلاش تمام کرو۔ اپنے درمیان بہت سے ابوالکلام تیار کرو۔ یہی زمانے کی ضرورت ہے اور ابھی بہت دیر بھی نہیں ہوئی۔





