کرناٹک میں کانگریس کی واپسی یقینی کیوں ؟

گذشتہ چار سالوں میں یہ دیکھابھی گیاہے کہ جب بھی بی جے پی کو اپنی شکست یقینی نظر آتی ہے تو وہ پاکستان یا فرقہ پرستی کا مسئلہ چھیڑ کر جذباتی بنیاد پر ہندوووٹ حاصل کرنے کی کوشش کر تی ہے
خبر درخبر(562)
شمس تبریز قاسمی
جنوبی ہند کی معروف ریاست کرناٹک میں اسمبلی انتخابات کے دن بہت قریب آچکے ہیں ۔12 مئی کوووٹ ڈالے جائیں گے جبکہ 15 کو گنتی ہوگی ۔کرناٹک اسمبلی انتخابات پر ہندوستان سمیت پوری دنیا کی نظر ہے اور2019 کے تناظر میں اسے دیکھاجارہاہے ۔تجزیہ نگاروں کا مانناہے کہ اس الیکشن کے نتائج سے 2019 کے رحجان کا اندازہ لگ جائے گا ۔ملک کی دواہم پارٹیاں کانگریس اور بی جے پی بھی 2019 کے نظریہ سے اس انتخاب کو جیتنے کیلئے جدجہدکررہی ہیں ۔اگر کانگریس جیت جاتی ہے تو اس سے نومنتخب صدر راہل گاندھی کے اقبال میں اضافہ کے ساتھ بی جے پی کے زوال کا پیغام جائے گا ،کہاجائےگا کہ نریندر مودی کی الٹی گنتی اب شروع ہوگئی ہے ۔ اگر بی جے پی جیت جاتی ہے توکانگریس کو اگلے انتخابات میں نہ صرف مزید پریشانیوں کا سامناکرناپڑے گا بلکہ اس کا دائرہ ایک علاقائی پاٹی کی طرح محدود ہوجائے گا ۔اس لئے وزیر اعظم نریندر مودی اور کانگریس صدر راہل گاندھی دونوں شب وروز ایک کرکے کرناٹک کی عوام کو لبھانے میں لگے ہیں ۔اس دوران نیشنل میڈیا کے ذریعہ جو سروے آرہے ہیںاس نے کانگریس کی جیت کو یقینی بنادیاہے۔زمینی سطح کی رپوٹ بھی یہی کہ رہی ہے کہ کانگریس کی واپسی یقینی ہے اور بی جے بی یہاں نہیں جیت پائے گی ۔
اس وقت کرناٹک میں کانگریس کی حکومت ہے۔ گذشتہ پانچ سالوں میں سد ارمیانے وہاں مثالی کارنامہ انجام دیاہے ۔وہ واحد وزیر اعلی ہیں جنہوں نے چالیس سالوں میں وزیر اعلی کی پانچ سالہ مدت بھی پوری کی ہے ۔کرناٹک ترقی ،صفائی ستھرائی ،تعلیم ،روزگار فراہم کرنے اور دیگر امور میں اول نمبر کی ریاست ہے ۔لنگایت فرقہ کے مطالبات کو تسلیم کرکے الگ مذہب قراردیکر کانگریس نے بی جے پی کا ووٹ بینک بھی اپنے قبضے میں کرلیاہے ۔ریاست کی مسلم عوام بھی تقریبا یکطرفہ طور پر کانگریس کو سپورٹ کررہی ہے ۔دلت اور سیکولر ہندﺅوں کا ووٹ بھی کانگریس کو ہی جارہاہے ۔اندرونی ذرائع کے مطابق خود بی جے بی کو اس بات کا احساس ہوگیاہے کہ وہاں ہماری پارٹی نہیں جیت پائے گی اسی لئے علی گڑھ مسلم یونیورسیٹی کے طلبہ یونین کے ہال میں 80 سالوں سے لگی بانی پاکستان محمد جناح کی تصویر کا مسئلہ چھیڑ کر ماحول کو فرقہ وارانہ بنانے کی کوشش کی گئی ہے ۔
گذشتہ چار سالوں میں یہ دیکھابھی گیاہے کہ جب بھی بی جے پی کو اپنی شکست یقینی نظر آتی ہے تو وہ پاکستان یا فرقہ پرستی کا مسئلہ چھیڑ کر جذباتی بنیاد پر ہندوووٹ حاصل کرنے کی کوشش کر تی ہے ۔2015 میں بہار انتخابات کے دوران عظیم اتحاد کے سامنے اپنی پسپائی کا یقین ہوجانے کے بعد بی جے پی کے قومی صدر امت شاہ نے کہاتھاکہ اگر بی جے پی ہار گئی تو پاکستان میں پٹاخے پھوٹیں گے ۔اتر پردیش اور دیگر اسمبلی انتخابات سے چندماہ قبل سرجیکل اسٹرائک کا ڈرامہ کیاگیاجسے اکثر تجزیہ کار فرضی مانتے ہیں ۔گجرات اسمبلی انتخابات میں بھی جے بی جے پی کو اپنی ہار نظر آنے لگی تو پاکستان کا سہار ا لیتے ہوئے کہاکہ پاکستان احمد پٹیل کوزیر اعلی بنانا چاہتاہے ۔یہاں کے انتخابات میں پاکستان کی مداخلت ہے ۔کرناٹک اسمبلی انتخابات میں اپنی شکست کا یقین ہوجانے کے بعدیہاں بھی بی جے نے پی یہی کارڈ کھیلنے کی کوشش کی ہے ۔
کرناٹک کی عوام اور تجزیہ کاروں کا مانناہے کہ جنوبی ہندوستان میں بی جے پی کا یہ کارڈ کامیاب نہیں ہوسکتاہے ۔یہاں کی ذہنیت شمالی ہندوستان سے مختلف ہے ۔چارسالوں میں مسلمانوں کے ساتھ ہندو عوام نے بھی جائزہ لے لیاہے کہ بی جے پی سرکار نے کیاکام کیاہے ۔عوام کی نگاہ مرکز ی حکومت کے جانب سے چارسالوں کے دوران کئے گئے کاموں پر ہے اور ان ریاستوں میں بھی ہے جہاں بی جے پی حکومت ہے اس لئے کوئی سوال پیدا نہیں ہوتاکہ بی جے پی کو ووٹ دیاجائے ۔
کرناٹک اسمبلی انتخابات میں ووٹوں کو تقسیم کرنے کیلئے آل انڈیا مہیلا ایمپارومینٹ نام کی ایک پارٹی بھی فعال ہوچکی ہے ۔ حیدر آباد سے تعلق رکھنے والی ایک مذہبی مسلم خاتون اس کی سربراہ ہے۔اکثر حلقوں سے اس کے امیدوار کھڑے ہوئے ہیں ۔ٹی وی چینلوں پر اس کے بڑے بڑے اشتہارات آرہے ہیں ۔کرناٹک اسمبلی انتخابات سے عین قبل یہ پارٹی منظر عام پر آئی ہے ۔تجزیہ نگاروں کا مانناہے کہ یہ بی جے پی کا حربہ ہے لیکن عوام کی اس جانب کوئی توجہ نہیں ہے اور نہ ہی مسلم ووٹ پر اس سے کوئی فرق پڑنے والاہے ۔
کرناٹک اسمبلی انتخابات میں علاقائی پارٹی جے ڈی ایس کو کنگ میکر کے طور پر بعض چینلوں کے ذریعہ دیکھاجارہاہے ،کہاجارہاہے کہ ایچ دیو گوڑا کی حمایت کے بعد کوئی پارٹی حکومت بناسکے گی کانگریس اور بی جے پی میں سے کوئی بھی پارٹی تنہا اکثریت کے اعداد وشمار کو مکمل نہیں کرپائے گی ۔کرناٹک میں کل 224حلقے ہیں جس میں حکومت سازی کیلئے 113 سیٹیں ہونی چاہیئے ۔2013 کے اسمبلی انتخابات میں کانگریس کو 122 سیٹوں پر جیت ملی تھی جبکہ بی جے پی کو 42 اور جے ڈی ایس کو صرف 29 سیٹیں ملی تھی۔زمینی حقائق کے مطابق حالیہ الیکشن میں بھی 2013 کی تاریخ کا اعادہ ہوگا ۔کانگریس تنہاءحکومت بنائے گی ۔اس سچائی سے نظر انداز بھی نہیں کیاجاسکتاہے کہ جے ڈی ایس کانگریس کو اقتدار باہر کرنے کیلئے ہرممکن کوشش کررہی ہے ۔بی جے پی کے ساتھ بھی وہ جاسکتی ہے ۔گذشتہ چند دنوں سے جس طرح پارٹی سربراہ ایچ دیو گوڑا وزیر اعظم نریندر مودی کی تعریف کررہے ہیں اس نے اس شک کو یقین میں تبدیل کردیاہے ۔یہ پارٹی پہلے بھی بی جے پی کے ساتھ حکومت میںشریک رہ چکی ہے ۔مجلس اتحاد المسلمین کے سربراہ اسد الدین اویسی بھی اپنے نمائند کھڑے کرنے کے بجائے جے ڈی ایس کی حمایت کررہے ہیں لیکن مسلم ووٹ کو اپنی طرف مائل کرنے میں وہ کامیاب نہیں ہوپارہے ہیں ۔ایس ڈی پی آئی جنوبی ہند کی ایک مقبول پارٹی بن چکی ہے ۔شروع میں اس نے بھی 70 سیٹوں پر اپنے امیدوار اتارنے کا فیصلہ کیاتھا لیکن حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے صرف دو سیٹوں پر اس کے امیدوار لڑرہے ہیں ۔کانگریس کی مکمل حمایت کرکے ہندتوا پارٹیوں کو ہرانے میں یہ بھی پیش پیش ہے ۔
برسبیل تذکرہ کرناٹک کے موجودہ اعلی سد ارمیا کے ایک ٹوئٹ کا تذکرہ مناسب ہوگا۔ چند ماہ قبل وزیر اعظم نریندر مودی نے بنگلور کا دورہ کیاتھا اس موقع پر انہوں نے ٹوئٹ کرتے ہوئے لکھا”ہندوستان کی نمبر ون ریاست میں آپ کا خیر مقدم ہے “ ۔انہوں نے صرف ٹوئٹ کرنے پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ ایئر پورٹ سے لیکر شہر تک بڑے بڑے ہورڈنگس لگوائے جس پر یہی عبارت لکھی ہوئی تھی ”کرناٹکا ہندوستان کی نمبر ون ترقی یافتہ ریاست ہے“۔
stqasmi@gmail.com