احساس نایاب
(شیموگہ، کرناٹک)
آج کل ریاست کرناٹک میں انتخابات کا موسم بہار ہے۔جدھر دیکھو ادھر ہی انتخاب کا بادل چھایا ہوا ہے۔ ہر شہر، ہر گاؤں، گلی کوچے، حتیٰ کہ ہر انسان کی گفتگو کا موضوع یہی انتخاب ہے ۔ سیاسی مہارتھیوں سے لیکر اہل جبہ و دستار بھی اپنے اپنے مفادات کے لئے انتخابی میدان جنگ میں کودے پڑے ہیں۔ کہیں کسی پارٹی کی حمایت میں جلسے جلوس ہورہے ہیں تو کہیں سیاسی پارٹیاں بھولی بھالی عوام کو لبھانے کے لئے بڑے بڑے جلسے اور ریلیاں کرکے جھوٹے وعدوں اور سیاسی جملے بازیوں کے ذریعہ ہر ووٹ کواپنی جھولی میں ڈالنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زورلگارہے ہیں۔ ہمیشہ کی طرح اس الیکشن میں بھی وہی سارے پرانے شکاری نئے نئے جال لے کر انتخابی دنگل میں کودپڑے ہیں اور اپنے خطرناک ارادوں اور ناپاک سازشوں سے کرناٹک کے ساتھ ساتھ پورے ملک کے مستقبل کو برباد کرنا چاہتے ہیں ۔
الیکشن کی اس گہماگہمی میں کچھ ایسے حالات بھی سامنے آرہے ہیں جس سے ہر مسلمان کا واقف ہونا بے حد ضروری ہے، ہم میں سے ہر ایک کا فرض بنتا ہے کہ وہ ایک دوسرے کو اس حقیقت سے روشناس کرائیں، یہ الگ مسئلہ ہے کہ ہم میں سے ہر کوئی اس بات پر متفق ہوتا ہے یا نہیں لیکن اسلام کے احکامات سچ اور برحق ہیں جو کسی کے ماننے نہ ماننے سے بدل نہیں سکتے اور نہ ہی کوئی بندہ اپنے مفاد کے لئے اس میں کسی بھی قسم کی تبدیلی کرسکتا ہے ۔ دراصل جہاں تک ہم نے پڑھاہے اور اپنے علمائے کرام سے سناہے کہ نبوت سیاست کا سب سے اعلیٰ اور سب سے بلند مقام ہے اور اگر عورت کو سیاست میں آنے کی اجازت ہوتی تو اللہ رب العزت اس صنف نازک یعنی عورت کو نبوت سے بھی سرفراز کرتا مگر اللہ نے کسی عورت کو نبوت کے مرتبہ پر فائز نہیں کیا۔ اس سے یہ بات بہت حد تک واضح ہوجاتی ہے کہ جب عورت نبوت کے مقام پر فائز نہیں ہوسکتی تو بھلا سیاست جو کہ نبوت کا اعلیٰ درجہ ہے اس میں حصہ لینے کی اجازت کہاں ہوسکتی ہے۔ رہی بات عورت کا انتخابات میں امیدوار کی حیثیت سے کھڑا ہونا تو اس سلسلے میں جو بنیادی باتیں نظروں سے گزری ہیں وہ یہ ہے کہ اسلام نے امامت کبریٰ (نبوت) اور امامتِ صغریٰ (نماز کی امامت) جس طرح مردوں سے متعلق کی ہے اسی طرح خلافت، امارت، گورنری، ایوان کی رکنیت، شوریٰ کی رکنیت اور قضا کے فرائض بھی مردوں کے سپرد کئے ہیں۔
حافظ ابن کثیرؒ لکھتے ہیں: ولھذا کانت النبوۃ یختصہ بالرجال وکذلک الملک الأعظم لقولہ علیہ السلام لن یفلح قوم ولّوا أمرھم امرأۃ (رواہ البخاری) (ترجمہ) اور انہی وجہ سے نبوت مردوں کے ساتھ مخصوص رہی ہے اور اسی طرح خلافت اور امارت؛ کیونکہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ وہ قوم ہرگز فلاح نہ پائے گی جس نے اپنے امور مملکت عورتوں کے سپرد کر دیئے (بخاری)
بے شک آقا دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم کا کہا گیا ایک ایک لفظ برحق ہے۔ اور یہ سب کچھ جانتے بوجھتے ہمارے کئی مسلمان بھائی بہن خاص کر وہ جو خود کو دیندار کہتے ہوئے آج نوہیرا شیخ کے آگے پیچھے ان کے گن گان گاتے، ان کی چاپلوسی کرتے ہوئے گھوم رہے ہیں، ان کا ساتھ دے رہے ہیں، بتائیں کہ وہ اسلامی احکامات کو ترجیح دے رہے ہیں یا خود کو عالمہ کہنے والی فریبی خاتون جو اپنے مفاد کے لئے دین کے ساتھ کھلواڑ کر رہی ہیں، شریعت کے نام پہ لوگوں کو فریب دے رہی ہیں ،جو آج جسٹس فار ہئومینٹی کا دعویٰ کرتے ہوئے بی جے پی اور فسطائی طاقتوں کی ایجنٹ بن کر سیاست میں آئی ہیں ، ایسی عورت کی اقتدا کریں گے ؟ کیونکہ جہاں اسلام میں عورتوں کے پیچھے نماز ادا کرنا حرام قرار دیا گیا ہے، وہاں ایک عورت کا قیادت کرنا کیسے درست ہوسکتا ہے ؟ دنیاوی نام و نمود، شہرت یا کاغذ کے چند ٹکڑوں کی چاہت میں اپنے ایمان کا سودا کرنا اور منافقت کرتے ہوئے، قوم کو نقصان پہنچاتے ہوئے اپنی آخرت کو بگاڑنا یہ کہاں کی عقلمندی ہے ؟ نوہیرا شیخ اور ان کی ایم ای پی پارٹی کا حقیقی چہرہ ان کی گندی نیت ان تصاویر میں صاف نظر آرہی ہے جس میں یہ اتنی گرچکی ہیں کہ اپنے فائدے کی خاطر ایک ایسے فریبی مکار انسان سے ہاتھ ملارہی ہیں ، جو کسی شعبدہ باز اور مسخرے سے کم نہیں ہے۔ اور یہ مسخرہ بی جے پی کی پیدائش ہے ، جسے کچھ دن قبل بی جے پی نے بابر کا وارث بناکر بابری مسجد کی زمین جائیداد کو ہتھیانے کے لئے شہزادے کے کپڑے پہناکر دنیا کے آگے پیش کیا۔ دراصل یہ نمونہ ایک سطحی درجے کا آٹو ڈرائیور ہے اور سنا ہے کہ یہ شخص ایک نمبر کا مفاد پرست اور فریبی انسان ہے ۔ یہ سلیم نامی آٹو ڈرائیور بابری مسجد کا سودا کرنے کے لئے بی جے پی کا دلال بنا بیٹھا ہے اور ایسے دلال سے ہاتھ ملاکر گلدستہ دیتے ہوئے اس کے ساتھ تصاویر کھینچوانا اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ نوہیرا شیخ بھی خود بی جے پی کی دلال ہیں اور یہ ایم ای پی پارٹی کسی اور کی نہیں بلکہ بی جے پی کی بی ٹیم ہے تاکہ مسلمانوں کے قیمتی ووٹوں کو آسانی سے تقسیم کیا جاسکے اور ایسی عورت کا ساتھ دینے والے بھی قوم کے دشمن ہیں ۔
یاد رکھیں نوہیرا شیخ بھلے ہی عالمہ ہونگی پر ضروری نہیں کہ خود کو عالم عالمہ کہلانے والے ہمیشہ اسلام کے سچے پیروکار اور قوم و ملت کے مخلص و بہی خواہ بھی ہوں۔ اگر ایسا ہوتا تو ابلیس تو سب سے زیادہ عبادت گذار اور سب سے زیادہ علم رکھنے والا تھا ، پر جب ہزاروں سالوں کی عبادت کے باوجود ابلیس کی نافرمانی، تکبر غرور گناہ بن گیا، جس کی وجہ سے اس کو ہمیشہ کے لئے جنت سے نکال دیا گیا تو ہم انسان خطاؤں کے پتلے ہیں ، نفس کے غلام ہیں، ہم کیسے ہمیشہ صحیح ہوسکتے ہیں اور ابلیس کے اس واقعہ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ کوئی کتنا بھی دیندار اور عبادت گذار کیوں نہ ہو، کبھی فرشتہ نہیں بن سکتا، کیونکہ غلطیاں تو انسان سے ہی ہوتی ہیں ، لیکن جو اپنی غلطی کو مان کر خود کی اصلاح کرلے وہ انسان ہے اور جو اپنی غلطی پہ ڈٹا رہے وہ اس صدی کا ابلیس ہے۔ ابھی دیکھنا یہ ہے کہ یم ای پی کی جئے جئے کار کرتے ہوئے ایک نامحرم عورت کے غلط فیصلے پہ لبیک کہنے والے، ان کے پیچھے ہاتھ باندھ کر چلنے والے، اپنی چکنی چپڑی باتوں سے صحیح کو غلط اور غلط کو صحیح کا جامہ پہنانے والے ، آج قوم و ملت کی فلاح و کامرانی کی خاطر صحیح غلط کو سمجھ کر انسان بنے رہنا پسند کریں گے یا غلط کی پیروی کرتے ہوئے ابلیس کے چیلے بن کر اپنے ذاتی مفادات کے لئے کرناٹک میں ہیرے کا زہر پھیلا کر قوم کو نقصان پہنچائیں گے اور عورت کی حمایت میں فرمان الٰہی اور ارشاد نبوی کو بالائے طاق رکھ کر اسلامی احکامات کی دھجیاں اڑائی جائیں گی؟؟؟
( یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں، جس سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں)





