خودکش حملے اور پرتشدد انتہاءپسندی اسلامی اصولوں کے منافی۔طالبان کے خلاف تین اہم ملکوں کے 70 علماءکرام کا فتوی

فغان طالبان نے مذہبی رہنماوں سے انڈونیشیا میں ہونے والی بوگور کانفرنس کا بائیکاٹ کرنے کی اپیل کی تھی۔ افغان علماءکو خبردار کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ”افغانستان میں حملہ آور کفار کو اپنا نام استعمال نہ کرنے دیں۔ اور اس کانفرنس میں شرکت کا مطلب ان کے عناد پرستانہ مقاصد کے حصول میں مدد فراہم کرنا ہے۔“
جکارتہ(ایجنسیاںملت ٹائمز)
پاکستان، افغانستان اور دنیا کے سب سے بڑے مسلم ملک انڈونیشیا کے ستر معتبر علماءنے خودک±ش حملوں سمیت پرتشدد انتہاپسندی اور دہشت گردی کو اسلامی اصولوں کے منافی قرار دے دیا ہے۔
افغانستان میں امن اور استحکام کے لیے انڈونیشیا میں ہونے والی مذہبی کانفرنس کے دوران افغان طالبان کو جنگ کے خاتمے کے لیے واضح پیغام دیا گیا ہے۔ پاکستان، افغانستان اور انڈونیشیا کے ستر علماءنے خودکش حملوں کو ناجائز قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف فتویٰ جاری کیا ہے۔ دوسری جانب افغان طالبان نے مذہبی رہنماوں سے انڈونیشیا میں ہونے والی بوگور کانفرنس کا بائیکاٹ کرنے کی اپیل کی تھی۔ افغان علماءکو خبردار کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ”افغانستان میں حملہ آور کفار کو اپنا نام استعمال نہ کرنے دیں۔ اور اس کانفرنس میں شرکت کا مطلب ان کے عناد پرستانہ مقاصد کے حصول میں مدد فراہم کرنا ہے۔“
اس ایک روزہ کانفرنس کا افتتاح کرتے ہوئے انڈونیشیا کے صدر جوکو ویدو دو کا کہنا تھا کہ ان کا ملک افغانستان میں امن کے قیام کے لیے پرعزم ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اس کانفرنس کا مقصد افغانستان میں امن کے قیام کے لیے علماءاور مذہبی شخصیات کے کردار میں اضافہ کرنا ہے۔ ان کا کہنا تھا، ” خاص طور پر انڈونیشیا، پاکستان اور افغانستان کے علماءکی آواز کے ذریعے بھائی چارے کی فضا کو بہتر بنایا جانا چاہیے تاکہ افغانستان میں امن قائم ہو۔“
انڈونیشیا کے صدر کا کہنا تھا کہ ”علماء امن کے نمائندے ہیں۔ یہ پرامن معاشرے تشکیل دینے کی طاقت رکھتے ہیں۔“ جاری ہونے والے اعلامیے میں علماء کا کہنا تھا کہ اسلام امن کا مذہب ہے اور دہشت گردی سمیت پرتشدد انتہاپسندی کو مسترد کرتا ہے۔ اس حوالے سے مزید کہا گیا ہے، ”ہم توثیق کرتے ہیں کہ تشدد اور دہشت گردی کو کسی مذہب، قوم، تہذیب یا نسلی گروپ سے نتھی نہ کیا جائے۔پرتشدد انتہاپسندی اور خودکش حملوں سمیت دہشت گردی کی تمام اقسام اسلام کے مقدس اصولوں کے خلاف ہیں۔“بوگور کے صدارتی محل میں اس کانفرنس کا انعقاد انڈونیشیا علماءکونسل کی طرف سے کیا گیا تھا۔

SHARE