کرناٹک اسمبلی انتخابات :آخری امید بھی دم توڑ گئی!

کرناٹک انتخاب سے ایک سبق کانگریس کو یہ ضررو لینا چاہیے کہ علاقائی پارٹیوں کو نظر انداز کرنے کی سیاست اب وہ بند کردے کیوں کہ انہیں نظر انداز کرکے کامیابی نہیں مل سکتی ہے ۔آسام ،یوپی اور اب کرناٹک سمیت کئی ریاستوں میں کانگریس کی شکست کی وجہ علاقائی پارٹیوں کو نظر انداز کرناہے
خبر درخبر(564)
شمس تبریز قاسمی
کرناٹک آخری امید تھی کانگریس کی ۔سیکولر عوام کی ۔ہندتوا مخالف گروپ کی اور ان لوگوں کی جو ملک سے نفرت ،تشدد ،دجل وفریب کی سیاست کا خاتمہ چاہتے ہیں لیکن سوئے اتفاق ایسا نہیں ہوسکا ۔یہاں بھی بی جے پی جیتنے میں کامیاب ہوگئی ۔تمام تجزیہ ،سروے اور ایگزٹ پول کے خلاف بی جے پی کی تمام پارٹیوں پر برتر ی ہوگئی ہے اور اس طرح کانگریس کی حکومت اب صرف چندریاستوں تک محدود ہو گئی ہے ۔
کرناٹک اسمبلی انتخابات کے ووٹوں کی گنتی ابھی جاری ہے ،شام پانچ بجے تک حتمی نتیجہ آجائے گا، حکومت سازی کیلئے 112 سیٹیں چاہیئے ،اس وقت 110 سیٹوں پر پارٹی سبقت بنائے ہوئی ہے جبکہ کانگریس 72 پر محدود ہے۔ لیکن تصویر صاف ہوچکی ہے کہ کانگریس اب واپسی نہیں کرپائے گی اور بی جے پی نے یہاں بھی بازی مارلی ہے ۔رجحانات نے علاقائی پارٹی جے ڈی ایس کے کنگ میر بننے کے خواب کو بھی شرمند ہ تعبیر نہیں ہونے دیاہے اور ایسا لگ رہاہے کہ بی جے پی یہاں تنہا سرکار بنائے گی ۔الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ کے مطابق کانگریس کو38 فیصد ووٹ ملا ہے جبکہ بی جے پی کو 36 فیصد ووٹ ملاہے وہیں جے ڈی ایس کا ووٹ فیصد 18 ہے ۔
بی جے پی کی یہ جیت 2019 کے تناظر میں بہت اہم ہے ،کانگریس اور دیگر اپوزیشن پارٹیوں کیلئے اگلی منزل اب اور مشکل ہوگئی ہے ۔2014 کے بعد ملک میں ہونے والے ریاستی انتخابات میں 90 فیصد سے زائد بی جے پی کو جیت ملی ہے ۔ایک سال بعد اب عام انتخابات ہونے ہیں ایسے میں کرناٹک پر سب کی نظر تھی کہ اگر بی جے پی کی شکست ہوتی ہے تو سمجھاجائے گا مودی لہر میں کمی آئی ہے ۔بھاجپا کی الٹی گنتی شروع ہوگئی ہے ورنہ 2019 کو بھو ل جانا چاہیے جس میں بہت آسانی سے بی جے پی دوبارہ مرکز میں برسر اقتدار ہوجائے گی ۔
کرناٹک میں کانگریس کو مکمل امید تھی ۔حقیقت بھی یہی ہے کہ پارٹی نے بہت محنت کی تھی ۔وہاں کے وزیر اعلی سد ار میاخود ایک ماہر ،تجربہ کار اور مضبوط سیاسی لیڈر مانے جاتے ہیں ۔ راہل گاندھی نے بھی بہت جدوجہد کی ، حکمت عملی سے انتخابی مہم کو انجام دیا ،کسی طرح کی ناشائستہ اور غیر مہذب زبان انہوں نے استعمال نہیں کی ۔تمام سرو ے اور ایگزٹ پول میں بھی یہی دیکھاجارہاتھاکہ کانگریس دوبارہ اقتدار میں واپسی کرے گی۔ لیکن ان تمام کوششوں کے باوجود بی جے پی جیت رہی ہے آخر کیوں ؟ اسباب ووجوہات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے ۔
کانگریس کی حیثیت اب کسی علاقائی پارٹی سے بھی کمتر ہوگئی ہے ،پنجاب ،پانڈوچیری اور میزروم میں حکومت بچ گئی ہے یعنی ہندوستان کے صرف 2فیصد رقبے پر کانگریس کا اقتدار باقی رہ گیاہے،پنجاب کے علاوہ کسی بھی قابل قدر ریاست میں حکومت نہیں رہ گئی ہے ۔دوسری طرف ملک کی 21 ریاستوں میں اب بی جے پی کی حکومت ہوگی ۔ملک کے 70 فیصد سے زائد رقبہ پر بی جے پی کی سرکار ہے لیکن ان تمام حقائق کے باوجود آج بھی کانگریس تنہا خود کو سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی سمجھتی ہے اور اسے اب بھی دعوی ہے کہ علاقائی پارٹیوں کی کوئی حیثیت نہیں ہے اور نہ ہی وہ کسی کو ساتھ لینا چاہتی ہے ۔ کرناٹک انتخاب سے ایک سبق کانگریس کو یہ ضررو لینا چاہیے کہ علاقائی پارٹیوں کو نظر انداز کرنے کی سیاست اب وہ بند کردے کیوں کہ انہیں نظر انداز کرکے کامیابی نہیں مل سکتی ہے ۔آسام ،یوپی اور اب کرناٹک سمیت کئی ریاستوں میں کانگریس کی شکست کی وجہ علاقائی پارٹیوں کو نظر انداز کرناہے ۔
کرناٹک کے نتیجے بتارہے ہیں کہ یہاں ووٹوں کی تقسیم ہوئی ہے ۔اگر کانگریس اور جے ڈی ایس ساتھ لڑتی تو تصویر کچھ اور ہوتی دوسری طرف کچھ نئی پارٹیوں نے بی جے پی کو فائدہ پہونچانے کا کام کیاہے جس میں کچھ مسلم چہرے سر فہرست ہیں۔
بہر حال یہ وقت کانگریس کیلئے سخت آزمائش کا ہے ۔ گذشتہ کل ایک کانگریسی لیڈر سے میری ملاقات ہوئی تو انہوں نے کہاتھاکہ کرناٹک کی جیت کانگریس کیلئے بہت اہم ہے اگر پارٹی نہیں جیتی ہے تو ٹوٹ پھوٹ کا معاملہ شروع ہوجائے گا ۔بہت سے کارکنان اور لیڈر پارٹی چھوڑ دیں گے۔ راہل گاندھی کی قیادت اور صدارت پر سوال اٹھنے شروع ہوجائیں گے ۔کانگریس کواس وقت حوصلہ،ہمت اور صبر سے کام لینے کی ضرورت ہے ۔
جس وقت یہ تحریر لکھی جارہی ہے کہ اس وقت اعداد وشمار میں کچھ کمی بیشی بھی ہورہی ہے ،ایک فیصد یہ بھی امید ہے کہ بی جے پی 112 کی تعداد تک نہ پہونچ پائے اور کانگریس ۔جے ڈی ایس کے ساتھ مل کر حکومت بنانے کی پہل کرے تاہم یہ بات یقینی ہے کہ کانگریس کو وہ جیت نہیں مل پائی جس کی توقع تھی اور اس کی وجہ علاقائی پارٹیوں کو نظر انداز کرناہے ۔ اگلے انتخابات میں کانگریس کو علاقائی پارٹیوں کو نظر انداز کرنے والی پالیسی کا جائزہ لینا چاہیئے ۔
stqasmi@gmail.com
(کالم نگار ملت ٹائمز کے ایڈیٹر ہیں )

SHARE