قسمت کے دھنی کمار سوامی !

اس تقریب میں 22 پارٹیوں کے سربراہان کو شرکت کی دعوت دی گئی تھی ۔پانچ ریاستوں کے وزرائے اعلی کو مدعو کیا گیاتھا ۔سونیا گاندھی اور راہل گاندھی نے بھی شرکت کی تھی ۔مسلم لیگ۔ آل انڈیا یونائیٹڈ ڈیموکرییٹک فرنٹ اور آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے ذمہ داروں کو بھی بلایاگیاتھا ۔جس میں سے بیشتر نے شرکت کی
خبر درخبر(565)
شمس تبریز قاسمی
آج سے 22 سال قبل ملک کی تصویر کچھ اسی طرح تھی جس طرح آج ریاست کرناٹک کی تصویر ہے ۔1996 کے عام انتخابات میں کسی بھی پارٹی کو واضح اکثریت نہیں ملی تھی ،161 سیٹوں کے ساتھ بی جے پی سب سے بڑی پارٹی تھی لیکن وہ اکثریت سے بہت دور تھی ،کانگریس141 سیٹوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر تھی ۔جنتال د ل سیکولر کے پاس 46 سیٹیں تھی ،سی پی ایم کے پاس 32 سیٹیں تھیں،سی پی آئی کے پاس 12 سیٹیں تھیں،سماجوادی پارٹی کے پاس 17 سیٹیں تھیںاور ڈی ایم کے کو 16 سیٹیں ملی تھیں ۔سب سے بڑی پارٹی ہونے کی حیثیت سے بی جے پی نے اس وقت کے صدر جمہوریہ کی خدمت میں حکومت بنانے کا دعوی پیش کیا جسے قبول کرلیاگیا ۔اٹل بہاری واجپئی وزیر اعظم بنائے گئے لیکن وہ اکثریت ثابت کرنے میں ناکام رہے ۔272 ایم پی کی تعداد پوری نہیں کرسکے ۔12 دنوں بعد انہیں استعفی دینا پڑا ۔
واجپئی کی سرکار تحلیل ہوجانے کے بعد ملک میں ایک اتحادی سرکار بنانے کی کانگریس نے منصوبہ بندی شرو کی ۔خود سب سے بڑی پارٹی ہونے کے باوجود جنتادل سیکولر کو وزیر اعظم کا عہدہ سونپا ۔یوں محض 46 سیٹیں حاصل کرنے والے ایچ ڈی گورا ہندوستان کے وزیر اعظم بن گئے ۔22 سالوں بعد تاریخ نے پھر دستک دی ہے ۔کہانی بالکل وہی ہے ،فرق صرف اتناہے کہ وہ مرکز کا معاملہ تھا اور یہاں ریاست کا معاملہ ہے ۔15 مئی کو آئے نتیجہ میں کسی بھی پارٹی کو واضح اکثریت نہیں ملتی ہے ۔بی جے پی سب سے بڑی پارٹی ہونے کی بنیاد پر حکومت بناتی ہے لیکن55 گھنٹے سے زیادہ یہ حکومت نہیں چل پاتی ہے ۔جس گورنر نے یدی یورپا کو آئین کی روح پامال کرتے ہوئے وزیر اعلی کا حلف دلایاتھا ڈھائی دن کے بعد اسی کی خدمت میں وہ اپنا استعفی نامہ پیش کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں ۔سپریم کورٹ کی بروقت مداخلت اور کانگریس کی مضبوط سیاست حکمت عملی کے سامنے بی جے پی چاروں خانے چت ہوئی ۔ یوں جے ڈی ایس ۔کانگریس اتحاد کی حکومت بننے کا راستہ صاف ہوا۔باپ کی طرح بیٹے کی قسمت بھی چمکی اور محض 38 سیٹیں حاصل کرنے والے جنتال د ل سیکولر کے لیڈر کمار سوامی آج کرناٹک کے وزیر اعلی بن گئے ہیں ۔
15 مئی 2018 کی تاریخ نہ تو بی جے پی بھول پائے گی اور نہ کانگریس اسے فراموش کرسکے گی ۔یہ تاریخ سب سے زیادہ یادگار جے ڈی ایس کیلئے رہے گی ۔صبح آٹھ بجے سے دس بجے تک کانگریس کے خیمے میں خوشی کا جشن تھا ۔ساڑھے دس بجے کے بعد بی جے پی جشن منانے لگی ۔تقریبا دو بجے تک یہ طے مانا جارہاتھاکہ کانگریس کی واپسی کرناٹک میں معدوم ہوچکی ہے ۔یہاں بھی اب بی جے پی ہی سرکار بنائے گی،جے ڈی ایس بحث سے خارج ہوچکی تھی ،کچھ تجزیہ نگار یہ کہتے ہوئے مذاق بھی اڑانے لگے تھے کہ جے ڈی ایس نے کنگ میکر بننے کا خواب دیکھاتھالیکن اب اسے کوئی پوچھنے والا بھی نہیں ہوگا یعنی اس کی حیثیت ایک غیر موثر پارٹی کے طور پر بن گئی تھی لیکن نتائج نے پھر کروٹ لی ،بی جے پی کی سبقت 104 پر محدود ہوگئی ۔حکومت سازی کیلئے مطلوب 112 سیٹوں سے بی جے پی کو پیچھے دیکھتے ہوئے کانگریس نے فوری نئی سیاسی پالیسی تیار کی ۔بروقت جے ڈی ایس لیڈر کمار سوامی کو غیر مشروط حمایت کردی ۔کمار سوامی نے بلاکسی تاخیر کے یہ پیشکش قبول کرلی ۔117 ایم ایل اے کی لسٹ جاری کرکے گورنر کی خدمت میں حکومت سازی کا بھی دعوی پیش کردیا لیکن گورنر موصوف نے آئین کی دھجیاں اڑاتے ہوئے یدیو رپا کو حکومت بنانے کی دعوت ۔کانگریس نے ہمت نہیں ہاری ،رات کی تاریکی میں سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹیا ۔ججز نے اسی وقت سنوائی کی ۔کل ہوکر گورنر کے فیصلے کو تبدیل کرتے ہوئے یدیورپا پر کئی طرح کی پابندیاں عائد کردی ،19 مئی کی شام چار بجے فلورٹیسٹ کرانے کا حکم دیاگیا ۔بی جے پی نے کانگریس اور جے ڈی ایس کے ایم ایل اے کو خریدنے اور توڑنے کی بھر پور کوشش کی لیکن کامیابی نہیں ملی ،یدیورپا نے فلور ٹیسٹ کرانے پہلے استعفی دیا ۔اس سے قبل بھی وہ سات دنوں تک وزیر اعلی رہنے کے بعد استعفی دے چکے ہیں ۔
اب کرناٹک کی کمان جے ڈی ایس کے ہاتھ میں ہے ۔کانگریس اقتدار میں شریک ہے ۔دونوں نے بی جے پی کو سب سے بڑی پارٹی ہونے کے باوجود اقتدار سے بے دخل کرنے میں کامیابی حاصل کرلی ہے ۔اس انتخاب کے بعد جنوبی ہند میں بی جے پی کیلئے دروازے بھی بند ہوگئے ہیں ۔کانگریس ہارنے کے باوجود اپنی حکومت برقرار رکھنے میں کامیا ب ہوگئی ہے ۔راہل گاندھی رسوائی کا سامنا کرنے سے بچ گئے ہیں ۔ان کی اہلیت اور صدارت پر اعتراض کرنے کے دروازے تقریبا بند ہوگئے ہیں ۔
کرناٹک کا سب سے بڑا کردار یہ ہے کہ یہاں سے اپوزیشن پارٹیوں میں ایک نئی جان پیدا ہوگئی ہے ۔ملک کی سیکولر پارٹیوں کو یہ اندازہ ہوگیا ہے کہ اگر سب اکٹھے ہوجاتے ہیں تو 2019 میں بی جے پی کی واپسی ناممکن ہوجائے گی ۔زمینی حقائق بھی یہی ہے کہ آج جن پارٹیوں کے سربراہان نے کمار سوامی کی حلف برداری تقریب میں شرکت کی ہے وہ سب اگر اکٹھے ہوجاتے ہیں تو 2019 کے لوک سبھا انتخاب میں 449 سیٹوں پر باآسانی کامیابی مل سکتی ہے ۔
جے ڈی ایس نے صرف کرناٹک میں حکومت نہیں بنائی ہے بلکہ تمام اپوزیشن پارٹیوں کو ایک اسٹیج پر اکٹھاکرکے اس نے ہندوستان میں ایک نئے اتحاد کی تاریخ رقم کی ہے جس میں اکھلیش یادو اور مایاوتی بھی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک ساتھ اسٹیج شیئر کرتے نظر آئے ۔ٹی ایم سی اور سی پی ایم کے لیڈران بھی ایک ساتھ جمع ہوئے ۔مایاوتی اور ممتا بنرجی کی سونیا گاندھی سے ہاتھوں میں ہاتھیں ڈال کر باتیں کرنے کی تصویر بی جے پی کو برداشت نہیں ہورہی ہے ۔ اس تقریب میں 22 پارٹیوں کے سربراہان کو شرکت کی دعوت دی گئی تھی ۔پانچ ریاستوں کے وزرائے اعلی کو مدعو کیا گیاتھا ۔سونیا گاندھی اور راہل گاندھی نے بھی شرکت کی تھی ۔مسلم لیگ۔ آل انڈیا یونائیٹڈ ڈیموکرییٹک فرنٹ اور آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے ذمہ داروں کو بھی بلایاگیاتھا ۔جس میں سے بیشتر نے شرکت کی تاہم مولانا بدرالدین اجمل اور بیر سٹر اسد الدین اویسی عمر ہ کے سفر پر ہونے کی وجہ سے حلف برداری تقریب کا حصہ نہیں بن سکے ۔
کمار سوامی دوسری مرتبہ کرناٹک کے وزیر اعلی بنے ہیں ۔پہلی مرتبہ 2006 میں 58 سیٹیں حاصل کرنے کے بعد بی جے پی کے تعاون سے سی ایم بننے کا خواب شرمند ہ تعبیر ہواتھا ۔اب 2018 میں محض 38 سیٹیں حاصل کرنے کے باوجود وہ وزیر اعلی بن گئے ہیں ۔امید یہی ہے کہ وہ کرناٹک میں بھید بھاﺅ کی سیاست نہیں کریں گے ۔تمام اقلیتوں کے ساتھ انصاف سے کام لیں گے ۔کسی بھی کمیونٹی کو نظر انداز نہیں کریں گے ۔یہ بھی توقع وابستہ ہے کہ وہ وزیر اعلی کی مدت پوری کریں گے ۔ان کے راہ میں کسی طرح کی کوئی رکاوٹ نہیں آئے گی ۔اپوزیشن کے اتحاد کی یہ روایت برقرار رہے گی ۔
stqasmi@gmail.com

SHARE