استنبول میں اسلامی تعاون تنظیم کا ہنگامی سربراہی اجلاس

ڈاکٹر فرقان حمید 

ترکی جو اسلامی تعاون تنظیم کا موجودہ چئیر مین ہے کی میزبانی میں ماہ رمضان کے پہلے جمعے کے روز غیر معمولی سربراہی اجلاس منعقد ہوا۔ اسی نوعیت کا ایک غیر معمولی اجلاس اُس وقت بھی استنبول میں منعقد کیا گیا تھا جب گزشتہ سال کے آخر میں امریکی صدر نے اپنے ملک کا سفارت خانہ القدس منتقل کرنے کا باضابطہ اعلان کیا تھا ۔ استنبول میں اٹھارہ مئی 2018ء بروز جمعہ اس سربراہی اجلاس جس میں ستاون اسلامی ممالک کے تمام ہی نمائندہ ممالک کو شرکت کرنے کی ضرورت تھی صرف چالیس اسلامی ممالک کے نمائندوں نے اس غیر معمولی اجلاس میں شرکت کی۔ اس سربراہی اجلاس میں اسلامی ممالک کے حکومتی اور مملکتی سربراہان کی بڑے پیمانے پر شرکت کی توقع کی جا رہی تھی اور اس سلسلے میں ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان نے اسلامی ممالک کے ہم منصبوں اور ترکی کے وزیراعظم بن علی یلدرم نے اپنے ہم منصبوں کو اس غیر معمولی سربراہی اجلاس میں شرکت کی دعوت دی تھی لیکن ایسا ہرگز نہ ہوسکا حالانکہ اسلامی تعاون تنظیم کا قیام ہی القدس کے سانحے کی وجہ سے عمل میں آیا تھا۔ صہیونیوں کی جانب سے مسجد اقصیٰ کو نذر ِ آتش کیے جانے پر اسلامی ممالک نے 1969ء میں مراکش کے شہر رباط میں القدس کے بارے میں اپنے جذبات کا اظہار کرنے کی غرض سے یکجا ہوتے ہوئے اس تنظیم کی بنیاد رکھی۔ اس لحاظ سے یہ مسلمان ممالک کی پہلی تنظیم تھی جو مسلمانوں کے پہلے قبلے کی بے حرمتی پر ان کے شدید ردعمل کے طور پر قائم ہوئی تھی۔ اس وقت تمام ہی اسلامی ممالک نے اپنے شدید ردِ عمل کا اظہار کیا تھا اور یوں ان کو اس تنظیم کے ذریعے پہلی بار یکجا ہونے کا موقع ملا۔اس دوران تمام ہی اسلامی ممالک میں کئی دنوں تک بڑے پیمانے پر عوام کی جانب سے کئی روز تک مظاہروں کا سلسلہ جاری رکھا گیا تھا۔ اس لیے امید تھی کہ اس بار بھی القدس جہاں امریکہ نے اپنا سفارت خانہ کھولتے ہوئے فلسطین کے اس دارالحکومت کی حیثیت کو تبدیل کرنے کی کوشش کی ہے اور مذہب اسلام کے پہلے قبلے کو صہیونی مملکت کے دارالحکومت کے طور پر تسلیم کرتے ہوئے مذہبِ اسلام کے ماننے والوں کو شدید دکھ پہنچایا ہے پر تمام ہی اسلامی ممالک کی جانب سے مشترکہ طور پر شدید ردِ عمل کے اظہار کے لیے تمام ہی اسلامی ممالک یکجا ہو کر اپنی بھر پور قوت کا مظاہرہ کرسکیں گے۔ اس غیر معمولی سربراہی اجلاس سے قبل ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان کئی بار برملا طور پر کہہ چکے ہیں ” اگر القدس ہمارے ہاتھ سے نکل گیا تو پھر مدینہ منورہ کا تحفظ بھی خطرے میں پڑ جائیگا۔ مکہ منورہ اور خانہ کعبہ بھی محفوظ نہیں رہیں گے۔ یہ فراموش مت کریں القدس کا مطلب استنبول ، اسلام آباد ، جکارتہ ، مدینہ ، قاہرہ ، دمشق، بغداد ہے۔ خانہ کعبہ تمام تر مسلم اُمہ کی عزت و ناموس، وقار و وجود کا مفہوم رکھتا ہے۔ ہم ان میں سے کسی سے بھی کنارہ کشی اختیار نہیں کر سکتے، اللہ تعالی کے احکامات اور ہمارے آباؤ اجداد کی امانت کا تحفظ کرنے کے لیے جو کچھ بھی لازم ہوا ہم اسے ضرور کریں گے۔”
اسلامی ممالک کی تنظیم کا یہ غیر معمولی اجلاس ایک ایسے وقت میں منعقد کی گیا ہے جب گزشتہ سوموار کو امریکہ نے اپنے سفارت خانے کو القدس منتقل کردیا۔ امریکہ کے اس متنازعہ فیصلے پر عمل درآمد کے بعد سے شروع ہونے والے مظاہروں میں اب تک پانچ بچوں سمیت باسٹھ فلسطینی ہلاک اور دو ہزار سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔ اس سربراہی اجلاس میں ایر ان کے صدر حسن روحانی ، افغانستان کے صدر اشرف غنی ، گنی بساو کے صدر ہوزے ماریو واز، اور گنی کے صدر آلفا گوندے ، قطر کے امیر شیخ تمیم بن حماد الثانی ، کویت کے امیر شیخ صباح ال احمد الجابرالصباح، موریطانیہ کے صدر محمد ولید عبدالعزیز ، شملای قبرصی ترک جمہوریہ کے صدر مصطفےٰ آقن جی کے علاوہ وزیراعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی، کرغزستان کے وزیراعظم محمد کلی عبدالعزیز یف اور فلسطین کے وزیراعظم رامی حمد اللہ اس سربراہی اجلاس میں شرکت کرنے والی نمایا ں شخصیات تھیں۔ استنبول کے حالیہ اجلاس نے اس تنظیم میں ایک نئی جان ڈالی ہے۔ اب دیکھنا ہو گا کہ اجلاس میں شریک اسلامی ملک اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے مشترکہ طور پر کیا عملی اقدامات اٹھاتے ہیں۔اس اجلاس کے میزبان ترک صدر رجب طیب ایردوان نے اپنے خطاب کے دوران اسلامی ممالک پر زور دیا کہ وہ متحد ہو کر فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی جارحیت کا مقابلہ کریں۔ انہوں نے کہا کہ غزہ پٹی میں نہتے فلسطینیوں کے قتل عام پر اسرائیل کا محاسبہ کیا جانا چاہیے۔ انہوں نے امریکہ کی جانب سے القدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے اور اپنا سفارت خانہ وہاں منتقل کرنے کے اقدامات کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ بات واضح ہے کہ اسرائیل کے ان جرائم کو امریکی حمایت حاصل ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور بین الاقوامی برداری فلسطینیوں کا قتل عام روکنے کے لیے ضروری اقدامات اٹھائیں۔ اسرائیلی فوج کے ہاتھوں آئے دن نہتے فلسطینیوں کا قتل عام روکنے کے لئے اقوام متحدہ کو بین الاقوامی فوج تعینات کرنی چاہیے۔اس غیر معمولی سربراہی اجلاس میں اقوام متحدہ سے اسرائیلی فوج کے ہاتھوں غزہ میں فلسطینی مظاہرین کی ہلاکتوں کی بین الاقوامی سطح کی تحقیقات کرانے کا مطالبہ بھی کیا گیا۔ یہ مطالبہ دراصل تنظیم کے غیرمعمولی اجلاس کےبعد جاری کیے گئے مشترکہ اعلامیہ میں کیا گیا ۔ اس اعلامیے میں فلسطینیوں کے تحفظ کے لیے ایک بین الاقوامی فورس تشکیل دینے کا مطالبہ کرنے کے ساتھ ساتھ تنطیم کے رکن ممالک سے کہا گیا ہے کہ وہ ایسے کسی بھی ملک، کمپنی یا فرد پر اقتصادی پابندیاں عائد کر دیں جو القدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرتا ہو۔سربراہی اجلاس کے اختتامی اعلامیے میں مشرقی القدس کو فلسطین کا دارالحکومت اعلان کر دیا گیا ہے۔ اسلامی تعاون تنظیم او آئی سی کا ہنگامی سربراہی اجلاس تیس نکاتی بیان جاری کرکے ختم ہوگیا ہے- اسلامی ملکوں کے سربراہوں نے استنبول اجلاس کے اختتامی بیان میں فلسطینیوں کے خلاف صیہونیوں کے مظالم کی تحقیقات کے لئے کمیٹی تشکیل دئے جانے کا مطالبہ کیا۔ اسلامی ملکوں کے سربراہوں نے جمعہ اور ہفتے کی درمیانی رات استنبول میں او آئی سی غیر معمولی سربراہی اجلاس کے اختتامی اعلامیے میں اقوام متحدہ کے اصل اداروں، سلامتی کونسل، جنرل اسمبلی ، انسانی حقوق کونسل، انسانی حقوق کے اعلی کمیشن اور ہیومن رائٹس واچ سے کہا ہے کہ وہ فلسطینیوں کے خلاف صیہونیوں کے مظالم کی تحقیقات کے لئے فوری طور پر ایک کمیٹی تشکیل دیں ۔استنبول اجلاس کے شرکا نے فلسطینی عوام پر صیہونی حکومت کے وحشیانہ، انسانیت سوز اور مجرمانہ حملوں کی مذمت کی – او آئی سی کے سربراہی اجلاس کے شرکا نے اپنے بیان میں صیہونی حکومت کو غاصب اور جرائم پیشہ حکومت قراردیا اور کہا کہ صیہونی حکومت کے وحشیانہ اقدامات امریکہ کی حمایت سے انجام پارہے ہیں۔امریکی صدر نے گذشتہ چھے دسمبر کو امریکی سفارتخانہ تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کرنے کا فیصلہ کیا تھا اور پھر چودہ مئی دوہزار اٹھارہ کو عالمی اور علاقائی مخالفتوں کے باوجود امریکا نے اپنا سفارت خانہ تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کردیا۔ امریکا کے اس فیصلے پر جہاں پوری فلسطینی قوم سراپا احتجاج ہے وہیں پوری دنیا میں امریکا اور اسرائیل کی مذمت میں احتجاجی مظاہرے کئے جارہے ہیں۔
اسلامی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس سے قبل جمعے ہی کے روز استنبول کے علاقے ینی کاپی میں فلسطین کے ساتھ یک جہتی کے اظہار اور اسرائیل اور امریکہ کے خلاف غم و غصے کے اظہار کے لیے ایک بہت بڑی ریلی نکالی گئی جس میں پانچ لاکھ سے زاہد افراد نے شرکت کی۔ یہ کسی بھی ملک میں فلسطین کے حق میں ہونے والا سب سے بڑا اجتماع تھا۔ اس ریلی میں مظاہرین نے اپنے ہاتھوں میں ترکی اور فلسطین کے پرچم اٹھا رکھے تھے۔اس ریلی میں اسلامی تعاون تنظیم کے غیر معمولی سربراہی اجلاس سے میں شرکت کرنے والے اسلامی ممالک کی نمائندوں نے بھی شرک کی اور ترکی کے اسرائیل اور امریکہ کے خلاف ردِ عمل کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ۔
furqan61hameed@hotmail.com