اربابِ مدارس اور خود احتسابی کی ضرورت

شمع فروزاں: مولانا خالد سیف اللہ رحمانی

یہ ایک حقیقت ہے کہ گزشتہ ڈیڑھ تا دو سال کے عرصہ میں پورے برصغیر میں ناموافق حالات کے باوجود اسلامی افکار و اقدار کی حفاظت جس ذریعہ سے انجام پائی ہے، وہ مدارس اسلامیہ ہے، ۱۸۵۷ء سے پہلے ہمارے ملک میں دینی تعلیم کے ادارے موجود تھے؛ لیکن یا تو وہ حکومتوں کے تحت چلتے تھے، یا بڑے نوابوں اور رؤساء اپنی ڈیوڑھیوں میں مدارس قائم کیا کرتے تھے، قوم و ملت کا براہ راست اتنے اداروں سے تعلق نہیں تھا؛ اس لئے یہاں طلبہ محدود بھی ہوتے تھے، اور پڑھنے پڑھانے والے دوسری طرح کے تعلیمی اداروں کی طرح ایک پیشے کی طور پر کیا کرتے تھے، حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ نے صرف ایک مدرسہ قائم نہیں کیا؛ بلکہ قیام مدارس کو ایک تحریک کی شکل دی اور اس کے لئے یہ نظام قائم فرمایا کہ ان اداروں کو عوامی تعاون کے ذریعہ چلایا جائے، حکومت اور اصحاب ثروت کا محتاج نہ رکھا جائے، اس کے متعدد فائدے ہوئے، اول یہ کہ یہ ادارے حکومتوں اور سرمایہ داروں کی بے جا مداخلت سے محفوظ ہوگئے، دوسرے: یہاں طلبہ صرف تعلیم ہی حاصل نہیں کرتے؛ بلکہ ان میں دینی غیرت و حمیت بھی پیدا کی جاتی ہے؛ تاکہ وہ اپنے آپ کو اسلام کا ایک ہمہ وقتی سپاہی تصور کرے، تیسرے: چوں کہ یہ ادارے عوامی مدد سے چلتے ہیں؛ اس لئے عوامی جواب دہی کا احساس بھی ان کے اندر رہتا ہے، اور یہ چیز بہت سے مواقع پر ان کو انحراف اور غلط روش سے محفوظ رکھتی ہے، چوتھے: عوام کا ان اداروں سے تعلق قائم رہتا ہے، اور اس کی وجہ سے عام مسلمان اپنے علماء سے مربوط رہتے ہیں، پانچویں: اس تعلق کے نتیجہ میں علماء کے اندر بھی عام مسلمانوں کی فکر باقی رہتی ہے، آج جو مدارس اور مکاتب کی فکر کررہے ہیں، اصلاح معاشرہ کی تحریک چلارہے ہیں، دارالقضاء کا نظام قائم کررہے ہیں، دیہاتوں میں مسجدیں تعمیر کرارہے ہیں، حسب موقع خدمت خلق کے کام بھی کرتے ہیں، یہ سب اسی فکر مندی کا نتیجہ ہے۔
ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ لوگ دینی مدارس کی عطیات کی رقم سے تعاون کرتے؛ لیکن ایسا بہت کم ہوتا ہے؛ بلکہ افسوس کی بات یہ ہے کہ بہت سے مسلمان تو زکوٰۃ کی رقم بھی ادانہیں کرتے ہیں، مسلمانوں کا عام معمول رمضان المبارک میں زکوٰۃ ادا کرنے کا ہے، شاید اس لئے کہ اس ماہ کی برکت سے ان کی عبادت قبول ہو جائے؛ حالاں کہ آئندہ دنوں کی زکوٰۃ ادا کرنے کے لئے اگر رمضان المبارک کو معمول بنایا جائے تو یہ بہتر بات ہے، اور زکوٰۃ ایسی عبادت ہے جو قبل از وقت ادا کی جاسکتی ہے؛ لیکن اگر زکوٰۃ واجب ہو چکی ہو تو اس کو روک کر رکھنا ؛ تاکہ رمضان میں ادا کریں درست عمل نہیں ہے، یہ تو ایک عبادت میں تاخیر ہے اور اگر خدانخواستہ ادا کرنے سے پہلے اس کی وفات ہو گئی تو زکوٰۃ ادا نہیں کرنے کا گناہ بھی ہوگا، بہر حال چوں کہ عام طور پر رمضان المبارک میں زکوٰۃ ادا کی جاتی ہے؛ اس لئے ماہ مبارک میں مدارس کے ذمہ داران، اساتذہ اور سفراء کی بڑی تعداد شہروں میں مدارس کے لئے فراہم مالیہ کا کام کرتی ہے، اس کام میں انسان نفس شکنی کے مرحلہ سے گزرتا ہے، معاونین کی طرف سے بعض دفعہ بہت ہی ناروا جملے کہے جاتے ہیں، عزت نفس پر چوٹ پڑتی ہے؛ اس لئے اگر کوئی آدمی اخلاص اور اللہ کی رضا کے جذبہ سے اس کام کو کرے، تو یقیناََ وہ بڑے اجر کا مستحق ہے؛ لیکن اگر ذاتی نفع کے جذبے سے کیا جائے تو یہ گھاٹے کا سودا ہے؛ کیوں کہ ایک حقیر سی اجرت ملتی ہے، عزت پامال ہوتی ہے، اور آخرت کی محرومی کا نقصان سب سے سوا ہے، عمل کتنا بھی اچھا ہو اور کتنی ہی مشقت کے ساتھ انجام دیا جائے، اگر اخلاص نیت اس عمل کا رفیق نہ ہو تو بے قیمت راکھ کا ڈھیر ہے۔
مدارس کے معاملے میں آج کل افراط و تفریط کا پہلو اختیار کیا جاتا ہے، ایک طرف وہ لوگ ہیں، جو مدارس کو نشانہ بناتے ہیں؛ بلکہ لوگوں کا ذہن بناتے ہیں کہ مدارس کو تعاون نہ دیا جائے، یہ دانستہ یا نادانستہ ایک اہم ترین اسلامی کاز کو نقصان پہنچا رہے ہیں، دوسری طرف وہ اہل مدارس ہیں جو اپنے سلف صالحین کے روش سے ہٹ چکے ہیں، اور انہوں نے مدارس کو بعض عوام کی زبان میں تجارت بنا لیا ہے، جہاں اصحاب خیر کو مدارس کی اہمیت اور افادیت کو سمجھنے کی ضرورت ہے ، وہیں مدارس کو بھی خود اپنا احتساب کرنے کی ضرورت ہے، اگر ارباب مدارس نے اس طرف توجہ نہیں دی تو جو حال وسط ایشیا کے ملکوں میں کمیونسٹ تحریک کے غلبہ سے پہلے علماء و مشائخ اور تعلیم گاہوں اور خانقاہوں کا ہوا یہاں تک کہ عام مسلمان اتنے بدگمان ہو گئے کہ انہوں نے اپنے ہاتھوں سے اپنے علماء و مشائخ کو تہہ تیغ کیا، ہزار بار خدانخواستہ کہیں ہمارے ملکوں میں بھی عوام کے اندر علماء سے اسی طرح کی نفرت پیدا نہ جائے۔
اس لئے اس سلسلے میں چند بنیادی باتیں عرض کی جاتی ہیں:
۱۔ اس وقت جو نئے مدارس قائم کئے جا رہے ہیں، شاید مبالغہ نہ ہو کہ ان میں ۷۵؍فیصد بلا ضرورت ہیں، اور کسی خاص مقصد کے تحت قائم نہیں کئے جارہے ہیں، شہر کے ایک ہی محلہ میں کئی کئی مدارس ، ایک ہی گلی میں کئی کئی ادارے؛ حالاں کہ صورت حال یہ ہے کہ محلہ کے ایک دوسرے میں اگر تمام مدارس کے طلبہ کو جمع کر دیا جائے، تب جا کر وہ ایک چھوٹا موٹا مدرسہ کہلانے کا مستحق ہوگا، مدارس کی یہ بے وجہ کثرت زیادہ سے زیادہ اساتذہ، منتظمین اور عملہ کی تنخواہوں کا بوجھ امت کے کاندھوں پر ڈالتا ہے، بعض جگہ تو جتنے بھائی ہیں، ہر بھائی کا الگ الگ مدرسہ ہے، اور اب لڑکیوں کی تعلیم گاہوں میں بھی یہی نوبت آرہی ہے کہ ہر بہن اور ہر بھاوج کے الگ الگ مدرسے ہیں۔
شہروں میں ہی نہیں قصبات میں بھی مدارس کا سیلاب اُمڈا آرہا ہے، دیہاتوں میں مکاتب کی ضرورت ہے؛ لیکن وہاں چونکہ معاشی وسائل کم ہیں، اور شہر کی رونقیں بھی نہیں ہیں؛ اس لئے اس طرف توجہ نہیں کی جاتی، اسی طرح اس وقت عصری اسکولوں کی ضرورت ہے؛ لیکن اس طرف توجہ نہیں ہے؛ کیوں کہ اس کے لئے جو علمی لیاقت مطلوب ہے ،وہ حاصل نہیں ہے، اور اسکول کے قیام کے لئے عام طور پر اہل خیر چندہ نہیں دیتے، اس طور پر بلا ضرورت اور بے مقصد مدارس کا قیام خدمت نہیں بد خدمتی ہے، اس کی وجہ سے دینی تعلیم پر، علماء پر اور مدارس پر لوگوں کا اعتماد ختم ہوتا جارہا ہے، اور بجا طور پر بہت سے لوگ اس کو مولویوں کا کاروبار سمجھنے لگے ہیں، ایسی مثالیں بھی مل جائیں گی کہ کوئی دکان لگائی، کاروبار شروع کیا؛ لیکن اس میں کامیابی نہیں ہوئی تو مدرسہ قائم کر لیا، غور کیجئے، مدرسہ تعلیم کے لئے ہے یا کسب معاش کے لئے؟
۲۔ یہ بات بھی دیکھی جاتی ہے کہ مدرسہ میں زکوٰۃ کا مصرف نہیں ہے، چند بچوں کی آمد و رفت ہے؛ لیکن زکوٰۃ کا جواز پیدا کرنے کے لئے کہیں دور دراز سے آٹھ دس بچے لے آئے، دارالاقامہ قائم کر لیا کہ اب کوئی اعتراض نہ ہو اور ان بچوں کا سہارا لے کر زکوٰۃ وصول کرنے کی کوشش جاری رکھی جائے؛ حالاں کہ جس مرحلے کی تعلیم کے لئے دور دراز کے بچوں کو لایا جا رہا ہے، وہاں اس مرحلے کی تعلیم کے بہت سارے ادارے موجود ہیں، داخلہ کی گنجائش بھی ہے اور مدرسہ کو طلبہ کی ضرورت بھی؛ لیکن سرپرستوں کو بہلا پھسلا کر بچے لائے جاتے ہیں، یہاں تک کہ معلوم ہوا کہ لانے والے حضرات ایک طرف مدرسہ کے مہتمم سے پیسے وصول کرتے ہیں، اور دوسری طرف بچوں کے غریب سرپرستوں سے، اب چائلڈ لیبر قانون اتنا سخت ہو گیا ہے کہ بعض دفعہ بچے پکڑے بھی جاتے ہیں، اور رشوت دے کر انہیں چھڑایا جاتا ہے، کیا اللہ تعالیٰ نے اس انداز پر مدارس قائم کرنے کا حکم دیا ہے، اور یہ ثواب کا عمل ہے یا عنداللہ جواب دہی میں اضافہ کا سبب؟
۳۔ خلاف واقعہ بات کہنے کو جھوٹ کہتے ہیں، اور دوسروں کو خلاف واقعہ باتوں کا یقین دلایا جائے، یہ دھوکہ ہے، جب غلط بیانی سے کام لیتے ہوئے دوسرے کو کوئی خاص بات باور کرائی جائے تو اس میں جھوٹ اور دھوکہ دونوں کی شمولیت ہو جاتی ہے، کس قدر افسوس کی بات ہے کہ مدارس کے تعارف میں شاید جھوٹ کو برا نہیں سمجھا جاتا ؛ اس لئے طلبہ اور فارغین کی تعداد میں بڑے ہی مبالغے سے کام لیا جاتا ہے، بعض حضرات نے مدرسوںں کا براہ راست جائزہ لیا تو ذمہ داروں نے قرب و جوار کے دوسرے مدارس کے طلبہ کو بھی اپنے یہاں جمع کر لیا؛ تاکہ زیادہ تعداد کا یقین دلایا جاسکے، اور اپنی غلط بیانی پر پردہ ڈالا جا سکے، اگر کسی شخص نے جھوٹ پر مبنی تعارف ایک ہزار کی تعداد میں شائع کیا اور اسے ایک ہزار لوگوں تک پہنچایا تو گویا اس نے ایک ہزار بار جھوٹ بولنے اور دھوکہ دینے کا ارتکاب کیا ہے، اگر مدارس کے ذمہ داران کا یہ کردار ہو تو بے دین نظر آنے والے لوگوں کا کیا شکوہ کیا جائے، جھوٹ کی انتہا تو یہ ہے کہ بعض دفعہ کمپیوٹر کے ذریعہ جعلی تصدیق نامہ تیار کرنے کی بھی خبر ملتی ہے، سفراء پکڑے جاتے ہیں، اور کبھی پولس اور کبھی عوام کے ذریعہ ان کی سرزنش بھی ہوتی ہے۔
۴۔ یہ جھوٹ اور دھوکہ ان مدارس میں اپنی انتہا کو پہنچ جاتا ہے، جو سرکاری امداد حاصل کرتے ہیں، جتنی برائیاں سرکاری ملازمت کے دوسروں شعبوں میں پائی جاتی ہیں، قریب قریب وہ سب اضافہ کے ساتھ ان مدرسوں میں پائی جاتی ہیں، طلبہ کا داخلہ نہیں ہوتا؛ لیکن رجسٹر داخلہ میں ناموں کا اندراج کیا جاتا ہے، طلبہ صرف امتحان دیتے ہیں؛ لیکن ایک حاضر باش طالب علم کی حیثیت سے اس کا فارم پُر کرایا جاتا ہے، اساتذہ امتحان کے سنٹر پہنچ کر بچوں کو چوری کراتے ہیں، پھر جب کاپیاں ممتحن کے پاس جاتی ہیں تو غلط طور پر اس کے نمبرات بڑھواتے ہیں، مدرسہ میں حاضر نہیں ہوتے؛ لیکن رجسٹر حاضری پر دستخط کرتے اور تنخواہ اُٹھاتے ہیں، غرض جھوٹ اور دھوکہ کا ایک سلسلہ ہے، جو شروع سے آخر تک اس نظام کو اپنے گھیرے میں لئے ہوا ہے۔ پھر افسوس کی بات یہ ہے کہ اس میں رشوت لی بھی جاتی ہے اور دی بھی جاتی ہے، صلاحیت کی بناء پر نہیں رشتہ داری اور تعلق کی بناء پر اور رشوت لے کر اساتذہ و عملہ کا تقرر کیا جاتا ہے، یہ رشوت لے کر تقرر کرنے والے بھی بعض اوقات علماء ہوتے ہیں، دوسری طرف علماء رشوت دیکر اپنا تقرر کراتے ہیں، تنخواہیں حاصل کرنے کے لئے بھی رشوت دینی پڑتی ہے، طلبہ کو پاس کرانے کے لئے رشوت لی بھی جاتی ہے اور ممتحنین کو دی بھی جاتی ہے، مقام عبرت ہے کہ اللہ نے جن کو عالم و حافظ بنایا ہو، جن کو فقہ و فتاویٰ کی دولت سے نوازا ہو، جو دن رات اپنے مواعظ میں کسب حلال پر زور دیتے ہوں، جو رشوت کی لین دین پر حرمت کا فتویٰ دیتے ہوں، جن کو ایک عالم باعمل سمجھ کر لوگ ان کے پیچھے نماز پڑھتے ہوں، وہ اللہ کو کیا منہ دکھائیں گے؟ یہ سرکاری بورڈ کے مدارس کی عمومی صورت حال ہے؛ مگر اس میں شبہ نہیں کہ بعض مدارس یا بعض اساتذہ اور ذمہ داران ان کمزوریوں سے محفوظ بھی ہیں؛ لیکن ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔
۵۔ ایک عجیب تصور مدارس کی ملکیت کا قائم ہو گیا ہے، مدرسہ کو ملکیت سمجھا جاتا ہے، مدرسہ کی املاک مدرسہ کے نام پر خریدنے کے بجائے لوگ اپنے نام پر خرید کرتے ہیں، ایسے متعدد واقعات پیش آچکے ہیں کہ جب ادارے کے ذمہ دار کا انتقال ہو گیا تو ان کے ورثاء نے اس میں حق وراثت کا دعویٰ کر دیا، لوگ بھی اس کے اس قدر عادی ہو گئے ہیں کہ مدرسہ کا نام لینے کے بجائے وہ کہتے ہیں’’ یہ فلاں صاحب کا مدرسہ ہے‘‘ یہ نہایت افسوس ناک بات ہے؛ اس لئے بعض دفعہ والد کی وفات کے بعد بیٹا لازمی طور پر اپنے آپ کو ذمہ دار سمجھتا ہے، چاہے وہ عالم تک نہ ہو، پھر یہیں سے مدرسہ پر قبضہ کے لئے بھائیوں کے درمیان اور کبھی متوفیٰ کے بیٹوں اور داماد کے درمیان جھگڑا شروع ہوتا ہے، اگر کسی شخص کا بیٹا واقعی اپنے علم و فضل کے اعتبار سے اس ادارہ کو چلانے کا اہل ہو ، مجلس انتظامی اسے ادارہ کا ذمہ دار بنا دے، اور وہ ایک مالک کی حیثیت سے نہیں منتظم کی حیثیت سے اس کا نظم چلائے تو اس میں کوئی حرج نہیں؛ بلکہ بعض دفعہ انتشار سے بچنے کے لئے یہ صورت بہتر بھی ہوتی ہے، اور اسی لئے بعض بڑے مدارس میں اس کی روایت رہی ہے؛ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ منتظم ادارے کا مالک ہوگیا۔
مدارس کی اہمیت سے ہرگز ہرگز انکار نہیں کیا جاسکتا، یہ دین کے قلعے اور اسلام کی حفاظت گاہیں ہیں، یہ زکوٰۃ و عطیات کا بہترین مصرف ہیں، اور صدقہ جاریہ کا درجہ رکھتے ہیں؛ لیکن مدارس کے وقار کی حفاظت بھی خود ارباب مدارس کی ذمہ داری ہے، اصحاب خیر کو ان اداروں کا بھر پور تعاون کرنا چاہئے اور جیسے مذکورہ مفاسد میں مبتلا بہت سے ادارے موجود ہیں، اسی طرح ایک بہت بڑی تعداد مفید اور کار کرد مدارس کی بھی ہے، تجار اور اصحاب ثروت کو چاہئے کہ اپنے کاروبار میں تحقیق و تفتیش کے ساتھ کاموں کو انجام دیتے ہیں، اسی طرح مدارس کے بارے میں بھی تحقیق سے کام لیں، اور کھرے کھوٹے میں فرق کریں، نہ یہ درست ہے کہ مدارس کے تعاون سے ہاتھ روک لئے جائیں، اور نہ یہ مناسب ہے کہ بلا تحقیق ہر ادارے کا اس طرح تعاون کیا جائے ، جیسا بہت سے لوگ ہر گداگر کی کشکول میں روپے دوروپے ڈالتے جاتے ہیں، وما اُرید إلا الإصلاح، واللہ ھو الموفق۔
(مضمون نگار معروف فقیہ اور بین الاقوامی شہرت یافتہ اسلامی اسکالر ہیں)