مفتی محمد ارشد فاروقی
اللہ تعالی کی حکمت کے تقاضے
کے مطابق کچھ لوگوں کو دیگر لوگوں پر فضیلت حاصل ہے اسی طرح بعض مقامات کے مقابلہ میں دیگر مقامات کو اور بعض مہینوں کو دیگر مہینوں پر فضیلت دی گئ ۔تمام مہینوں میں رمضان المبارک بہترین قرار دیا گیا اور دیگر مہینوں کے مقابلے میں اس کی بڑی خصوصیات خوبیاں اور امتیازات رکھے گئے ۔چند اہم خصوصیات اور فضائل کا تذکرہ مندجہ ذیل ہے
*1_رمضان میں جنت کے دروازے کھول دئے جاتے ہیں*
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ رمضان کا مہینہ آگیا اس میں جنت کے دروازے کھول دئے جاتے ہیں اور شیطانوں کو قید کر لیا جاتا ہے:(سنن نسئ :2088 )
*2*رمضان کی اولیں رات کی فضیلت*
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا رمضان کے مہینے کی پہلی رات جب ہوتی ہے تو شیاطین اور سرکش جن قید کردیے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دئے جاتے ہیں اس کا کوئی دروازہ نہیں کھلتا اور جنت کے دروازے کھول دئے جاتے ہیں اور اس کا کوئ دروازہ بند نہیں ہوتا اور ہر رات ندا لگائ جاتی ہے خیر کے تلاش کرنے والے آگے بڑھ برائ کا ارادہ کرنے والے رک جا اور اللہ کی طرف سے جہنم سے آزاد کئے جانے والے بہت ہوتے ہیں اور یہ ہر شب صدا لگتی ہے ۔مسند احمد :(18438′) (بیہقی: 3439)
ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا رمضان کا مہینہ آگیا بابرکت مہینہ ‘تم پر اللہ نے اس کے روزے فرض کئے اس میں جنت کے دروازے کھول دئے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کردئے جاتے ہیں اور سرکش شیطانوں کو بیڑیاں ڈال دی جاتی ہیں اس مہینے میں ایک رات ہزار مہینوں سے بہتر ہے جو اس کی بھلائ سے محروم رہا بس وہ تو محروم ہی رہا (سنن نسئ :2091)
*_3* *رمضان میں جنت کے دروازے کھول دئے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کردئے جاتے ہیں اور شیطانوں کو مقید کردیا جاتا ہے*
ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ رمضان کا مہینہ آتے ہی جنت کے دروازے کھل جاتے ہیں جہنم کے دروازے بند ہوجاتے ہیں اور شیطانوں کو بند کردیا جاتا ہے
(صحیح البخاری:1809 )
امام نووی نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان جنت کے دروازے کھول دئے جاتے ہیں جہنم کے دروازے بند کر دئے جاتے ہیں شیطان مقید کردئے جاتے ہیں کی تشریح میں قاضی ایاز کہتے ہیں اس حدیث سے جو مطلب سمجھا جارہا ہے وہی حقیقت ہو اور ان چیزوں کو رمضان کے مہینے کے داخل ہونے کی علامت اس کی اہمیت کو جتانا ہو اور شیطانوں کو بند کرنا تاکہ مومنوں کو تکلیف دینے سے وہ رک جائیں اور ان پر وساوس کے ذریعہ حملہ نہ کریں۔ قاضی ایاز کہتے ہیں اس حدیث کے مجازی معنی بھی مراد ہوسکتے ہیں کہ ثواب کی بہتات عفو و درگزر کی کثرت اور شیطانوں کی طرف سے حملے ‘ایذا رسانی کا رک جانا جیسے کہ انہیں کال کوٹھری میں ڈال دیا گیا ہو اور شیطانی حملوں کو کچھ لوگوں سے روکا جاتا ہو اور کچھ برائیوں سے باز رکھا جاتا ہو اور اس مفہوم کی تائید اس حدیث سے ہوتی ہے جس میں کہا گیا کہ سرکش شیطانوں کو قید کیا جاتا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ جنت کے دروازے کھولنے سےمراد یہ ہو کہ اللہ کے بندوں کےلئے اس مہینے میں اس قدر نیکیوں کی توفیق ملتی ہے جس کا موقع دیگر مہینوں میں بہم نہیں پہنچتا جیسے دن میں روزے رکھنا ‘شب بیداری کرنا ‘نیکیوں کی انجام دہی ‘برائیوں سے رکنا یہ سارے ذرائع جنت میں داخلے کے ہیں گویا یہی دروازے ہیں اسی طرح جہنم کے دروازے بند کرنے اور شیطانوں کو قید کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے بندے شریعت کی مخالف باتوں سے رک جاتے ہیں (شرح صحیح مسلم نووی :188 جلد 7 )
*4*_*روزے گناہوں کو مٹا دیتے ہیں*
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ جب کوئ بڑے گناہوں سے بچے تو پانچوں نمازیں ایک جمعہ سے دوسرے جمعے اور ایک رمضان سے دوسرے رمضان کے بیچ کے سارے گناہ مٹا دیتے ہیں (صحیح المسلم:370 )
امام مناوی کہتے ہیں کہ حدیث کا مفہوم یہی ہے کہ جمعہ کی نماز دوسرے جمعہ کے دورانیہ کے گناہوں کو مٹا دیتی ہے اور ایک رمضان کے روزے دوسرے رمضان کے بیچ کے گناہوں کو ختم کر دیتے ہیں شرط یہ ہے کہ بڑے گناہ نہ ہوں(تیسیر شرح الجامع الصغیر:208/2)
عمار بن یاسر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر پر چڑھ کر فرمایا :آمین! ‘آمین! آمین!
اس کے بعد فرمایا کہ جس نے والدین کو یا ان دونوں میں سے کسی کو پانے کے باوجود اس کی مغفرت نہیں ہوئ تو اللہ اسے دور کرے فرمایا آمین کہو
اور جس نے رمضان پایا اور پھر اس کی مغفرت نہ ہوئ تو اللہ اسے دور کرے ۔کہو آمین
اور جس کے سامنے میرا نام لیا گیا(صلی اللہ علیہ وسلم) اور اس نے مجھ پر درود نہ بھیجا تو اللہ اسے دور کرے کہو آمین
(حافط بن شاہین فضائل رمضان :3 )
*5*_ *رمضان کے عمرے کا ثواب دوگنا*
ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا رمضان کا عمرہ حج کے برابر ہے (صحیح مسلم:2276 )
امام مناوی کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کا مطلب عمرے کے ثواب کا حج کے ثواب کے برابر ہونا ہے یہ مطلب ہرگز نہیں کہ رمضان میں عمرہ کرلینے سے فریضہ حج ذمہ سے ساقط ہوجائے
(شرح الجامع الصغیر:288/2)
*6*_ *رمضان کی اہم خصوصیت قرآن کا نازل ہونا*
اللہ تعالی نے فرمایا جس کا ترجمہ رمضان کے مہینے میں قرآن اتارا گیا لوگوں کے لئے سراپا رہنمائی’اور رہنمائی کو روشن کرنے والا ‘حق و باطل میں امتیاز پیدا کرنے والا ہے تم میں سے جسے یہ مہینہ ملے تو اس میں روزہ رکھے اور جو بیمار یا سفر میں ہو وہ دوسرے چند دنوں میں رکھ لے۔ اللہ تمہارے ساتھ آسانی چاہتا ہے دشواری میں مبتلاء کرنا نہیں چاہتا روزے کی گنتی کو مکمل کرو اور اللہ نے جو تمہاری رہنمائی کی اس کی عظمت بیان کرو امید کہ تم شکر ادا کروگے (البقرة:185)
ابن کثیر کہتے ہیں اللہ تعالی تمام مہینوں کے مقابلہ میں رمضان کی ستائش اس لئے کرتے ہیں کہ اس ماہ کو قرآن کریم اتارنے کے لئے منتخب فرمایا یہی نہیں بلکہ حدیث کے مطابق اللہ تعالی نے اسی مہینے کا انتخاب تمام آسمانی کتابوں کے اتارنے کے لئے کیا (تفسیر ابن کثیر:268/1 )
امام احمد نے مسند میں واثلہ بن اسقع سے روایت کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا رمضان کی پہلی رات میں ابراہیمی صحیفے اتارے گئے اور رمضان کی 6 تاریخ کو توریت نازل کی گئ جبکہ انجیل 13 تاریخ کو اور قرآن رمضان کی 24 تاریخ کو اتارا گیا (مسند احمد:16678)
*7*_ *رمضان کی خصوصیت شب قدر*
اللہ تعالی نے فرمایا کہ ہم نے قرآن کو شب قدر میں اتارا شب قدر کا پتہ ہے آپ کو ؟ شب قدر ہزار مہینے سے بہتر ہے ۔ فرشتے اور جبرئیل اپنے رب کے حکم سے ہر اہم فیصلہ لے کر اترتے ہیں ‘سراپا سلامتی ہے ‘ وہ طلوع صبح صادق تک ہے
امام قرطبی نے کہا کہ اللہ تعالی نے اس رات کی فضیلت ‘عظمت اس گھڑی کی اہمیت بیان کی کہ اس میں کس قدر خصوصیات رکھی گئیں اور اس رات میں تو بے شمار اس قدر خیر و بھلائ تقسیم ہوتی ہے کہ ہزار مہینوں کی رات میں بھی اتنی نہیں ہوتی مفسروں کو بڑی تعداد اس کی قائل ہےکہ شب قدر میں جو عمل کیا جائے وہ ایسا ہی ہے گویا ہزار مہینے میں کیا گیا ہو ابو العالیہ کہتے ہیں شب قدر ایسے ہزار مہینوں سے بہتر ہے جن میں شب قدر نہ ہو (جامع احکام القرآن:121/20)
امام ابن کثیر کہتے ہیں کہ اللہ نے یہ بتا دیا کہ قرآن شب قدر میں نازل کیا گیا اور یہی رات بابرکت رات ہے اللہ نے فرما دیا رمضان کے مہینے میں قرآن اتارا گیا ابن عباس وغیرہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالی نے آسمان دنیا بیت العزت پر لوح محفوظ سے مکمل قرآن کو اتارا اس کے بعد واقعات و مسائل کے مطابق تیئیس سالہ مدت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اترا پھر اللہ تعالیٰ نے شب قدر کی اہمیت کو بتانے کے لئے قرآن کریم کو اس میں اتارا اسی لئے فرمایا ۔ ف
ترجمہ کیا آپ کو پتا ہے شب قدر کیا ہے شب قدر ہزار مہینے سے بہتر ہے
مبارک پوری کہتے ہیں ہزار مہینے سے بہتر کا مطلب یہی ہے کہ شب قدر میں جو عمل کیا جائے ان ہزار مہینوں جن میں شب قدر نہ ہو ‘میں کرنے سے بہتر ہے
*8*_ *رمضان کی خصوصیت تراویح*
امت مسلمہ رمضان میں قیام
لیل کے سنت ہونے پر متفق ہے نووی نے کہا کہ قیام رمضان سے مراد نماز تراویح ہے یعنی تراویح کی نماز پڑھ لینے سے قیام لیل کا مقصد حاصل ہوجاتا ہے (فتح الباری:251/4)
ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے ایمان اور ثواب کی امید کے ساتھ رمضان میں قیام کیا اس کے پچھلے سارے گناہ بخش دئے گئے (صحیح البخاری:1920) ‘
(صحیح مسلم:1306)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کا مطلب کہ قیام لیل کی فضیلت کہ اعتقاد اور یقین اور اللہ سے ثواب کی امید رکھتے ہوئے قیام کرے لوگوں کو دکھانے کے لئے یا اخلاص کے برخلاف نہ کرے تو اس کے پچھلے گناہ معاف کردئے جاتے ہیں فقہاء کے قاعدے کے مطابق چھوٹے گناہ معاف ہوتے ہیں نہ کی بڑے جب کہ دیگر فقہاء کہتے ہیں کہ یہ بھی ممکن ہے کہ بڑے گناہوں میں بھی تخفیف ہوجائے جبکہ صغیرہ گناہ نہ ہوں
امام نووی کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کا رخ ترغیب کا تقاضہ کرتا ہے نہ کہ واجب قرار دینے کا
ابن بطال کہتے ہیں سیدنا عمر نے لوگوں کو ایک امام کے پیچھے تراویح پڑھنے کا حکم دیا اس میں یہ کھلی دلیل ہے حاکم وقت رعایا کو متحد رکھے اور ان کے دین کو درست رکھنے کی کوشش کرے
محلب نے کہا کہ اس سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ سنتوں کے سلسلے میں حاکم وقت کا اجتہاد اور رائے جبکہ اس کی طرف سے پیش کی گئ ہو تو قابل سماعت ہے جیساکہ ایک امام کے پیچھے لوگوں کو نماز پڑھنے کا فیصلہ حضرت عمر نے لیا تو صحابہ نے ان کے اس اجتہاد کی پیروی کی چوں کہ اللہ کا فرمان ہے ترجمہ اور اگر اللہ کے رسول اور حکام کے پاس مسئلے کو لے جائیں تاکہ ان میں سے جو لوگ استنباط کرتے ہیں وہ جان لیں (النساء:83)
رمضان کا قیام سنت ہے چونکہ سیدنا عمر نے اپنی طرف سے یہ طریقہ رائج نہیں کیا بلکہ جس چیز کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پسند کرتے تھے اسے اختیار کیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وجہ کو بتا دیا جس کی بنا پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم جماعت کے لئے تشریف نہیں لائے تھےاور وہ فرض ہو جانے کا اندیشہ تھا چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مومنوں پر بڑے مہربان تھے اب جب حضرت عمر نے یہ دیکھا کہ وحی کا سلسلہ بند ہو جانے کے بعد تو فرض ہونے رہی اس لئے انہوں نے جس چیز کو رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے پسند کیا تھا اس سنت کو جاری کردیا اور یہ واقعہ سیدنا عمر کی خلافت کے دور اول میں 14 ہجری کو پیش آیا محلب کہتے ہیں کہ یہاں سے یہ اصول طے پایا کہ جس وجہ سے کسی عمل کو چھوڑ دیا جائے پھر وہ وجہ باقی نہ رہے تو اس عمل کو دوبارہ کیا جا سکتا ہے جیسا کہ سیدنا عمر نے رمضان کی رات میں تراویح کو جماعت کے ساتھ جاری کیا اسی واسطے عمر نے کہا کہ ابی ہم میں سے بہتر قرآن پڑھنے والے ہیں اسی لئے ان کو امام بنایا اور تمیم داری کو بھی آگے بڑھایا اور یہ بھی پتا ہے کہ بہت سے صحابہ ان سے بہتر پڑھتے تھے تو اس سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان کہ سب سے بہتر قرآن پڑھنے والا امامت کرے یہ انتخاب پر ہے
*9*_*رمضان کی خصوصیت اعتکاف*
عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وفات تک رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف فرماتے تھے آپ کے بعد آپ کی بیویاں اعتکاف کرتی رہیں (صحیح بخاری:1937)
امام صنعانی کہتے ہیں اس سے پتا چلا کہ اعتکاف ایسی عظیم سنت ہے جس کی پابندی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اور آپ کے بعد آپ کی بیویوں نے کیا
ابو داود احمد سے روایت کرتے ہیں کہ اعتکاف کے سنت ہونے میں کسی کا اختلاف نہیں ہے اور اعتکاف کا مقصد درحقیقت معدے کے خالی ہونے کے ساتھ اللہ کی جناب میں قلب کو پورے طور پر متوجہ کرنا ہے اور ذکر الہی سے مالا مال ہونا غیر اللہ سے دل کو بالکل موڑ لینا ہے
ابو سعید خدری کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے دوسرے عشرے میں اعتکاف فرماتے ایک سال اعتکاف کیا کہ اکیسویں شب آگئ اور یہ وہی رات تھی جس کی صبح آپ اعتکاف سے نکلتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے میرے ساتھ اعتکاف کیا تو وہ آخری عشرے میں اعتکاف کرے چونکہ مجھے شب قدر دکھائ گئ پھر بھلا دی گئ اور میں نے دیکھا کہ صبح تری میں سجدہ کررہا ہوں تو شب قدر کو آخری عشرے میں تلاش کرو اور طاق راتوں میں تلاش کرو ‘اس رات کو بارش ہوئی مسجد تنوں پر تھی تو میری دونوں آنکھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشانی مبارک پر اکیسویں رات کی صبح کو تری دیکھی
ابن رجب کہتے ہیں اس حدیث سے پتا چلتا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم شب قدر کی تلاش میں رمضان کے دوسرے عشرے میں اعتکاف کرتے جس سے پتا چلتا یے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کئ بار فرمایا (لطائف المعارف :251)
*10*ماہ سخا و مذاکرہ*
ابن عباس کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ انتہائ سخی تھے اور رمضان میں جب جبرئیل آپ کے پاس آتے تو آپ کی سخاوت دیکھنے کی ہوتی اور رمضان کی ہر رات جبرئیل آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتے اور آپ کے ساتھ قرآن کا دور کرتے پھر تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سخاوت تیز ہوا سے بھی زیادہ ہوتی (صحیح البخاری:1812 )
ابن رجب کہتے ہیں رمضآن کے مہینے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بحر سخا و جود میں جو طغیانی آتی اس کے بڑے فائدے ہیں اس وقت کی اہمیت اور اس میں عمل کے ثواب کا بڑھ جانا
انس کی روایت ہے کہ رمضان کا صدقہ بہترین صدقہ ہے
اسی پرح روزہ داروں شب بیداروں اور ذکر الہی میں مشغول رہنے والوں کی دادرسی ہے جو ان لوگوں کی مدد کرے گا اسے بھی ان ہی جیسا ثواب ملے گا جیسے کسی نے راہ خدا میں جانے والے کی مدد کی تو وہ ایسا ہے جیسے وہ خود گیا اور جس نے اس کے گھر والوں کی دیکھ ریکھ کی وہ بھی ویسا ہے ۔
زید بن خالد کی حدیث میں ہے کہ جس نے کسی روزہ دار کو افطار کرایا تو روزہ دار ہی کے ثواب کا مستحق یہ بھی ہوگا اور یہ بھی ہے کہ رمضان کا مہینہ ایسا مہینہ ہے جس میں اللہ کی طرف سے اس کے بندوں پر رحمت مغفرت جہنم سے آزادی کی چادر تان دی جاتی ہے اور شب قدر میں تو خصوصیت اور بڑھ جاتی ہے اور اللہ تعالی رحم کرنے والے بندوں پر رحم۔کرتا ہے تو جس نے اللہ کے بندوں پر سخاوت کا مظاہرہ کیا تو اللہ تعالی اس پر بخشش و کرم فرمائے گا اور اسی جیسے عمل کا بدلہ دے گا اور یہ بھی ہے کہ روزہ اور مالی صدقہ دونوں مل کر جنت کو واجب کرتے ہیں جیساکہ علی کی حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے کہ جنت میں ایسے بالاخانے ہوں گے کہ اندر سے خارجی منظر نظر آئے گا اور باہر سے اندرونی منظر نظر آئے گا لوگوں نے پوچھا یہ کس کے لئے ہوں گے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس کی گفتگو اچھی ہو اور لوگوں کو کھلائے اور پابندی سے روزہ رکھے اور قیام لیل کرے جب کہ لوگ خراٹے بھر رہیں ہوں یہ ساری خوبیاں نیکیاں رمضان میں جمع ہو جاتی ہیں ایک مومن روزے بھی رکھتا ہے شب بیداری بھی کرتا ہے صدقہو خیرات بھی کرتا ہے لوگوں کے ساتھ اچھی باتیں بھی کرتا ہےاور وہ بے حودہ باتوں لہو و لعب سے رکتا ہے پھر تو روزے نماز اور خیرات اللہ تک پہنچا دیتے ہیں کسی بزررگ نے کہا کہ نماز آدھے راستے تک پہنچاتی ہے اور روزے بادشاہ کے دروازےتک پہنچاتے ہیں اور خیرات اس کا ہاتھ پکڑ کر بادشاہ کی خدمت میں پیش کردیتی ہے
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آج کون روزے سے ہے ابوبکر نے کہا بندہ ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا آج جنازے کی نماز کس نے پڑھی ابوبکر نے کہا بندے نے ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا آج خیرات کس نے کیا ابوبکر نے کہا بندے نے
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس کے اندر اتنی نیکیاں جمع ہو جائیں وہ جنت میں ضرور جائے گا (الادب المفرد بخاری:533 )
اور یہ بھی کہ روزے اور خیرات اکٹھا ہو جائیں تو گناہوں کو مٹاتے ہیں جہنم سے بچاتے ہیں اس کے ساتھ شب بیداری بھی ہو تو اور زیادہ مفید
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا روزے ڈھال ہیں دوسری روایت میں ہے کہ تمہارے لئے آگ سے ڈھال ہیں جیسا کہ لڑائ میں ڈھال کی طرح ابو درداء کہتے تھے قبروں کی تاریکی کو دور کرنے کے لئے رات کی تاریکی میں دو رکعت پڑھ لو اور قیامت کی گرمی سے بچنے کے لیے سخت گرمی میں ایک دن روزہ رکھ لو اور سخت ترین دن کی آفت سے بچنے کے لئے خیرات کرلو اور یہ بھی ہے کہ روزے میں کچھ نہ کچھ کسر کمی رہ جاتی ہے اور روزے گناہوں کو اسی وقت مٹاتے ہیں جب کہ ممنوعات سے بچا جائے اس کمی کو دور کرنے کے لئے صدقہ فطر کو واجب کیا گیا اور یہ بھی ہے کہ روزے دار کھانا پینا اللہ کے لئے چھوڑتا ہے تو پھر روزہ داروں کی تقوی پر مدد کرتا ہے کسی بزرگ سے پوچھا گیا کہ روزہ کی فرضیت کی وجہ کیا ہے انہوں نے جواب دیا تاکہ مالدار بھوک کا ذائقہ چکھ لے پھر وہ کسی بھوکے کو نظر انداز نہ کرے رمضاں المبارک کے یہ چند خصوصیات اور امتیازات ہیں جو کتاب اللہ اور احادیث سے مستفاد ہیں رمضان نیکی و بہار کا موسم ہے زندگی کی خزاں کو دور کرنے اور جنت کے راستے پر گامزن رہنے کا بہترین مہینہ ہے ۔





