ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز
12؍جون 2018ء کو دہلی میں ایک خاتون کے بشمول تین افراد کو گرفتار کیا جو پانچ دولت مند افراد کو بلیک میل کرتے ہوئے ان سے رقم وصول کررہے تھے۔ ان پانچ بزنس مین پر بھیواڑی (راجستھان) میں ایک خاتون کے ساتھ گینگ ریپ کا الزام تھا۔ تاہم پولیس نے اس گینگ ریپ کے پس پردہ سازش کو بے نقاب کیا تو یہ سنسنی خیز انکشاف کیا کہ گینگ ریپ کا الزام عائد کرنے والی خاتون اور اس کے دو ساتھی جن میں موہت گوئل بھی شامل ہے۔ یہ وہی موہت گوئل ہے جو نوئیڈا کی کمپنی Ringing Bells کا پارٹنر ہے جس نے صرف 251روپئے میں 251 فریڈم اسمارٹ فونس فراہم کرنے کا اعلان کرکے تہلکہ مچادیا تھا۔ موہت گوئل اس گینگ ریپ کیس کے معاملہ کو رفع دفع کرنے کے لئے رقم اینٹھنے میں ملوث پایا گیا۔ آپ کو یاد ہوگا کہ بھیواڑی جو راجستھان کے ضلع آلور میں واقع ہے‘ یہاں 5مئی کی رات اُس وقت سنسی پھیل گئی تھی جب ایک خاتون نے پولیس میں شکایت درج کروائی تھی کہ اُسے ایک ہوٹل میں ایک ایونٹ کے سلسلہ میں بلایا گیا تھا اور پھر پانچ افراد نے ہوٹل کے روم میں اس کے ساتھ زنا بالجبر کیا۔ ان پانچوں امیر بزنس مین کو گرفتار کیا گیا تھا۔ تاہم شکاری خود اس وقت شکار میں پھنس گیا جب ملزمین کے ارکان خاندان نے پولیس میں شکایت درج کروائی تھی کہ انہیں گینگ ریپ کیس کو واپس لینے کے لئے پانچ کروڑ روپئے طلب کئے جارہے ہیں اور وہ باقاعدہ کافی رقم ادا کرچکے ہیں جس پر پولیس نے جال بچھایا اور زنا بالجبر کی مبینہ شکار خاتون جب ایک شاپنگ مال میں ملزمین کے ارکان خاندان سے رقم لینے کے لئے پہنچی تو اُسے 25لاکھ روپئے لیتے ہوئے رنگے ہاتھوں گرفتار کرلیا گیا۔ ساتھ ہی ملزمین کے ارکان خاندان نے اس خاتون کی زبردست پٹائی کردی۔ تحقیقات سے پتہ چلا کہ یہ باقاعدہ ایک بلیک میلنگ گینگ ہے جو دولت مند افراد کو دوستی کے بہانے اپنے جال میں پھانستی ہے اور پھر انہیں بلیک میل کرتی ہے۔ دلچسپی کی بات تو یہ ہے کہ راجستھان سے ہی اس قسم کے واقعات کا انکشاف ہوتا جارہا ہے۔ گذشتہ سال بھی راجستھان سے ایک ایسی ہی گینگ کو گرفتار کیا گیا تھا جو دولت مند اور ممتاز شخصیات کو اپنے جال میں پھانس کر ان کے ساتھ قابل اعتراض تصاویر اور ویڈیوز لینے کے بعد انہیں بلیک میل کررہے تھے اور جنہوں نے کم از کم 25افراد سے 15تا 25کروڑ روپئے اینٹھے تھے۔ خوبصورتی کے جال میں مردوں کو پھانسنے کو Honeytrap کہا جاتا ہے۔ اور یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ آئے دن ایسے واقعات پیش آتے رہتے ہیں جب خوبصورت لڑکیوں اور خواتین کو حسن کی جال میں گرفتار دولتمند افراد جن میں سیاستدان بھی شامل ہوتے ہیں۔ اپنی عزت اور خاندان کو بکھرنے سے بچانے کی خاطر بلیک میلرس کے مطالبات کی تکمیل کرتے رہتے ہیں۔ اگر معاملہ رفع دفع ہوجاتا ہے تو حقائق منظر عام پر نہیں آتے اگر بلیک میلر کا مقصد کسی کی ساکھ کو متاثر کرنا ہے یا اُسے نقصان پہنچانا ہے تو وہ رقم بھی اینٹھتے ہیں اور جیل کی ہوا بھی کھلاتے ہیں۔ راجستھان میں گذشتہ سال ایک سرجن نے پولیس میں رپورٹ درج کروائی تھی کہ اُس کی ایک مریضہ بلیک میل کررہی ہے‘ سرجن جو گرتے بالوں کو روکنے کا علاج کرنے کے لئے مشہور تھا‘ ایک خاتون کی شکایت پر باقاعدہ تین مہینے جیل میں گذار چکا تھا‘ مریضہ نے سرجن سے دوستی بڑھائی اور قربت کی انتہا تک پہنچی پھر اس کی تصاویر اور ویڈیوز فلم کے ذریعہ اُسے ہی بلیک میل کرنے لگی۔ پولیس نے اس مریضہ کو جو دراصل ایک خطرناک گینگ کی ممبر تھی‘ اس کے ساتھیوں کے ساتھ گرفتار کیا جس سے انکشاف ہوا کہ اس گینگ نے راجستھان، ہماچل پردیش، اترکھنڈ کی لڑکیوں اور خوبصورت خواتین کے ساتھ ساتھ ہانگ کانگ میں رہنے والی ایک پنجابی لڑکی رونیت کور کو بھی اپنی گینگ کا ممبر بنایا تھا جو دولت مند اور سماج کے بااثر افراد سے میل جول بڑھا کر ان کا اعتماد حاصل کرکے ان سے جسمانی تعلقات قائم کرلیتی اور پھر ان کے خلاف زنا بالجبر کے مقدمات دائر کرتی۔ گینگ کے شکار بیشتر افراد ڈاکٹرس، انجینئرس، بلڈرس، بزنس مین، بالی ووڈ ڈائرکٹرس، کھلاڑی اور سیاستدان ہوتے۔ اس گینگ میں فرضی صحافی بھی ہوتا جو ایک کیمرہ مین کے ساتھ ان شکار افراد کے پاس پہنچ کر انہیں ٹی وی چیانلس پر بریکنگ نیوز اسٹوری چلانے کی دھمکی دیتا۔ رونیت کور نے کم از کم سات فرضی ریپ مقدمات پولیس میں درج کروائے تھے ان میں ایک مقدمہ ایک بالی ووڈ ڈائرکٹر کے خلاف بھی تھا۔ اس گینگ میں وکیل، پولیس کانسٹبل بھی شامل تھا۔ اس گینگ نے ایک ای این ٹی ڈاکٹر کو پھانسا اور لگ بھگ ڈیڑھ کروڑ روپئے ہتھیالئے۔ رونیت کور نے ایک بلڈر کو اپنے دام الفت میں گرفتار کیا۔ اور اُس بے چارے کو 35لاکھ روپئے دے کر اس سے چھٹکارا حاصل کرنا پڑا۔ بالی ووڈ کے ایک ڈائرکٹر بیکانیر میں شوٹنگ کررہے تھے۔ ان سے اپائنٹمنٹ لیا گیا وہ بے چارا اپنے گھر واپس ہوا تو اس کے اکاؤنٹ سے 30لاکھ روپئے کم ہوچکے تھے۔ بہرحال Honeytrap دراصل جب سے دنیا بنی ہے تب سے یہ روایت رہی ہے کہ ارباب اقتدار کو سماج کے بااثر افراد کو خوبصورت لڑکیوں اور خواتین کے ذریعہ اپنے جال میں پھانسا جاتا ہے اور پھر انہیں اپنے مقصد کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس چکر میں تو نہ جانے کتنوں کا اقتدار ہاتھ سے نکل گیا۔ پاکستانی کرکٹر عمران خان نے جب تحریک انصاف پارٹی قائم کی اور ان کی مقبولیت اپنے عروج پر تھی‘ تب عین الیکشن سے پہلے ان کے سیتاوائٹ کے ساتھ تعلقات منظر عام پر آئے۔ اور عمران خان کی پارٹی ایک بھی نشست پر کامیابی حاصل نہ کرسکی۔ حال ہی میں بی جے پی لیڈر نہرو خاندان کے ایک رکن منیکا گاندھی کے بیٹے ورون گاندھی کی بھی تصاویر منظر عام پر آئی تھی۔ یہ وہ دور تھا جب ورون گاندھی تیزی سے بی جے پی میں اپنا مقام بنارہے تھے۔ سب سے اہم واقعہ رچرڈ نکسن کے ہیں جن کا واٹرگیٹ اسکینڈل اب بھی تاریخ میں ایک شرمناک باب سمجھا جاتا ہے‘ کس طرح سے وائٹ ہاؤز میں خواتین کے ساتھ ان کی قابل اعتراض تصاویر نے ان کے کیریئر کو تباہ کردیا۔ بل کلنٹن اور مونیکا لیونسکی کا واقعہ تو اب بھی ذہنوں میں تازہ ہوگا۔ خود مونیکا نے اپنے اور کلنٹن کے تعلقات کو منظر عام پر لایا تھا جس کے بعد یہ انکشاف ہوا تھا کہ امریکہ میں اقتدار کی راہ داریوں میں ایسے واقعات معمول کا حصہ ہیں۔ خوبصورت لڑکیاں صدر سے لے کر اعلیٰ عہدہ داروں کو اپنے جال میں پھانستی ہیں اور پھر خود اچھے عہدہ حاصل کرکے ایک طرح سے اپنے تعلقات کی قیمت وصول کرلیتی ہیں۔
رمضان طارق آکسفور یونیورسٹی کے پروفیسر جن کی تحریروں اور تقریروں نے ذہنی اور فکری انقلاب پیدا کیا تھا ایک امریکی خاتون کے جال میں پھنس گئے اور جیل ان کا مقدر بن گئی۔
آپ نے اکثر جیمس بانڈ کی فلموں میں اس قسم کے واقعات دیکھے ہوں گے کہ کس طرح سے جاسوس لڑکیاں بڑی بڑی ہستیوں کو پھانستی ہیں۔ حقیقت کی دنیا میں یہ ایسا ہی ہوتا ہے۔ پنڈت نہرو کے زمانے میں ایک ہندوستانی سفارتکار کی قابل اعتراض تصاویر روسی خاتون کے ساتھ خفیہ ایجنسی کے جی بی نے پیش کی تو پنڈت نہرو نے اُسے مذاق میں ٹال دیا مگر ہندوستانی سفارتکار محتاط رہنے کی ہدایت دی۔ ہندوستانی سفارتکاروں کی اچھی خاصی تعداد خوبصورت خواتین کے فریب کا شکار ہوکر اپنی ملازمت سے محروم ہوئی اور ان کے کیریئر برباد ہوگئے۔ ہندوستانی خاتون سفارتکار مادھوری گپتا کو پاکستان کے لئے جاسوسی کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا جس نے کئی اعلیٰ عہدیداروں سے روابط پیدا کرکے ان سے اہم معلومات حاصل کی تھیں۔ اسی طرح ایک نیوی آفیسر کموڈور سکھجیندر سنگھ کے خلاف تحقیقات کی جارہی ہے کہ آیا ایک روسی خاتون کے ساتھ ان کے روابط کا تعلق کہیں اہم معلومات کی منتقلی یا طیاروں کی معاملات میں عمل دخل سے تو نہیں۔ RAW کے سینئر عہدیدار منموہن شرما کو ایک چینی زبان پڑھانے والی چینی ٹیچر کے ساتھ رومانس کے الزامات کا سامنا کرنا پڑا اسی طرح ریسرچ اینڈانالیسس سرویس کے عہدیدارروی نائر کو مبینہ چینی خفیہ ایجنسی کی ایجنٹ سے دوستی کی پاداش میں ملک واپس طلب کرلیا گیا۔ اور اس کے بعد ان کا پھر کوئی بیرونی ملک تقرر نہیں ہوا۔
1990ء کی دہائی میں ہندوستانی بحریہ کے ایک عہدیدار ایک پاکستانی خاتون کی محبت کا شکار ہوئے۔ اور انہیں اپنے عہدہ سے استعفیٰ دینا پڑا۔ مختلف دشمن ممالک کی خوبصورت لڑکیوں یا خواتین کے دام میں گرفتار ہوکر جانے کتنے سفارتکار اپنے وطن سے بیوفائی کے مجبور ہوئے، کچھ لاپتہ ہوئے کچھ نے دوسرے ممالک میں سکونت اختیار کرلی۔ دہلی میں ایک لوک سبھا کے رکن سے ایک خوبصورت خاتون نے ایک مسئلہ کی یکسوئی کے سلسلہ میں ربط پیدا کیا۔ اس سے میل جول بڑھایا اسے اپنے گھر لے گئی اور پھر ایم پی صاحب کو پولیس میں شکایت درج کرنی پڑی کہ ’’اس ضرورت مند خاتون نے انہیں اپنے گھر لے جاکر کوئی نشینی چیز پلادی اور اس کے بعد جب ان کی آنکھ کھلی تو ان کے ساتھ قابل اعتراض تصاویر اور ویڈیوز لیا جارہا تھا۔ ان سے پانچ کروڑ روپئے طلب کئے گئے، تحقیقات جاری ہیں‘‘۔
عجیب اتفاق ہے کہ لڑکیوں اور خواتین کی جانب سے مردوں کو جنسی استحصال کے واقعات ایسے وقت پیش آرہے ہیں جبکہ لڑکیوں کی سلامتی انہیں تحفظ فراہم کرنے کے لئے اقدامات کئے جارہے ہیں۔ سخت قوانین پر عمل آوری ہورہی ہے۔ حال ہی میں آندھراپردیش میں ایک 45سالہ خاتون کی جانب سے 14سالہ لڑکے کے جنسی استحصال کا واقعہ منظر عام پر آیا اور پہلی مرتبہ ایک خاتون کے خلاف The protection fo Children from Sexual offences (Pocso) کے تحت مقدمات درج کیا گیا ہے۔ ایسے ہزاروں واقعات پیش آتے رہتے ہیں مگر منظر عام پر نہیں آتے۔ جب سے سوشل میڈیا عام ہوا تب سے Honeytrap کلچر کو فروغ ملنے لگا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم بھی سنبھل کر رہیں‘ آپ بھی سنبھل کر رہیں۔ اجازت لینے سے پہلے وہ واقعہ یاد دلا دیں کہ جب غازی صلاح الدین ایوبی کی قیادت میں مسلمانوں نے بیت المقدس کو فتح کرنے کا ارادہ کیا تو صلیبیوں نے اپنی خوبصورت ترین دوشیزاؤں کو بازاروں میں اور راستوں میں کھڑا کردیا اور انہیں ہدایت دی کہ وہ کسی طرح مسلمانوں کو اپنی جال میں پھانسے۔ مہینوں گذر گئے مگر کسی مجاہد نے نظر اٹھاکر تک نہیں دیکھا۔ کیوں کہ صلاح الدین ایوبی کی ہدایت تھی کہ مسلمان جب راستے سے گذریں تو صرف اپنے قدموں کو دیکھتے ہوئے چلیں۔ یہ صورت حال دیکھ کر صلیبیوں نے ہتھیار ڈال دئے ۔ کیا یہ کردار بحال ہوسکتا ہے!!!
( نگار’ گواہ اردو ویکلی‘ حیدرآباد کے چیف ایڈیٹر ہیں)
فون: 9395381226