عید الفطر : مساوات اور اجتماعیت کا مظہر

نورالسلام ندوی

عید خوشی و مسرت کا دن ہے ، فرحت و انبساط کا دن ہے، غموں کو بھلانے اور مسکرانے کا دن ہے، گلوے شکوے دور کرنے اور گلے ملنے کا دن ہے۔ رمضان المبارک کے روزے اور قیام لیل کے بدلے امت محمدیہ کو انعام و اکرام سے نوازے جانے کا دن ہے۔ روزہ ایک عظیم عبادت ہے، جس کی بابت اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ روزہ میرے لئے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا۔ آج اللہ کی طرف سے بہترین بدلہ دینے کا دن ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب عید کا دن آتا ہے تو اللہ تعالیٰ فخر و مباہات کے ساتھ روزہ دار کی تعریف بیان کرتے ہیں اور فرشتوں سے کہتے ہیں کہ اے فرشتو! اس مزدور کا کیا بدلہ ہے جو اپنا کام پورا کر چکا ہو اور اپنی ڈیوٹی پوری ایمانداری کے ساتھ ادا کیا ہو۔ فرشتے عرض کرتے ہیں ۔ اے پروردگار عالم! اسے پوری پوری مزدوری دی جائے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں، اے فرشتوں کی جماعت! تم گواہ رہنا میں نے اسے رمضان کے روزے اور قیام لیل کے بدلہ معاف کردیا۔ اس کے گناہوں کو نیکیوں میں بدل دیا۔ اب تم اس حال میں گھر لوٹو کہ تم سب بخشے بخشائے ہو۔ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جب عید الفطر کا دن آتا ہے تو خدا کے فرشتے راستوں کے نکڑ پر کھڑے ہوجاتے ہیں اورکہتے ہیں اے روزے دارو ! اس رب کے پاس چلو جو بڑا مہربان اور رحم کرنے والا ہے ، جو نیکی اور بھلائی کی باتیں بتا تا ہے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا کرتا ہے پھر اس پر بڑا اجر اور انعام دیتا ہے۔ تمہیں رمضان میں روزہ رکھنے کا حکم دیا گیا تھا تم نے روزے رکھکر اپنے رب کی اطاعت وفرماں برداری کی ، تمہیں تراویح پڑھنے کا پابند کیا گیا تھا تم نے تراویح پڑھی۔ چلو! اب تم اپنا انعام لے لو۔
عید پوری دنیا کے مسلمانوں کا قومی تہوار ہے، جس کا آغاز ہلال عید سے ہوتا ہے۔ رمضان کی آخری تاریخ کو جیسے ہی شوال کا چاند نظر آتا ہے لوگ خوشیوں سے جھوم اٹھتے ہیں اور اس دعا کے ساتھ عید کے چاند کا استقبال کرتے ہیں۔ اے ہمارے پروردگار ! تو اس چاند کو ہمارے لئے امن وسلامتی اور اپنی اطاعت وفرماں برداری کا ذریعہ بنادے اور اس مہینہ کو اپنی خصوصی رحمت وبرکت نازل کرنے والا مہینہ بنادے۔
عید کی صبح ہوتے ہی لوگ نہادھوکر نئے اور صاف ستھرے کپڑے پہن کر ، خوشبو لگا کر اپنے گھروں سے نکل کر عید گاہ کی طرف روانہ ہو جاتے ہیں اور پھر تمام لوگ ، بڑے چھوٹے ، امیر غریب ، اعلیٰ وادنیٰ سب ایک جگہ جمع ہوکر دو رکعت نماز شکر ادا کرتے ہیں اور اللہ جل جلالہ کی کبریائی اور عظمت کا اظہار کرتے ہیں۔ ایک دوسرے کو عید کی مبارک باد یاں دیتے ہیں، دعائیں دیتے ہیں، نیک اور پاکیزہ جذبات کا اظہار کرتے ہیں۔ اللہ اللہ! کیسی پاکیزہ عید ہے اور کیسی مقدس عید ہے مسلمانوں کا، نہ شور نہ ہنگامہ، نہ کھیل نہ تماشے ، نہ لہب و لعب اور نہ بے ہودہ پن۔
عید اور خوشی کا تصور تو دنیا کی تمام قوموں میں پایا جا تا ہے لیکن تمام قومیں تہوار اور خوشی کے موقع پر آپے سے باہر ہو جاتی ہیں، غیر اخلاقی وحیا سوز کام کرنے پر آمادہ ہو جاتی ہیں۔ لہب ولعب اور نشہ میں چور ہوکر مالک حقیقی کو بھلادیتی ہیں۔ لیکن ایک مسلمانوں کا عید ہے کہ اس میں بندہ مومن نہ آپے سے باہر ہوتا ہے ، نہ خدا کو بھولتا ہے، نہ انسانوں کے حقوق کو بھولتا ہے۔ اسلام دنیا کا یگانہ مذہب ہے جو تفریح ومسرت کو بھی تہذیب وانسانیت کے دائرے میں منانے کا حکم دیتا ہے اس کے ذریعہ یہ پیغام دیا گیا ہے کہ خوشی و مسرت میں بھی آدمی ایک حد پر قائم رہیں اور خوشی وتفریح کے اوقات میں بھی ایسا نہ کہ وہ اپنے معبود حقیقی کو بھول جائے۔ عید یقینا دنیا کے رنج وغم سے کٹ کر خوشی ومسرت منانے کا دن ہے مگر اس کے ساتھ ہی انسان کو یہ فکر بھی دامن گیر رہنی چاہئے کہ اس کی کچھ ذمہ داریاں ہیں اور اس ذمہ داری کو ادا کرنے کیلئے اسلام نے نماز شکر ادا کرنے کا حکم دیا۔ رمضان کے دنوں میں کھانا پینا حرام تھا۔ آج نہ کھانا پینا حرام ہے، رمضان کی بھوک و پیاس کے صدقہ طفیل آج سب اللہ کے مہمان ہیں۔ نامور عالم دین مولانا وحید الدین خاں عید کی حکمت و مصلحت پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں۔” رمضان کے ایک مہینہ کے روزے اور مجاہدہ نفس کے فوراً بعد عید منانا ہمیں یہ بھی پیغام دیتا ہے کہ اگر ہم نے موجود ہ دنیا میں رہ کراللہ کے حکم کی اطاعت کی اور پاپند زندگی گذاری، جس طرح رمضان کے دنوں میں گذاری تھی تو اسے مرنے کے بعد والی دنیا میں خوشی اور آزادی کے دلفریب جنت میں داخل کیا جائے گا “۔
رمضان المبارک گوکہ سال میں صرف ایک بار آتے ہیں مگر وہ پورے سال کیلئے ہماری زندگی کا کورس متعین کرتے ہیں۔ اس طور پر کہ روزہ ایک پابند زندگی کی مشق ہے، آدمی کو اس بات کیلئے تیار کرتا ہے کہ اسے دنیا میں ذمہ دارانہ زندگی گذارتا ہے۔ اسے اپنی مرضی پر چلنے کے بجائے خدا کی مرضی پر چلنا ہے۔ اس کا کھانا اور پینا چھوڑ دینا ایک علامتی عمل ہے کہ آئندہ بھی اس کی زندگی اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کے بتائے ہوئے راستے کے مطابق گذرے گی۔ اسی طرح عید سعید لوگوں کے اندر اس جذبہ اور اسپرٹ کو بیدار کرتی ہے کہ وہ پوری زندگی اتحاد و اتفاق ، پیار و محبت اور اجتماعیت و یگانگت کے ساتھ رہیں گے۔ باہمی اخوت و محبت کا ماحول قائم کریں گے۔ آپسی رنجش اور دوری کو مٹا کر ایک دوسرے کے قریب آئیں گے اور پوری زندگی ایک ساتھ مل جل کر رہیں گے اور اسی طرح اجتماعیت کے ساتھ خوشی ومسرت کے نغمہ گائیں گے۔
عید الفطر کی ایک خاص بات یہ ہے کہ یہ عمومی خوشی کا دن ہے، اسی لئے اس مہینہ میں صدقہ الفطر ادا کرنے کا حکم دیا گیا۔ خوشحال ، مالدار اور صاحب ثروت پر واجب قرار دیا گیا کہ وہ گھر کے ہر فرد کی طرف سے صدقہ الفطر ادا کریں۔ غریبوں ، محتاجوں، ضرورت مندوں کی دیں تاکہ وہ لوگ بھی اپنے لئے نئے جوڑے تیار کر سکیں، نئے کپڑے پہنیں، اچھا کھانا کھائیں اور عید کی خوشی میں برابر کے شریک ہوں۔ گو اس طرح عید کا دن پورے سماج کیلئے عمومی خوشی کا دن بن جاتا ہے۔ اس طرح عید ہمیں غریبوں سے ہمدردی اور دوستوں سے محبت کا پیغام دیتی ہے۔ مساوات و غم خواری اور اجتماعیت و وحدت کا درس دیتی ہے،حسن سلوک اور رواداری کا سبق پڑھا تی ہے۔ عید مناتے وقت ہم اس عہد کی تجدید کرتے ہیں کہ ہم اپنے بھائیوں کیلئے ایثار کریں گے۔ غریبوں کے دکھ درر کو محسوس کریں گے ، اور عوام کی خدمت کو اپنا شعار بنائیں گے۔ یاد رکھئے ! خوشی کے اس مبارک دن میں اللہ کے نزدیک اس خوشی کی کوئی اہمیت نہیں جس میں ضرورت مندوں، بے کسوں ، ناداروں اور مظلوموں کو بھلا دیا جائے اور ان کو اپنی خوشی میں شامل نہ کیا جائے۔ عید کے پر مسرت موقع پر ہماری ایمانی ذمہ داری ہے کہ ہم ان بے قصور اور مظلوم مسلمان بھائیوں کو نہ بھولیں جو ظلم وستم کی چکی میں پس رہے ہیں۔ ناکردہ گناہوں کی سزا میں جیل کی آہنی سلاخوں میں پا بہ زنجیر ہیں۔ دہشت گردی کے الزام میں ناحق قید و بند کی صعوبتیں جھیل رہے ہیں۔شام و فلسطین کے ان مظلوم اور معصوم بھائیوں کو بھی یاد رکھئے جو اپنی وجود اور بقا کی لڑائی لڑ رہے ہیں، جن پر اسرائیلی درندوں نے عرصۂ حیات تنگ کر رکھا ہے، جو خوف وہراس کے سایے میں جی رہے ہیں، جن کی عید آج ٹینکوں اور بم و بارود کے سایے میں ہو رہی ۔ اسی طرح ان تمام مظلوم اور بے قصور مسلمان بھائیوں کو آج کے دن اپنی خوشیوں اور دعاوں میں نہ بھولئے جو دنیا کے کسی بھی خطہ کے ہوں مگران پر صرف اس لئے ظلم ہو رہا ہے کہ وہ مسلمان ہیں، کلمہ حق کے اقراری ہیں، دین اسلام کے علمبردار ہیں اور دین مصطفوی کے پیروکار ہیں۔
عید الفطر کی خوشی ومسرت کے حقیقی مستحق تو وہ لوگ ہیں جنہوں نے رمضان المبارک کی قدر کی ، روزے رکھے، تراویح پڑھی، تلاوت قرآن کا اہتمام کیا۔ اپنے اوقات کو ذکر و اذکار میں صرف کیا، اپنے رب کو راضی کیا اور اپنے دامن کو نیکیوں سے بھر لیا۔ ایسے ہی لوگوں کے بارے میں اللہ کا فرمان ہے بندو! گھر لو ٹ جاوُ میں نے تمہیں بخش دیا۔ حضرت وہب بن منبہ کو عید کے دن کسی نے روتے ہوئے دیکھا تو پوچھا آج تو خوشی کا دن ہے، آپ رو کیوں رہے ہیں، انہوں نے جواب دیا بے شک خوشی کا دن ہے، لیکن اس کیلئے جن کے روزے قبول ہوئے ، عید تو ان کی ہے جنہوں نے اپنے گناہوں سے توبہ کی ، تقویٰ اور خوف خدا اختیار کیا۔
آیئے ! ہم اپنا محاسبہ کریں، جائزہ لیں، اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیں کہ ہم نے رمضان اور روزے کی قدر کی یا نہیں؟ عام مغفرت کے دن میں آیئے ہم سب ہاتھ اٹھاکر دست دعاء دراز کریں اور اللہ کے حضور میں گرگرا کر اپنی مغفرت طلب کریں اور اپنی مرادیں منوالیں۔