حافظ محمد ہاشم قادری صدیقی مصباحی
سفر معراج حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ عظیم معجزہ ہے جس پر انسانی عقل آج بھی حیران ہے۔ انتہائی کم وقت میں مسجدِ حرام سے بیت المقدس و سدرۃ المنتہیٰ تک لمبی مسافت طے ہوجاتی ہے۔ قرآن کریم اس کا ذکر ان الفاظ میں کرتاہے۔ ترجمہ: (ہر عیب سے )پاک ہے وہ ذات جس نے سیر کرائی اپنے بندے کو راتوں رات کے قلیل حصہ میں مسجدِ حرام سے مسجدِ اقصیٰ تک۔ بابرکت بنا دیا ہم نے گردو نواح کو تاکہ ہم دکھائیں اپنے بندے کو اپنی قدرت کی نشانیاں ۔ بے شک وہی سب کچھ سننے والا خوب دیکھنے والا ہے۔(سورۃ بنی اسرائیل، آیت نمبر ایک)
اس آیتِ مقدسہ پر غور کریں تو شکوک و شبہات کے تمام راستے خود بخود بند ہو جاتے ہیں ۔کسی شک کی گنجائش باقی نہیں رہتی ۔ عقلی اور نقلی سوالات ایک دم ختم ہو جاتے ہیں۔
قرآن کریم نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عظیم معجزہ کو جس مخصوص انداز سے بیان کیا ہے اس میں غور کرنے کے بعد عقلِ سلیم کو بلا چوں و چرا ں ماننا پڑتاہے کہ یہ واقعہ جس طرح قرآنی آیات اور احادیث صحیحہ میں مذکور ہے وہ بالکل سچ ہے اس میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم ایک رات خانہ کعبہ کے پاس حطیم میں آرام فرما رہے تھے کہ جبرئیل امین حاضر ہوئے اور نیند سے بیدار کیا اور اراد�ۂخدا وندی سے آگاہی بخشی ۔ حضور اٹھے ،چاہِ زم زم کے قریب لائے گئے ۔ سینۂِ مبارک چاک کیا گیا، قلب اطہر میں ایمان و حکمت سے بھراہوا طشت انڈیل دیا گیا اور پھر سینہِ مبارک درست کر دیا گیا۔ حضور حرم سے باہر تشریف لائے تو سواری کے لیے براق پیش کیا گیا۔ اس کی تیز رفتاری کا یہ عالم تھا کہ جہاں نگاہ پڑتی تھی وہاں قدم رکھتا تھا۔ حضور مسجدِ اقصیٰ میں تشریف لے گئے جہاں تمام انبیائے سابقین حضور کے لئے چشم براہ تھے۔ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا میں سب نے نماز اداکی پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلمآگے بڑھے اور سدرۃ المنتہیٰ تک پہنچے جو انوارِ باری تعالیٰ کی تجلی گاہ تھی جس کی کیفیت الفاظ میں نہیں لکھی جا سکتی یا بیا ن کی جا سکتی ہے۔ جو لوگ اللہ تعالیٰ کی قدرت و عظمت اور اس کی شان کبریائی پر ایمان رکھتے ہیں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کا سچا رسول مانتے ہیں ان کے لئے تو واقع�ۂ معراج کی صداقت پر قرآن کی آیتوں کے بعد مزید کسی دلیل کی ضرورت نہیں۔
واقع�ۂ معراج کی اہمیت اس لئے بھی ہے کہ اللہ نے اپنے محبوب بندے اور بر گزیدہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو زمین و آسمان بلکہ ان سے بھی ماورا اپنی قدرت و کبریائی کا مشاہدہ کرایا۔ حضور فرماتے ہیں، بے شمار چیزوں کا مشاہدہ فرمایا ، جنت و دوزخ کا مشاہدہ کیا ۔
جنت میں پیڑ لگائیں:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ، میں آگے بڑھا ،ساتویں آسمان پر اپنے جدِ امجد حضرت سیدنا ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام سے ملاقات ہوئی ۔پھر آپ نے اپنے فرزند محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کی امت کے لئے یہ پیغام دیا: اپنی امت کو حکم دیجئے کہ جنت میں بکثرت پودے لگائیں کیونکہ وہاں کی مٹی بڑی پاکیزہ ہے اور وہاں کی زمین بہت وسیع ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے جد امجد حضرت ابراہیم علیہ السلام سے پوچھا کہ جنت میں کون سے پودے لگانے کے قابل ہیں۔ آپ نے جواب دیا :لا حول ولا قوۃ الا بااللہ العلی العظیم یعنی اس کلام سے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کیا کرو۔ یعنی میرے پاس نہ کوئی طاقت ہے نہ قوت بجز اللہ کی ذات کے جو بہت بلند اور بہت بڑا ہے۔ دوسری روایت میںیہ ہے کہ اپنے فرزند محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو فرمایا، اپنی امت کو میری طرف سے سلام کہئے اور انہیں بتایئے کہ جنت کی مٹی بہت پاکیزہ ہے،وہاں کا پانی بہت میٹھا ہے اور وہاں جو پودے لگانے چاہئیں وہ کلمات یہ ہیں:سبحان اللہ والحمد للہ ولا الٰہ الا اللہ واللہ اکبر ۔ترجمہ: اللہ تعالیٰ ہر شریک اور ہرعیب سے پاک اور منزہ ہے۔ اور سب تعریفیں اللہ کے لیے ہیں اور کوئی عبادت کے لائق نہیں سوائے اللہ تعالیٰ کے اور اللہ تعالیٰ سب سے بڑا ہے۔(سیر ت الرسول ضیاء النبی جلد ۲، صفحہ ۵۲۹، سبل الھدیٰ صفحہ ۲۶،انسان العیون جلداول ،صفحہ ۳۷۹)
بے عمل خطیبوں کا حال:
آگے بڑھتے رہے ۔ سلسلہ جاری رہا پھر یہ ہیبت ناک منظر دکھائی دیاکہ قینچی کے ساتھ ایک قوم کی زبانیں اور ان کے ہونٹ کاٹے جارہے ہیں اور وہ زبانیں اور ہونٹ کٹنے کے بعد پھر جوں کے توں ہوجاتے ہیں۔ اوریہ سلسلہ جاری ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلمنے جبرئیل علیہ السلام سے پوچھا یہ کون ہیں؟جبرئیل علیہ السلام نے عرض کی :یہ حضور کی امت کے فتنہ باز خطیب ہیں جو دوسروں کو کہتے ہیں اس پر عمل خود نہیں کرتے(سبل الھدیٰ جلد ۳،صفحہ ۱۱۷،سیر ت الرسول ضیاء النبی جلد ۲، صفحہ ۵۰۸)
نماز مومن کی معراج اور خدائی تحفہ:
قاعدہ ہے کہ جب آنے جانے والا کسی کے گھر جائے تو کوئی نہ کوئی تحفہ لینا دینا ہوتا ہے۔ جب حضورصلی اللہ علیہ وسلم قاب قوسین سے زیادہ قرب پر فائز ہوئے تو رب العزت نے اپنے محبوب کو نماز کا تحفہ عطا فرمایا۔ نماز مومنین کے لئے بارگاہِ خداوندی کا ایک عظیم تحفہ ہے جو سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی معراج کے طفیل مسلمانوں کو عطا کیا گیا۔ الصلاۃ معراج المؤمنین۔نماز مومنین کی معراج ہے۔
کاش کہ مسلمان اس عظیم تحفہِ ربانی کی دل و جان سے قدر کرتے اور نماز کی ادائیگی میں پوری پوری کوشش کرتے تو آج یہ بدحالی اور ذلت و رسوائی کا منھ نہ دیکھنا پڑتا ۔ نماز اسلام کا اہم رکن ہے۔ نماز افضل العبادات ہے۔ نماز تحفہِ معراج ہے ۔ ایمان کے بعد شریعت کا پہلا حکم نماز ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر اول بار جس وقت وحی اتری اور نبوتِ کریمہ ظاہر ہوئی اسی وقت حضور نے بہ تعلیمِ جبرئیل امین علیہ السلام نماز پڑھی اور اسی دن بہ تعلیم حضور اقدس حضرت ام المؤمنین خدیجتہ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے پڑھی۔ دوسرے دن امیر المؤمنین علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہٗ نے حضور کے ساتھ نماز پڑھی کہ ابھی سورہ مزمّل بھی نازل نہ ہوئی تھی۔ تو ایمان کے بعد پہلی شریعت نماز ہے۔ (فتاویٰ رضویہ جلد ۲، صفحہ۱۰۸)
سفرِ معراج میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ایسی قوم پر ہوا جن کے سروں کو کاٹا جا رہا تھا۔وہ پہلے کی طرح درست ہوجاتے۔ یہ سلسلہ لگاتار جاری تھا۔ حضور نے پوچھا ، اے جبرئیل ، یہ کون لوگ ہیں ۔ جبرئیل علیہ السلام نے عرض کی ، یا رسول اللہ یہ وہ لوگ ہیں جو فرض نماز کی ادائیگی نہیں کرتے تھے۔(سبل الھدیٰ جلد ۳،صفحہ ۱۱۶،سیرت الرسول ضیاء النبی جلد ۲، صفحہ ۵۰۷)
نماز نہ پڑھنے پر بہت سی وعیدیں قرآن و حدیث میں وارد ہیں۔ اور نماز پڑھنے کے بے شمار فوائد قرآن و حدیث میں موجود ہیں۔ نماز پڑھنے سے بے شمار برکتیں حاصل ہوتی ہیں جن کا شمار ممکن نہیں۔ رب العالمین اپنے حبیب پاک کے صدقہ و طفیل میں قومِ مسلم کو ہدایت کا ملہ کی روش پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین !
09431332338
09386379632
E-mail : hhmhashim786@gmail.com