ممبئی : ( پریس ریلیز/ ملت ٹائمز ) ہمارا ملک ہندوستان بار بار لہولہان ہوتا جارہا ہے اور اس کی بیٹیاں ”بچاؤ بچاؤ‘ کی صدائیں لگا رہی ہیں، کوئی منہ کے بل برہنہ پڑی ہے تو کوئی اپنے جسم میں آگ لگانے پر مجبور ہے نہ کوئی محافظ ہے نہ مسیحا بلکہ جو منصف ہیں وہی قاتل بن گئے ہیں اور بھوکے بھیڑیے مہذب سماج میں وردی اور واسکٹ میں گھوم رہے ہیں، جہاں کوئی ”بیٹی“ نظر آرہی ہے اسے نوچ کھسوٹ رہے ہیں، مگر ملک سیاست میں ڈوبا ہوا ہے اور فرقہ وارانہ زہر کوپی کر مست ہے جس کے سبب کیسی کو کچھ نظر نہیں آرہا ہے اورکچھ سنائی نہیں دے رہا ہے یہاں تک کے ملک میں ”جاگتے رہو‘‘ صدا لگانے والا چوکیدار بھی اسی کا حصہ بن گیا ہے اور حوا کی بیٹی پکار رہی ہے مگر دنیا بہری ہے اور گونگی بنی ہوئی ہے۔ ”بیٹی بچاﺅ“ کے نعرے کا بھرم بھی ختم ہو رہا ہے اور اس نعرہ کا معنی یہ ہو گیا ہے کہ بیٹی بچاؤ ورنہ درندہ نما انسان ، ہوس کے پچاری ملک کی بیٹیوں کی عزت و آبرو تار تار کردیں گے اور وحشی درندے اسی معنی پر عمل بھی کر رہے ہیں اور رپورٹ بتاتی ہے کہ ملک میں ہر ۲۲ منٹ پر کسی نہ کسی خاتون کے ساتھ ریپ ہوتا ہے اور ہر ۸۲ منٹ پر کسی نہ کسی کمسن دوشیزہ کے ساتھ ریپ ہوتا ہے اور ہر ۲۵ منٹ پر چھیڑ خوانی کا کوئی نہ کوئی واقعہ پیش آتا اور ایک جائزہ لے مطابق ۹۲ فیصد خواتین جو مخلتف سیکٹر میں نائٹ شفٹ میں کام کرتی ہیں وہ اپنی ڈیوٹی کے درمیان خود کو غیر محفوظ محسوس کرتی ہیں ان خیالات کا اظہار صدر علم و ہنر آرگنائزیشن ممبئی کے سربراہ علامہ مولانا مفتی منظور ضیائی نے ایک پریس ریلیز میں کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ریپ ایک لعنت ہے لیکن جب یہ کسی نابالغ سے کیا جاتا ہے تو یہ مجرم کی گھٹیا سوچ اور ذہنی آوارہ پن کو بھی دکھاتا ہے اور ریپسٹ وحشی حیوان سے بھی زیادہ خطرناک ہیں سماج اور قانون سے کسی طرح کی نرمی کا حق دار نہیں ہے اور قانون کو اس طرح معاملات میں جلدی فیصلہ کرکے مجرم کو کیفر کردار تک پہنچانا چاہیے اور یہ سماج میں دوسروں کے ساتھ رہنے کے بھی لائق نہیں ہے اور مذہبی طور پر اور دنیاوی طور پر بھی ریپ ناقابل معافی جرم ہے، نازک عمر کی بچیاں جو ابھی جوانی کی پہلی مہک کا بھی لطف نہیں لے سکی ہیں، ان کے جسم کو نقصان پہنچانے والوں کو کوئی راحت نہیں دینی چاہیے اور نہ ہی رحم بھی کیا جا سکتا ہے۔ مفتی صاحب قبلہ نے مزید کہا کہ بچیوں سے ریپ اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے جس کو اکثر نظرانداز کر دیا جاتا ہے کہ ریپ منفی جذبہ کا کم اور صنف نازک کے خلاف طاقت کے استعمال کا جرم زیادہ ہے ہمارے ملک ہندوستان میں ریپ کسی ناسور کی طرح پھیلتا جارہا ہے جو ہمارے ملک اور سماج کے لیے شرمناک بات ہے اور اس میں تشویش ناک حد تک اضافہ ہندوستانی تہذیب و ثقافت کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے اگر بر وقت اس پر قابو نہیں پا یا گیا تو پوری دنیا ہندوستانی تہذیب و ثقافت کی عزت و وقار کی بدنامی سے کوئی نہیں روک سکتا! ہمارے ملک میں ریپ کا عام ہونا اور پولیس کا اس کے متعلق بے فکری کا رویہ اور حکومت کا اس مسئلہ پر لاپرواہی پر مبنی سلوک دراصل معاشرے کو منظم طریقے سے ایسا بنا دینا ہے جہاں جنسی لذت کا حصول زندگی کے اہم ترین مقاصد میں سے ایک ہو گیا ہے اور شخصی آزادی اور جنسی آزادی کے نعرے کے ذریعے جس کے نتیجے میں عورت کے وقار اور عزت کو خاک میں ملایا جا رہا ہے اس سے ایسا ماحول بنا دیا گیا ہے جس نے مردوں کی نگاہ میں عورت کی عزت و مقام کو پامال کردیا ہے اور ان کی سوچ کو گندا اور غلیظ کردیا ہے جو انہیں ایسے خوفناک جرائم کی جانب مائل کرتا ہے اور پولیس، عدلیہ اورحکمرانوں کی نظر میں اس جرم کی سنگینی کو کم کردیا ہے جس کی وجہ سے وہ اس جرم کو معمول کے کسی بھی دوسرے جرم کی طرح ہی دیکھ رہے ہیں اور یہ تمام باتیں بنت حوا کے خلاف جنسی جرائم کو فروغ دے رہے ہیں اس طرح سوچ اور رویہ افراد کو اس بات کی جانب راغب کر رہی ہیں کہ وہ اپنی جنسی تسکین کو پورا کرنے کے لیے کسی سے بھی، کسی بھی طریقے سے تعلق قائم کرسکتے ہیں جس کو وہ اپنے لیے مناسب سمجھتے ہوں اور یہ چیز اشتہارات، فیشن، فحش مواد، موسیقی، ٹی وی اور فلمی صنعت کے ذریعے معاشرے میں عام کی جا رہی ہے جس کے نتیجے میں روز بروز ہمارے ملک میں ریپ کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے اور ایکے بعد دیگرے ریپ کی خبریں آ رہی ہے جس کے نتیجے میں ہمارے ملک کی بدنامی ہو رہی ہے اور اور لوگ اپنی گھر کی خواتین کے تحفظ کو لے کر فکر مند ہیں اور تنہا بھیجنے سے ڈر رہے ہیں اور ابھی ایک سروے میں یہ بات بھی سامنے آ گئی ہے کہ جہاں خواتین محفوظ نہیں ہیں ہمارا ملک ایک نمبر پر ہے ! ہمیں یہ یاد رکھنی چاہیے کہ عورت کے مقام ومرتبے، عفت و عصمت کو دنیا بھر کے خزانوں سے زیادہ قیمتی ہے لہذا پولیس، انتظامیہ اور حکومت کی ذمہ داری ہے کہ خواتین کے تحفظ کو یقینی بنائے اور جنسی جرائم کے خلاف انتہائی سخت سزائیں مقرر کی جائے اور جن میں چند مخصوص مقدمات میں موت کی سزا بھی دی جائے،اس کے علاوہ اس بات کو لازمی قرار دیا جائے کہ ایک ایسا موثر عدالتی نظام ہو جو ان جرائم سے باآسانی نمٹ سکے اور سب اہم بات یہ ہے کہ جب تک سماج کے ماحول کو پاکیزہ نہیں بنایا جا تا تب تک اس طرح کے واقعات میں کمی لا نا ممکن نہیں انڈین میڈیکل ایشوسی ایشن کے ایک سروے کے مطابق عصمت دری کے وارداتوں کو انجام دینے والوں میں 60 فیصد نشہ خور اور 35 فیصد غلط ماحول میں پلے بڑھے لوگ ہو تے ہیں۔جب کہ پانچ فیصد عمومی واقعات ہوتے ہیں لہذا زنا کے واقعات پر قابو پانے کے لیے زانیوں کے لیے سخت قوانین کے ساتھ مذہبی رہنماؤں اور مصلحین کو ساتھ میں لے کر پاکیزہ سماج ومعاشرے کی تشکیل کی بھی سخت ضرورت ہے۔






