ایل جی اور سی ایم کے درمیان حقوق کی جنگ :سپریم کورٹ کا قابل ستائش فیصلہ

سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ بتارہاہے کہ کجریوال حکومت کی جیت ہوئی ہے ،مرکزی حکومت اور بی جے پی کی دلیل سپریم کورٹ نے مسترد کردی ہے ۔یہ الگ بات ہے کہ مین اسٹریم میڈیا میں اسے کجریوال کی فتح بتانے کے بجائے پنچایتی فیصلہ اور سمجھوتہ کہاجارہاہے
خبر درخبر (560)
شمس تبریز قاسمی
دہلی میں عام آدمی پارٹی کی حکومت بننے کے فورا بعد وزیر اعلی اور لیفٹینٹ گورنر کے درمیان حقوق کی جنگ شروع ہوگئی تھی ، عام پارٹی کا ایل جی پر مسلسل الزام تھا کہ اسے کام نہیں کرنے دیا جارہاہے ،حکومت کے فیصلوں کو ایل جی کی جانب سے مستر کردیا جاتاہے ۔ فروری 2015 میں دہلی میں کجریوال کی حکومت بنی تھی تو اس نجیب جنگ یہاں کے لیفٹیننٹ گورنر تھے اور گذشتہ ایک سال سے انل بیجل ایل جی کے منصب پر فائز ہیں ۔دونوں ایل جی نے کجریوال حکومت کو پریشان کیا ،انہیں آزادی کے ساتھ کام نہیں کرنے دیا ،جب بھی حکومت نے کوئی فیصلہ کیا ،اسمبلی سے کوئی قانون پاس کیا گیا ایل جی نے اسے مسترد کردیا معاملہ بڑھتے ہوئے سپریم کورٹ پہونچا جہاں آج دہلی کے حقیقی سربراہ کے بارے میں دوٹوک انداز میں فیصلہ سنادیاگیا ہے ۔
اب تک یہ معاملہ مشکو ک تھاکہ دہلی کا اصل سربراہ کون ہے آیا یہاں کا لیفٹیننٹ گورنر یا دہلی کی منتخب حکومت ۔سپریم کورٹ نے فیصلہ سناتے ہوئے واضح کردیاہے کہ دہلی کا اصل باس وہاں کی منتخب حکومت ہے ،عوامی رائے عامہ کے ذریعہ منتخب حکومت عوام کے سامنے جوابد ہ ہوتی ہے اس لئے اس کا خود مختار اور اپنے فیصلوں میںآزاد ہونا ضروری ہے ۔
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں یہ نصیحت بھی کہ ایل جی یاد رکھیں! دہلی کی حکومت عوام کی طرف سے منتخب شدہ حکومت ہے۔اسمبلی کے فیصلوں کے لے ایل جی کی اجازت کی ضرورت نہیں ہے۔ایل جی کا کردار قومی مفاد کا خیال رکھنا ہے۔وزراءکونسل کے فیصلوں کو ایل جی اٹکا نہیں سکتے۔دہلی کے ایل جی کابینہ کے ساتھ مل کر کام کریں۔ ایل جی کا کام حکومت کے ہر فیصلے میں روک ٹوک کرنے کا نہیں ہے۔ایل جی حکومت کو صرف صلاح دے سکتے ہیں، مجبور نہیں کر سکتے۔ہر دن کام میں رخنہ ڈالنا صحیح نہیں۔ آئین پر عمل کرنا سب کی ذمہ داری ہے۔چیف جسٹس دیپک مشرا نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ایل جی کو دہلی حکومت کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہئے۔ پولس، زمین اور عوامی حکم ناموں کے علاوہ دہلی کی اسمبلی کوئی بھی قانون بنا سکتی ہے۔ دہلی کی صورت حال دیگر مرکز کے زیر انتظام ریاستوں اور مکمل ریاستوں سے مختلف ہے اس لئے سبھی مل کر کام کریں۔۔ آئین پر عمل کرنا سبھی کا فرض ہے اور آئین کے مطابق ہی انتظامی فیصلے لئے جانے چاہئیں۔گویا سپریم کورٹ نے ایک طرح سے ایل جی کو ان کی ذمہ داریوں کا احساس دلایا ہے ۔حالاں کہ سپریم کورٹ نے یہ بھی واضح کردیاہے کہ دہلی کو مستقل ریاست کا درجہ نہیں دیاجاسکتاہے ۔
سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ بتارہاہے کہ کجریوال حکومت کی جیت ہوئی ہے ،مرکزی حکومت اور بی جے پی کی دلیل سپریم کورٹ نے مسترد کردی ہے ۔یہ الگ بات ہے کہ مین اسٹریم میڈیا میں اسے کجریوال کی فتح بتانے کے بجائے پنچایتی فیصلہ اور سمجھوتہ کہاجارہاہے ۔یہ بات سچ ہے کہ کجریوال کے منشور میں دہلی کو مستقل ریاست کا درجہ دلانا ہے جسے سپریم کورٹ نے مسترد کردیاہے لیکن ایل جی کے خلاف عام آدمی پارٹی کی لڑائی حقوق واختیارات کے سلسلے میں تھی اور اس معاملے میں سپریم کورٹ کا فیصلہ واضح طور پر کجریوال کے حق میں ہے ۔یہ دہلی کی جیت ہے ۔ عام آدمی پارٹی کا جشن منانا حق بجانب ہے ۔بی جے پی کا اخلاقی فریضہ ہے کہ وہ دہلی کی عوام سے معافی طلب کرے ۔اپنی غلطیوں کا اعتراف کرکے کہ اس نے محض سیاسی چپلقش،کجریوال حکومت کی شبیہ خراب کرنے اور عوام کو ان کے تئیں بد ظن کرنے کیلئے نجیب جنگ سے انل بیجل تک جتنے ایل جی آئے سبھی کا استعمال کیا اور انہیں وفادر غلام کی طر ح استعمال کیا ۔یہ الگ بات ہے کہ بی جے پی کے یہاں اخلاقیات اور انسانیت کا کوئی شعبہ نہیں ہے ۔اقتدار اور حکومت کے حصول کیلئے یہ پارٹی کسی بھی حدت جاسکتی ہے اس لئے یہ امید نہیں رکھنی چاہیئے کہ بی جے پی اپنی غلطی اور سپریم کورٹ کی پھٹکار پر شرمندگی کا احساس کرے گی ۔

SHARE