سرسید کے خوابوں کو شرمندہ تعبیر کررہے ہیں امیر احمد ۔جانیئے ان کی ہمہ جہت خدمات

معروف کاروباری، سماجی کارکن اورچیئرمین اینڈمنیجنگ ڈائریکٹر منپت گروپ آف کمپنیزاور منپت فاونڈیشن کے فاونڈر چیئرمین امیراحمد تعلیمی میدان میں گراں قدر خدمات انجام دے رہے ہیں ۔آپ ملک اور بیرون ملک متعدد اسکول اورکالجوں کے بورڈ آف ڈائریکٹر کے ممبر ہیں ۔ ان کا مانناہے کہ ظلمت اور جہالت کی تاریکی علم کی روشنی سے ہی مٹائی جاسکتی ہے اور اس میدان میں وہ زمینی سطح پر نمایاں کارنامہ انجام دے رہے ہیں ۔سماج کیلئے تعلیمی ،رفاہی اور معاشی شعبوں میں کام کرنے کا جذبہ رکھنے والوں کو یہ خبر ضروری پڑھنی چاہییے۔
نئی دہلی (ملت ٹائمز)
تعلیم قوموں کی ترقی اور زوال کی اہم وجہ ہوتی ہے ،تعلیم انسان کا کردارسنوارتی ہے اور شعور پیدا کرتی ہے۔ کسی بھی قوم یا ملک کی ترقی و خوشحالی تعلیم کے بنا ناگریز ہے۔ مسلمان جب تک علم سے وابستہ رہے دنیا میں ان کی حکمرانی رہی۔ تاریخ گواہ ہے کہ بغداد کے کتب خانوں کو ضائع کرنے والے جانتے تھے کہ علم وہنر کے خزانوں کو تباہ کئے بنا کسی بھی قوم کی طاقت ختم نہیں کی جاسکتی۔ دوسرے جدید معاشی ترقی بھی علم کے حصول کے بغیر ناممکن ہے۔ یہ بات تعلیمی میدان میں گراں قدر خدمات انجام دینے والے معروف کاروباری، سماجی کارکن اورچیئرمین اینڈمنیجنگ ڈائریکٹر منپت گروپ آف کمپنیزاور منپت فاونڈیشن کے فاونڈر چیئرمین امیراحمد نے کہی۔ ملک اور بیرون ملک متعدد اسکول اورکالجوں کے بورڈ آف ڈائریکٹر کے ممبر امیر احمد نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے 1973میں بی اے اور 1978میں ایم بی اے کی تعلیم حاصل کی۔ انہوں نے کہاکہ ظلمت اور جہالت کی تاریکی علم کی روشنی سے ہی مٹائی جاسکتی ہے۔ اسی پس منظرمیں 1993میں منپت فاونڈیشن کا کیرالہ میں قیام عمل میں آیاتھا۔ شبلی کالج اعظم گڑھ کے ڈائریکٹر اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی ایگزیکٹیو کونسل کے ممبر ہونے کے ساتھ متعدد رفاہی ، سماجی اور غیرسرکاری امدادی تنظیموں سے وابستہ امیراحمد نے کہاکہ ہم غربت وافلاس اورسماج میں عدم مساوات کا مقابلہ کرنے کے لیے ہندوستان اور بیرون ملک میں مختلف مقامات پر تعلیمی اداروں کے قیام کا مقصد صرف یہ ہے کہ ہم کامیاب اور باوقار زندگی کے ہدف کو پانے کے لیے تعلیم یافتہ باکردار باشعور اور تربیت یافتہ طلبا ملک کو دیںتاکہ وہ ملک کانام روشن کریں۔ تعلیمی اور کاروباری میدان میں نمایاں خدمات کے اعتراف میں متعدد سرکاری وغیر سرکاری اعزازات سے سرفراز امیراحمد نے کہاکہ ہم ان بچوں کی تعلیم کی کفالت کی بھی ذمہ داری لیتے ہیں جو وسائل نہ ہونے کی وجہ سے اسکول جانے سے قاصر ہیں۔ انہوں نے کہاکہ گرچہ تعلیمی تحریک کا سفر فرہاد کی کوہکنی سے زیادہ جاں گسل اور پرخطر ہے لیکن نیت میں اخلاص اورعزم میں پختگی ہو تو یہ سنگلاخ راستے بھی آسانی کے ساتھ عبور کیے جاسکتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ ہماری نگاہ منزل کی جانب ہے اورہمارا تعلیمی سفر کامیابی و کامرانی کے ساتھ جاری ہے۔ انہوں نے کہاکہ حالات نامساعد کیوں نہ ہوں لیکن علم کی شمع جلانے کے لیے ہمیں جو بھی قیمت چکانی پڑے گی ہم چکائیںگے۔
انہوں نے کہا کہ تعلیمی میدان میں ہماری ہرکامیاب کوشش سرسید کو خراج تحسین پیش کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ ہم وہاں وہاں روشنی کریںگے جہاں جہاں تیرگی ملے گی۔ انہوں نے کہا کہ ہم ویڑن 2040کو سامنے رکھ کر کام کررہے ہیں، جس کے تحت ہم نے اترپردیش کے ضلع مظفرنگر سے 20کلومیٹر دور پھلت میں ویڑن انٹرنیشنل اکیڈمی قائم کی ہے جس کی چوطرفہ پذیرائی ہوئی ہے،کیونکہ ملک کی تاریخ میں یہ پہلا تجربہ ہے کہ حفاظ کرام حفظ کے بعدعصری علوم بھی حاصل کریں تاکہ ملک وملت کی تعمیر میں قائدانہ رول اداکرسکیں۔ انہیں مقاصد کے تحت ویڑن انٹرنیشنل اکیڈمی کا قیام عمل میں آیا جہاں عصری علوم بھی پڑھائے جاتے ہیں ،اس کے ساتھ ان کو کمپیوٹر کی تعلیم بھی دی جاتی ہے تاکہ وہ بھی زمانہ کی رفتار کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلیں۔ یہ اکیڈمی پرائمری سے 12ویں تک ہے۔یہاں انگریزی ،حساب ، سائنس ،ہندی وغیرہ کے مضامین پڑھائے جاتے ہیں۔حفاظ کرام کے حفظ کی صلاحیت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ابتدائ میں انہیں فاو?نڈیشن کورس کراتے ہیں جس کے تحت ان کو انگریز ی وغیرہ کی واقفیت کے ساتھ الفاظ بھی یاد کرائے جاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم سرسید کے خوابوں کی تعبیر کے مطابق طلبا تیار کررہے ہیں کہ ان کے ایک ہاتھ میں قرآن اور ایک ہاتھ میں عصری علوم اور سرپر لاالہ الا اللہ کاتاج ہو۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ وزیراعظم نے بھی ایک مرتبہ کہا تھا کہ مسلم طلبا اس طرح تعلیم حاصل کریں کہ ان کے ایک ہاتھ میں قرآن اور ایک ہاتھ میں کمپیوٹر ہو۔ انہوںنے کہاکہ ہم تعلیم کے ساتھ تربیت اور صحت پر بھی خصوصی دھیان دیتے ہیں۔ صبح 5:30سے رات 10:30تک طلبا کو تعلیمی، ثقافتی ، کھیل کود وغیرہ جیسی سرگرمیوں میں مصروف رکھتے ہیں۔
انہوں نے کہاکہ طلبا کی تربیت اور تدریسی فرائض انجام دینے کے لیے قابل اورمشفق اساتذہ کی خدمات حاصل کی ہیں۔ ڈاکٹر فخرالدین وحید قاسمی اکیڈمی کو ایک نئی جہت دینے میں مصروف ہیں۔ اسی طرز پرہم اترپردیش کے ان علاقوں میں تعلیمی ادارے کھولنے کا منصوبہ بنارہے ہیں جہاں تعلیم کے حصول کے امکانات معدوم ہوچکے ہیں۔(بشکریہ روزنامہ خبریں )

SHARE