خوش حال گھر کی ضامن عورت ہی ہے!

احساس نایاب
گھر کو خوشحال اورجنت نما بنانے میں عورت کا کردار سب سے اہم ہے۔ اگر عورت چاہے تو گھر کو جنت بھی بناسکتی ہے اور دوزخ بھی ۔ صنف نازک ہونے کے باوجود اللہ نے عورت کو بہت ساری خوبیوں سے نوازا ا ہے جس کی وجہ سے ایک اکیلی عورت بڑی سے بڑی تکلیف کو برداشت کرتے ہوئے اپنے گھر خاندان کو جوڑ کر رکھنے کی صلاحیت رکھتی ہے ۔بھلے ہی خواتین جسمانی طورپر کمزور نظر آتی ہوں، لیکن ذہنی طور سےوہ بہت مظبوط ہوتی ہیں یا یوں کہنا غلط نہیں ہوگا کہ خواتین میں قوت ارادی مردوں کی بنسبت زیادہ دیکھا گیا ہے اور ان کی اسی طاقت کو اور زیادہ طاقتور بنانے میں مدد ملتی ہے۔ صنف نازک کے اندر بسے پیار ، اپناپن ، صبر ، جذبۂ قربانی اور بےلوث محبت کے ذریعہ عورت ان خاص صفات کی مالک ہونے کی وجہ سے مائیکے کے ساتھ ساتھ ایک پرائے گھر یعنی سسرال کے انجان ماحول میں اجنبی لوگوں کو کچھ ہی پل میں اپنا بناتے ہوئے خود کو ہر رنگ و روپ میں ڈھال لیتی ہے اور مرتے دم تک اپنے تمام فرائض، تمام ذمہ داریوں کو بخوبی انجام دیتے ہوئے اینٹ پتھر سے بنے مکان کو جنت بنادیتی ہے، لیکن اس کے برعکس یہی وہ عورت ہے جو اپنے غیر اخلاقی رویے سے اچھے بھلے جنت نما گھر کو دوزخ میں تبدیل کردیتی ہے ، جس کی وجہ عورت کی بدگمانی ، غلط فہمی ، گھمنڈ ، ضد اور شک ہے ،جو چھوٹی چھوٹی باتوں کو طول دیکر گھر کا ماحول بگاڑنے، نااتفاقیوں کو ہوا دینے کا کام کرتی ہے اور انہیں وجوہات سے دیکھتے ہی دیکھتے مظبوط سے مظبوط رشتوںمیں بھی دڑاڑ پڑجاتی ہے۔ ویسے تو شک اور بدگمانی والے الفاظ بہت چھوٹے ہیں لیکن ان کا اثر زہر سے زیادہ زہریلا ہوتا ہے، کیونکہ دنیا کے کسی بھی زہر میں اتنی طاقت نہیں ہے کہ وہ ایک ساتھ کئی لوگوں کی جان لے ،لیکن شک کا زہر اتنا خطرناک ہے کہ وہ ایک ساتھ کئی گھروں کو تباہ و برباد کردیتا ہے اور کسی بھی رشتے کو دیمک کی طرح اندر سے کھوکھلا کردیتا ہے۔ اور یہ شک کازہریلا بیج جس کسی مرد یا عورت کے اندر گھس جائے اسے پھلنے پھولنے میں زیادہ دیر نہیں لگتا۔ اس بیج سے نکلی شاخیں اتنی وسیع ہوتی ہیں کہ وہ خود کے ساتھ اپنے اطراف واکناف کے تمام دوست، احباب اور رشتے داروں کو ببول کے کانٹوں کی طرح چبھنے لگتی ہیں اور اسکی زہریلی ہوائیں ہرسو نفرت کا زہر گھولتی رہتی ہیں، جس کی زد میں آکر بھرا پورا خاندان برباد ہوجاتا ہے اور اسی کی وجہ سے آئے دن طلاق جیسےناپسندیدہ معاملات وقوع پذیرہوتے رہتے ہیں ۔ اسی شک اورغلط فہمیوں کے چلتے لئے گئے فیصلوں سےقوم وملت کا مستقبل کہلانے والی ہماری نسلیں تباہ ہورہی ہیں، ماں باپ کی آپسی لڑائی، نفرت انگیزحالات اورطنزیہ گفتگو کی وجہ سےبچے اپنا ہنستا کھیلتا بچپن کھو رہے ہیں۔ صحیح اورمناسب رہنمائی نہ ملنے کی وجہ سےدربدر بھٹک رہے ہیں اور دو خاندانوں کی آپسی رنجشوں کا شکار بنتے جارہے ہیں ۔
مانا انسان ہونے کے ناطے اس طرح کا رویہ فطری ہے اور آپس میں غلط فہمیاں اورنااتفاقیاں پیدا ہونا عام سی بات ہے، لیکن ان باتوں کو نہ اتنا طول دیں، نہ ہی خود پہ حاوی ہونے دیں کہ اوروں کے ساتھ اپنی اور اپنوں کی زندگی بھی عذاب بن جائے، کیونکہ یہ جو شک ، بدگمانی اور غلط فہمیاں ہوتی ہیں وہ اکثر وائرس بنکر انسان کی سوچنے سمجھنے کی طاقت و صلاحیت کو کمزور کردیتی ہیں اور ایک اچھے خاصے نارمل انسان کوبھی آہستہ آہستہ ذہنی مریض بنا دیتی ہیں،اور اس مرض کی وجہ سے وہ خود تو ہر پل بربادہوتارہتاہے اور ساتھ ہی ساتھ اپنے رشتوں میں بسی محبت، اپناپن ،اعتماد ،ایک دوسرے کے لئے عزت،پیار، احترام، خوشیاں یہاں تک کہ محبت بھرے جذبات و احساسات سب کچھ کھو دیتا ہے ، پھر زندگی عذاب اور جنت نما گھر جہنم اور اپنے سگے دوست، احباب اور ہمدردسبھی دشمن لگنے لگتے ہیں ۔اسلئے اس شک اوربدگمانی کے وائرس کو ہمیشہ کے لئے اپنی زندگی اور اپنے وجود سے دور کریں اور اللہ رب العزت کے فیصلوں پہ یقین رکھیں کہ اللہ تعالیٰ کی رضا سے جو بھی ہوگا وہ ہمارے حق میں بہترہوگا، اور اس پاک ذات کی رضا میں ہمیشہ راضی رہنا سیکھیں ، اور اس بات کو ہمیشہ ذہن شین رکھیں کہ جو اپنا ہے وہ تاعمر ہر حال میں اپنا ہی رہیگا اور جسے ہماری پرواہ ہے وہ بھلے ایک پل کے لئے بھٹک بھی جائے، لیکن اگلے ہی پل اپنی غلطی کا احساس ہوتے ہی ہمیشہ کے لئے لوٹ کر ضرور آئےگا۔ بس اپنے آپ کو،اپنے اخلاق کو اور اپنی ذات کو ہمیشہ نیک اورصالح بنائے رکھیں، اپنے اندر موجود نیک صفات اورعمدہ اخلاق کو گم ہونے نہ دیں،کیونکہ یہی عورت کا انمول زیور ہیں، جس کی موجودگی سے ہر عورت مالدار کہلاتی ہے ،ورنہ چہرےا ور جسم کی خوبصورتی ، سونے چاندی ، قیمتی جواہرات کا ہونا بھی ان نیک صفات کے آگے بےمعنی ہے ۔ اور اللہ نہ کریں کبھی حالات اتنے بگڑ جائیں کہ برداشت کرنا ناممکن ہوجائے توناچاہتے ہوئے بھی بد سے بدترحالات اور طنزیہ لب ولہجے کا سامنا کرنا پڑے تو اُس وقت خاموشی اختیار کرتے ہوئے صبرکے دامن کومضبوطی سے تھامے رکھیں اور حکمت ومصلحت سے کام لیں، اگر پھر بھی آپ اپنے آپ کو کمزور اور بے بس محسوس کریں تو لوگوں کے سامنے رونے سے بہتر اپنی ہر پریشانی اورہر معاملے کو اللہ کے دربار میں فریاد کرتے ہوئے اللہ کے حوالے کردیں اور اللہ کی بارگاہ سے انصاف مانگیں،کیونکہ جو معاملات انسانوں سے حل نہیں ہوتے اور جس کی منزل دور دور تک نظر نہیں آتی ،ان معاملات کی صحیح رہنمائی کرنااورمنزل مقصودتک پہونچانا بس اللہ تعالیٰ کاہی کام ہے۔کیونکہ انسانوں کی فطرت تو صرف آگ لگاکر تماشابیں بنے رہنا ہے، اللہ سے زیادہ اپنے بندہ کو سمجھنے اورمحبت کرنے والا دوست، ماں کی طرح ہمدرد اور مسیحا کوئی نہیں ہے، جو ہر ایک کی بگڑی بناتاہے ،جس نے مچھلی کے پیٹ سے اپنے نبی کو خیروعافیت سے نکالا،وہی ایک ذات ہے جو ہماری، آپ کی اور سبھی کی بگڑی بنا سکتا ہے۔
یاد رکھیں! کہ سچے رشتے پھولوں کی مانند ہیں، اگر ہم ان کے ساتھ سختی سے پیش آئیں گے تو وہ ٹوٹ کر بکھرجائیں گےاور ٹوٹے ہوئے پھولوں کا دوبارہ جڑنا ناممکن ہے، اس لئے پھولوں کو تاعمر تروتازہ اورمہکتا رکھنے کے لئے عورت ہونے کے ناطے اپنی سوچ سمجھ کے دائرہ کو وسیع کریں،صرف اپنے دل کو ہی اپنا رازدار بنائیں، تاکہ اپنی ذات سے کبھی کسی کو نقصان نہ پہنچے اور ہمیشہ اختلافی باتوں کو نظراندازکرتے ہوئے درگذر کرنا اور ایک دوسرے کی غلطیوں کو معاف کرنا سیکھیں، کیونکہ عورت کے حقیقی معنی ہی ہیں احساس ،پیار، محبت، صبر، ہمدردی اور قربانی کہ جو عورت کی پہچان ہونے کے ساتھ ساتھ اس کے لئے طاقتور ہتھیار اورمضبوط ڈھال کی مانند ہیں،جب تک یہ ہتھیار عورت کے پاس ہے وہ حقیقتاً عورت کہلانے کی مستحق ہے اور اپنے ساتھ اپنوں کی زندگی میں بھی خوشیاں بکھیرتے ہوئے اینٹ پتھر سے بنے گھر کو جنت بنادے گی جسے دیکھ کر ساری دنیا فخر سے یہی کہے گی کہ خوشحال گھر کی ضامن صرف عورت، عورت اورصرف اورصرف عورت ہی ہے ۔

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں