سہیل عابدین
ہندوستان ایک کثیر مذہبی ممالک میں سے ایک ہے۔ جہاں نوجوانوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ ان نوجوانوں کے لئے تعلیم کے ساتھ ساتھ روزگار بھی بے حد ضروری ہے۔ لیکن اس ملک میں نوجوان طبقہ سب سے زیادہ بے روزگار نظر آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج نوجوان طبقہ نشہ جیسی بری عادتوں سے ہر چہار جانب سے گھرتا ہوا نظر آرہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ انہیں نوجوانوں کے سر پر نئے ہندوستان کی ذ مہ د اریاں ہیں۔ لیکن نوجوان طبقہ کی ایک حقیقت بے حد چونکانے والی اور خطرے سے پر نظر آتی ہے۔ ہندوستان کا نوجوان طبقہ بڑی تیزی سے نشے کے جال میں پھنستا جا رہا ہے۔ ویسے تو نشے کی عادت سماج میں اس قدر گھر چکی ہے کہ شائد ہی کسی عمر کا ہو جو اس سے بچا ہوا ہو۔ لیکن گزشتہ کچھ سالوں میں جس طرح سے نوجوان طبقہ نشے کے جال میں پھنستا ہوا نظر آرہا ہے۔ اس سے حالات بے حد خطرناک ہو چکے ہیں۔ حالانکہ نشے کی عادت ختم کرنے کے لئے جو اقدام کئے جا رہے ہیں یا پھر نشے کے خلاف جو مہم چلائی جا رہی ہے کیا اس کا کوئی نتیجہ نکل سکتا ہے۔ ایسا فی الحال نظر نہیں آرہا ۔ اسکی سب سے بڑی وجہ نشے کی چیزیں فراہم ہونا ہے۔
پورے ملک میں نشیلی اشیاءاپنی جڑیں جمع چکا ہے۔ قابل غور ہے کہ نشہ خوری کسی ایک ریاست کا مسئلہ نہیں ہے، بلکہ ملک کی تقریباً سبھی ریاستیں اس مسئلہ سے جوجھ رہی ہیں۔ کچھ ایسی ہی ریاستوں میں پنجاب، منی پور، میزورم، دہلی ، ممبئی، کیرل، بہار اور اتر پردیش شامل ہیں۔ جہاں نشہ خوری نے تیزی سے اپنی جڑیں جمع لیں ہیں۔ جہاں ایک طرف اسکول ، کالج کے بچوں میں ڈرگس اور شراب پینا عام سی بات ہو چکی ہے۔ وہیں کچھ مہینوں پہلے دہلی میں بھی اسکول ، کالج کے طلبا کو ڈرگس کی سپلائی کرنے والے گروہ کو پکڑا گیا تھا۔ ڈرگس مافیاﺅں کے کے لئے یہ نفع خوری کرنے کا آسان راستہ بن چکا ہے۔ پچھلے تین، چار سالوں میں پنجاب میں تقریباً 45,064ٹن نشیلی دوائیاں بر آمد کی گئیں ہیں۔ دوسری جانب منی پور میں بھی نشے کی چلن تیزی سے بڑھ رہی ہے۔
آئے دن بوڈر پر متعین سپاہیوں کے ذریعہ ڈرگس کی بڑی تعداد میں پکڑے جانے کی خبریں آتی رہتی ہیں، چونکہ میانمار کی سرحدیں اس ریاست سے جڑیں ہوتی ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ اس تجارت میں ملکوں سے مدد ملتی ہے۔ منی پور کی سرحدوں سے لگے ہونے کی وجہ کر میزورم کا بھی وہی حال ہے جو منی پور کا ہے۔ ملک کی راجدھانی دہلی بھی نشہ خوری کا بڑا اڈہ بن چکی ہے۔ دہلی میں کچھ علاقے ایسے ہیں جہاں گانجا، چرس، کوکین کا دھندا تیزی سے پھل پھول رہا ہے۔ انہیں جگہوں سے ڈرگس گروہوں کے ذریعہ دوسری جگہ پر نشے کو مہیا کرایا جا تا ہے۔ پوری دنیا کے نوجوانوں کو اپنی گرفت میں لینے کے بعد جان لیوا نشیلی اشیاء نے اپنی پکر ہندوستان کے نوجوانوں پر بھی بنا لی ہے۔ آج کل دہلی، ممبئی، بنگلورو جیسے بڑے شہروں میں ڈرگس بڑی بے خوفی کے ساتھ سپلائی ہونے لگی ہے۔ جن میں گانجا، ہیروئن ا ور کوکین وغیرہ شامل ہیں۔ ڈرگس لینا آج کے دور میں فیشن سا بن چکا ہے۔ لیکن اس کے عادی بن جائیں تو اس سے بچ پا نا ممکن ہی نہیں نا ممکن سی بات ہے۔
اپنے ملک میں بھی اقتصادی ترقی، بڑھتی ہوئی خاندانی آمدنی ، انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا جیسی سہولتوں نے ایک ایسی صورت حال پیدا کر دی ہے جس میں پوری آبادی کا ایک حصہ ، خاص طور سے نوجوان طبقہ نارکوٹکس ڈرگس کی زد میں آتا جا رہا ہے۔ ملازمت پیشہ والدین اور انکی بڑی آمدنی نے بڑے شہروں میں ایک ایسا ماحول پیدا کر دیا ہے جہان ماں، باپ کے پاس بچوں کے لئے زیادہ دولت تو ہے لیکن وقت نہیں۔ روپیوں کی با آسانی فراہمی نے نوجوانوں کو نشیلی اشیاءکے ساتھ کئی لالچوں کی طرف گامزن کر دیا ہے۔
2017میں شائع ورلڈ ڈرگس رپورٹ میں اندازہ لگایا گیا ہے کہ سال 2015میں تقریباً25.5کروڑ اشخاس نے کم سے کم ایک بار ڈرگس کا استعمال کیا ہے۔ ان میں سے تقریباً 3کروڑ انسان تو ڈرگس کے عادی ہو چکے ہیں۔ فکر کی بات یہ ہے کہ ایسے ہر ایک میں سے صرف ایک شخص کا ہی علاج ہو پاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ علاج کی پہونچ بہت ہی محدود ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق نشیلی اشیا کے غلط استعمال سے تقریباً 2,50,000سے 300,000انسانوں کی ہر سال موت ہو جاتی ہے۔ یہ اندازہ زیادہ بھی ہو سکتا ہے۔ کیونکہ ہندوستان کے ساتھ ساتھ کئی ترقی یافتہ ملکوں میں ایسی موت کی پہچان نہیں کی جا سکی ہے۔ نوجوانی کی حالت میں ڈرگس استعمال کرنے کے مسائل بڑھتے ہیں اور 25سال تک پختگی آجاتی ہے۔ نشہ کی وجہ کر زیادہ تر کی موت انکی عمر کے درمیان میں ہی ہو جاتی ہے۔ اقوام متحدہ کے دسمبر 1987میں ایک اپیل کے ذریعہ یہ فیصلہ لیا تھا کہ وہ ہر ایک سال ڈرگس کی عادت اور اس سے جڑے ہوئے گروہوں کے خلاف آگاہ کرنے کے لئے 26جون کو بین الاقوامی سطح پر نشیلی اشیاء ممنوں کے طور پر منایا گیا۔ اس سے بین الاقوامی سماج کو نشیلی دواﺅں کے غلط استعمال سے راحت پانے میں مدد ملے گی اور عوام ہوشیار ہوگی۔
ہندوستان میں نشیلی دواﺅں کے غلط استعمال پر سال 2000-01میں پہلی بار اور اب تک کا ایک واحد بین الاقوامی سروے کیا گیا تھا، جس کی رپورٹ 2004میں جاری ہوئی تھی ۔ یہ لائق تحسین قدم بھی کئی وجوہات سے ادھوری رہ گئی تھی۔ ملک کے سبھی ریاستوں اور سبھی درجے اس میں شامل نہیں کئے گئے تھے اور صرف مردوں پر ہی مرکوز تھے۔لیکن حال میں مرکزی سرکار نے مسائل کی سنجیدگی کو قبول کرتے ہوئے 2017میں قومی سطح پر ایک کارآمد سروے کا اعلان کیا جس کی نوڈل تنظیمیں امس، نئی دہلی بنائی گئی۔ سروے کی آخری رپورٹ اسی سال آنے کی امید ہے۔ اس سروے میں سبھی ریاستوں کے مرد، خواتین، بچے اور طلباجیسے سماج کے سبھی کمزور طبقے کو شامل کیا گیا ہے۔ یہ ہندوستان میں نشیلی دواﺅں کے غلط استعمال کی حقیقت پر کافی توجہ ڈالے گا۔ اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ مرکز اور ریاستوں کی سرکاریں اور تبدیلی اجنسیاں اپنے اپنے مسائل پر ردعمل تیار کر سکنگے ۔ اس لئے کہ مختلف فلڈ اور ریاستوں میں نشے کی عادت ایک جیسی نہیں ہے۔ لہذا نشیلی اشیاءکے استعمال کے مسائل کو صرف اس کے عادت کو گرفت میں کرنے سے حل نہیں کیا جا سکتا۔ ضرورت ہے کہ ہم سبھی متحد ہو کر حل تلاش کریں اور اس پر عمل پیرا ہوں۔






