یوم مئی پرخاص پیشکش
شمس تبریز قاسمی کے قلم سے
یکم مئی دنیا بھر میں مزدوروں کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے ، مزدوروں کے مسائل پر بحث پر بحث و مباحثہ کا انعقاد کیا جاتاہے ،بڑی بڑی کانفرنسیں منعقد کرکے مزدوری کے عمل کو آسان بنانے کے منصوبے پر غور و خوض کیا جاتاہے ، ایئر کنڈیشن کمروں میں بیٹھ کر چلچلاتی دھوپ میں سامان دھونے والے ،کھیتوں کو جوتنے اور کدال چلانے والے کے مسائل کا تجزیہ کیا جاتا ہے اور اس طرح شکا گو سے شروع ہونے والی ایک تحریک کو یا د کرکے دنیا بھر مزدوروں کوخراج عقیدت پیش کرنے کی سعی کی جاتی ہے۔
یوم مزدور کا آغازمئی 1886ء میں محنت کشوں کی طرف سے آٹھ گھنٹے کے اوقات کار کے مطالبے سے ہوتاہے۔تاریخ میں درج واقعات کے مطابق ٹریڈ یونینز اور مزدور تنظیمیں، اور دیگر سوشلسٹک ادارے نے کارخانوں میں ہر دن آٹھ گھنٹے کام کا مطالبہ کیا۔اس دن امریکہ کے محنت کشوں نے مکمل ہڑتال کی ۔تین مئی کو اس سلسلے میں شکاگو میں منعقد مزدوروں کے احتجاجی جلسے پر حملہ ہوا جس میں چار مزدور شہید ہوئے۔اس بر بریت کے خلاف محنت کش احتجاجی مظاہرے کے لئے ( Hey market square ) میں جمع ہوئے، پولیس نے مظاہرہ روکنے کے لئے محنت کشوں پر تشدد کیا اسی دوران بم دھماکے میں ایک پولیس افسر ہلاک ہوا تو پولیس نے مظاہرین پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی جس کے نتیجے میں بے شمار مزدور شہید ہوئے اور درجنوں کی تعداد میں زخمی ،اس موقعے پر سرمایہ داروں نے مزدور رہنماؤں کو گرفتار کر کے پھانسیاں دی۔حالانکہ ان کے خلاف کوئی ثبوت نہیں تھا کہ وہ اس واقعے میں ملوث ہیں ۔انہوں نے مزدور تحریک کے لئے شہادت دے کر سرمایہ دارانہ نظام کا انصاف اور بر بریت واضح کر دی ۔ان شہید ہونے والے رہنماؤں نے کہا ۔ تم ہمیں جسمانی طور پر ختم کر سکتے ہو لیکن ہماری آواز نہیں دباسکتے اسی جدوجہد کے نتیجے میں دنیا بھر میں محنت کشوں نے آٹھ گھنٹے کے اوقات کار حاصل کئے اور یکم مئی کو عالمی یوم مزدور قراردیا گیا ۔
مزدور کا لفظ خود اپنے آپ میں بے کسی اور بے بسی کا اظہار کرتاہے ،اس پیشہ سے منسلک افراد بھی ہمیشہ بے بس اور بے کس نظر آتے ہیں ،یکم مئی کو دنیا کا دانشور طبقہ ان کی یاد میں ان کے مسائل حل کرنے کیلئے برے بڑے جلسے کا انعقا د کرتاہے لیکن افسوس کہ ان مزدوروں کو اس کی خبر ہی نہیں ہوتی ہے جس کیلئے یہ سب کیا جاتاہے ،تقریبا 99 فیصد مزدور اس بات سے نا واقف ہوتے ہیں کہ سال میں ایک دن ایسا بھی آتاہے جو ان لئے کیلئے خاص ہے، ان کیلئے خوشیاں منانے کا موقع ہے ،چھٹیاں کرکے بال بچوں کے ساتھ گزارناہے جسے دنیا بھر میں عالمی یوم مزدور کے طور پر منایا جاتاہے ۔
مزدور طبقہ پوری دنیا میں گوناگوں مسائل سے دوچار اور آلام ومصائب کا شکار ہے ،کھیتوں میں کام کرنے والے ،انسانی ضروریات کی سب سے اہم شے اناج فراہم کرنے والے ،اسٹیشنوں پر قلی بن کر سامان ڈھونے والے ، فیکٹری ،کمپنی اور کارخانوں میں کام کرنے والوں سے کوئی جاکر پوچھے کہ مزدوری کیا ہوتی ہے ،مزدور کے اوقات کس طرح گزر تے ہیں ،
ہندوستان میں بے روزگاری سب سے زیادہ ہے ،جاہل اور ناخواندہ لوگوں کے ساتھ پڑھے لکھے لوگوں کیلئے بھی ملازمت کا حصول جوئے شیر لانے کے مترادف ہوچکاہے ،کہیں مزدوری اور ملازمت ملتی بھی ہے تو بڑی مشکلوں سے اور مشقتوں سے ملتی ہے ،مزردو کا ایک طبقہ وہ ہے جو کھیتوں ،کھلیانوں ،اسٹیشنوں اور دیگر مقامات پر کام کرتاہے ،ایک طبقہ وہ ہے جو بطور چپراسی یاکلکر ک کے کسی پرائیوٹ کمپنی یا سرکاری محکمہ میں کام کرتاہے کمپنیوں میں کام کرنے والے خود کو ملازم کہتے ہیں ،مزدور کہلانا اپنی توہین سمجھتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کے مسائل بھی مزدوروں سے کم نہیں ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ ہیں ،پرائیوٹ کمپنیوں میں کام کرنے والے اکثر ملازمین خستہ حالی کے شکار اور پریشان ہوتے ہیں ،ان سے آٹھ گھنٹے کی جگہ بارہ پندہ گھنٹہ کام لیاجاتاہے ،جانوروں سے بدتر طریقہ سے کام کرایاجاتاہے ،ایک ایک لمحہ کا حساب رکھاجاتاہے ،تنخواہ اس قدر دی جاتی ہے کہ خود تنہا اس کی اپنی بھی ضرورت کیلئے وہ ناکافی ہے ،پابندی سب سے زیادہ ہوتی ہے ،یہ حال صرف معمولی کمپنیوں کانہیں بلکہ بلکہ کئی بڑی پرائیوٹ کمپنی کا بھی ہے جہاں مالکان ان کا بری طرح استحصال کرتے ہیں ،انہیں نہ پولس کا خوف ہوتاہے اور نہ ہی قانون کی پرواہ ہوتی ہے ۔
چھوٹی اور معمولی کمپنیاں تو مکمل طور پر منمانی کرتی ہیں ،تنخواہ انتہائی کم دیتی ہے اور کام 15 گھنٹہ لیتی ہے ،پل پل کی خبر رکھتی ہے ،غلام اور بندھوا مزدور کی طرح کام کراتی ہے ،مالکان او رڈائریکٹر انتہائی بدسلوکی کا مظاہر ہ کرتے ہیں ،ملازمین کو ذرہ برابر بھی اہمیت اور عزت نہیں دیتے ہیں،کچھ ایسے لوگوں کو میں جانتاہوں جو اپنے ملازم کے ساتھ بیٹھنا تک گوارا نہیں کرتے ہیں ،کام بے پناہ لیتے ہیں لیکن وقت پر تنخواہ نہیں دیتے ہیں ،کچھ کمپنیایہ کرتی ہے کہ نئے ملازمین کی بحالی کرتی ہے ،ایک دو ماہ کے بعد تنخواہ دینا بند کردیتی ہے چار پانچ ماہ بغیر تنخواہ کے ہی وہ ملازم مجبوری میں کمپنی چھوڑنے پر مجبور ہوجاتاہے لیکن اسے تنخواہ نہیں دی جاتی ہے ،وہ شخص لیبر کورٹ میں بھی اپنے مقدمہ لیکر نہیں جاسکتاہے کیوں کہ اس کے پاس وہاں کام کرنے کا کوئی پروف اور ثبوت نہیں ہوتاہے اور نہ جان بوجھ کر استحصال کرنے والے یہ مالکان انہیں آئی ڈی پروف بناکر دیتے ہیں ، ہمارے کچھ ایک احباب ایک اخبار میں کام کرتے ہیں ،انہیں چھ ماہ سے تنخواہ نہیں ملی ہے اور نہ ہی ملنے کی امیدہے ،جب وہ اپنی تنخواہ کا مطالبہ کرتے ہیں تودھمکی آمیز لہجے میں انہیں کہاجاتاہے کہ’’ خاموشی کے ساتھ کام کرو، ابھی تنخواہ نہیں ملے گی‘‘،وہ لوگ وہاں چھوڑ کر دوسری جگہ کام کرنا چاہتے ہیں لیکن انہیں کوئی متبادل جگہ نہیں مل رہی ہے کیوں کہ ایک کچھ طرف مالکان اخلاقی پستی کے شکار ہوتے جارہے ہیں تو دوسری طرف ملازمت کے بالکل ہی مواقع نہیں ہیں ،ایک انسان سوچتاہے کہ خالی بیٹھنے سے بہتر یہی ہے کہ آدمی کسی ادارے سے وابستہ رہے ۔
ہندوستان کے ساتھ دنیا کے دیگر حصوں میں کام کرنے والے ہندوستانیوں کے حالات کا بھی ذرا جائزہ لے لیجئے ،مشرق وسطی کی صورت حال سب سے زیادہ شرمناک ہے ،وہاں کام کرنے والوں کے ساتھ جانوروں جیسا سلوک روا رکھاجاتاہے ،انہیں ذرہ برابر بھی کوئی اہمیت نہیں دی جاتی ہے ،خلیج میں کام کرنے والے مکمل طور پر آزادی سے محروم ہوتے ہیں ،ویز ا کسی اور کام کیلئے آتاہے اور وہاں جانے کے بعد کسی اور کام میں لگادیا جاتاہے ،اگر و ہ کام ان کے بس نہیں ہوتا ہے پھر بھی ان سے زبر دستی کرایاجاتاہے ،کیوں کہ کفیل کے پاس ان کا پاسپورٹ جمع ہوتاہے جب تک وہ شخص اپنی مدت پوری نہیں کرے گا کفیل اسے کسی اور کمپنی میں یا کسی اور کام کیلئے اجازت نہیں دے سکتا،بھاگنے کی صورت میں پولس جیل میں ڈال دیتی ہے جس کی کسی کو خبر تک بھی نہیں ہوپاتی ہے ،جو لوگ کام کرتے ہیں وہ بھی دس طرح کی پریشانیوں سے دوچارہونے کے ساتھ اجنبی کی طرح زندگی گزارتے ہیں ،ہندوستا ن میں ان کے اہل خانہ فخر کے ساتھ کہتے ہیں کہ ہمارا بیٹا ،بھائی اور فلاں سعودی عرب میں ہے ،قطر میں ہے ۔ صورت واقعہ یہ ہے کہ ہندوستان میں ملک سے باہر ملازمت کرنا خوش قسمتی اور خوشحال فیملی کی علامت سمجھی جاتی ہے ،رشتہ تلاشتے وقت لڑکی والے عام طور پر آنکھیں بند کرکے ان لڑکوں سے شادی کرتے ہیں جن کی بارے میں یہ اطلاع ملتی ہے کہ اس کی خلیج میں ملازمت ہے ،وہ نہ اس کی تعلیمی لیاقت معلوم کرتے ہیں ،نہ خاندان معلوم کرتے ہیں اور نہ کسی اور چیز کی چھان بین کی ضرورت محسوس کرتے ہیں ان کیلئے صرف یہ بات کافی ہوتی ہے کہ ہمارا ہونے والا داماد خلیجی ممالک میں برسرروزگا ہے ،مالدار اور خوشحال ہے ،پیسہ کی کوئی کمی نہیں ہے ۔ لیکن گھروں سے ہزاروں کیلومیٹر دورر ہنے والوں سے پوچھئے کہ وہ کس قدر مشقفت بھر ی زنذگی گزارتے ہیں ،چالیس پچاس ہزرا رو وپے ماہانہ کمانے کیلئے انہیں کن کن کٹھنائیوں سے گزرناپڑتاہے ،کیسا کپڑا پہنتے ہیں ،کیا کھاتے ہیں ،مالک اور ڈائریکٹر ان کے ساتھ کس طرح پیش آتے ہیں اور پھر ان کی بیوی جدائی کے ان ایام کو کس قدر مشکلوں کے ساتھ گزارتی ہے ۔کچھ لوگ وہ ہوتے ہیں جنہیں اپنے کاموں کو بتانے کی اجازت نہیں ہوتی ہے ،وہ اتنے خوف زدہ ہوتے ہیں کہ فون پر بھی کھل کر اپنے گھروالوں اور دوست واحباب سے بات نہیں کرتے ہیں ،ہمارے ایک دوست سعودی عرب میں رہتے ہیں ان سے ہم نے کاموں کی تفصیل معلوم کی تو اس نے یہ کہتے ہوئے بتانے سے انکار کردیا کہ ہم پر پابندی عائد ہے کسی بھی ذرائع سے ہم اپنی بات نہیں بتاسکتے ہیں ،ان کے گھروالوں سے معلوم کیا تو ان لوگو ں نے بھی یہی بتایاکہ اپنے کام کے سلسلے میں وہ کچھ نہیں بتاتے ہیں ۔ان تمام باتوں کے ساتھ خلیجی ممالک کی ملازمت پر ہر وقت خطرے کی تلوار لٹکی رہتی ہے ،کبھی بھی کسی بھی وقت انہیں ہندوستان بھیج دیاجاتاہے ،ابھی حال میں ہے ایک کمپنی پر پابندی لگی تین سو ملازمین کو گھر واپسی کا لیٹر پکڑا دیا گیا جو سبھی ہندوستان ،پاکستان اور بنگلہ دیش کے تھے ۔امریکہ اور یورپ میں ملازمت کرنے والوں کی صورت حال اس سے بھی زیادہ افسوسناک ہے ،ہر طرح کی مشقتیں جھیلنے کے ساتھ وہ بے انتہاء تعصب کے شکار ہوجاتے ہیں ،صلاحیت اور قابلیت سب کچھ ہونے کے باوجود ہندوستانی اور پاکستانی کو امریکہ اور یورپ میں کوئی خاص مقام نہیں مل پاتاہے۔
یکم مئی کی پہچان اگرچہ مزدوروں کے دن کے حوالے سے ہے لیکن مزدوروں کی اکثریت اس دن کی اہمیت اور اپنے ان حقوق سے بے خبر ہے جن کی یاد یہ دن دلاتا ہے۔ وہ تو یہ کہتا ہے کہ کیا یوم مزدور نے میرے حالات بدلے ہیں؟ میں کتنے ہی ایسے ہنر مندوں کو جانتا ہوں جو جس ماحول میں پیدا ہوئے اسی میں چل بسے۔ ان کی کتنی ہی نسلیں مزدوری کی آگ میں جل چکی ہیں۔سچ بات تو یہ ہے کہ یوم مئی کی تعطیل بھی گھرمیں بیٹھ کر آرام سے بڑے لوگ ہی منا سکتے ہیں، ایک مزدور نہیں۔ یہ یوم مزدور بھی دراصل مالداروں کیلئے ہی ہے غریبوں کیلئے نہیں اور اگر یوم مزدور منانے کا مقصد مزدورں کے مسائل حل کرنا اور گولیاں کھانے والے شگاکو کے اولین مزدروں کو خراج عقیدت پیش کرناہے تو اس کی سب سے بہتر صورت یہی ہوگی کہ اس دن لوگ اپنا تمام کام خود کریں جو وہ عام دنوں میں مزدوروں سے کراتے ہیں تاکہ یہ حقیقت سمجھ میں آسکے کہ
بہت تلخ ہیں بند ہ مزردو کے اوقات
(ملت ٹائمز)
stqasmi@gmail.com