عمر فاروق قاسمی
مفتی اعجاز ارشد قاسمی اور فرح فیض کے درمیان ٹیوی شو میں جو کچھ ہوا وہ بہرکیف اچھا نہیں ہوا، لیکن اس حوالے سے ہمارے شوسل میڈیا کے مفکرین صرف مفتی اعجاز ارشد کو کٹہرا میں کھڑا کرنے کی کوشش کررہے ہیں وہ یقیناً حاسدانہ ہے، بلاشبہ نہ صرف مفتی اعجاز ارشد بلکہ مولانا عبدالرحمن عابد، مولانا انصار رضا، اور مولانا ساجد رشیدی سمیت سبھی علما کو ٹی وی دبیٹ میں جانے سے بچنا چاہیے کیونکہ ان کے مقابلے میں جو لوگ بھی لائے جاتے ہیں وہ اسلام دشمن عناصر کی پیداوار ہوتے ہیں، جو مبحث کو عمداً سمجھنا نہیں چاہتے، ایسے ڈبیٹ سے الگ تھلگ رہنا ہی بہتر لیکن یہ بھی سمجھنا ضروری ہے کہ نہ جانا مسئلہ کا حل نہیں ہے، شتر مرغ کی طرح کب تک اپنی گردن ریت میں چھپائے رہیں گے،؟ اس لیے اس کے طریقہ کار اور شرائط پر غور کرنے کے ساتھ ساتھ جانے والے کی ٹریننگ کی بھی ضرورت ہے، اس حوالے سے پر ہمارے علما بیٹھ کر غور کریں، بڑے بڑے مدارس اپنے یہاں اس کی ٹریننگ دیں البتہ فرح فیض اور مفتی اعجاز ارشد کے معاملہ میں مفتی صاحب کے جوابی یا دفاعی حملہ کو غلط نہیں کہا جا سکتا، اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ مفتی صاحب کے اس دفاعی عمل کو بھی میڈیا کے ارباب اقتدار اقدامی عمل بنا کر پیش کررہے ہیں اور چینلوں کو علماء کو بدنام کرنے کا ایک سنہرا موقع مل گیا ہے لیکن، اگر ان کی طرف سے جوابی حملہ نہ بھی ہوتا تو کیا آپ سمجھتے ہیں کہ وہ مفتی صاحب کو مظلوم، متحمل اور بردبار بناکر پیش کرتا؟ نہیں ہرگز نہیں، اس وقت بھی میڈیا کا یہی رخ ہوتا فرق صرف اتنا ہوتا کہ ابھی ان کو مارتے ہوئے دکھلا رہا ہے اس وقت مارکھاتے ہوئے دکھلاتا اور علماء کی ذلت اس سے زیادہ ہوتی، ایک عورت کے ہاتھوں پٹ گئے مولانا، ایک خاتون نے نوچی ڈارھی مفتی کی، عورت سے مار کھاکر نکلا ملا ، وغیرہ وغیرہ اور نہ جانے کیا کیا عنوانات سے اخبارات کے صفحات اور ٹیلی ویژن کے اسکرین مزین ہوتے، اور اس وقت جو ہماری ذلت ہوتی وہ ہم سننے کے لائق بھی نہیں رہتے، اور نہ جانے کتنی لکشمی ورما فرح فیض کی شکل میں آتیں اور ملاکی ڈارھیاں ان کے ہاتھوں میں ہوتیں، جوابی کارروائی سے کم از کم اسے بھی محسوس ہوگا کہ دوسرے کی آبرو سے کھیلنے والی خود بھی بے آبرو ہوسکتی ہے اور ملا کی ٹوپیاں بھی اتنی سستی نہیں ہے کہ کوئی بھی اچھال کر چلتا بنے اور محفوظ رہ جائے ، جو کچھ ہوا وہ بہرکیف اچھا نہیں ہوا، لیکن جب اقدام جارحانہ ہو تو دفاع بھی اسی سطح کا ہونا چاہیے، کیونکہ طاقت کا توازن ہی ظالم کو ظلم سے روکتا ہے،تعجب کی بات ہے کہ دوسرے کو وقت کی نزاکت کو سمجھنے کی تلقین کرنے والے مفکرین خود وقت کی نزاکت نہیں سمجھتے ہیں ، اس وقت اس نصیحت کی ضرورت نہیں تھی کہ انہیں جانا چاہیے یا نہیں یہ نصیحت بعد میں بھی کی جاسکتی ہے، ابھی تو صرف یہ دیکھنا تھا کہ تھپڑ بازی میں اقدام کس کی طرف سے ہوا اور کون حملہ آور ہے اور کون دفاعی پوزیشن میں ہے، دفاعی قدم اٹھانے سے کون سا قانون روکتا ہے؟ دفاع ہرانسان کا ذاتی حق ہے، تھپر نہ مارنے کی نصیحت کرنے والے خود کو ایک عوت کے سامنے کھڑا کرکے دیکھیں جو مجمع عام میں اسے تھپڑ مار رہی ہو اور اسے برداشت ہورہا ہو تو بلاشبہ برداشت کرنے کی تلقین کرنی چاہیے لیکن میری نظر میں شاید تلقین کرنے والے میں سے کوئی نہیں ہے جو اس حرکت کو برداشت کرلے، ذاتیات پر معمولی تحریر کا جواب لوگ جارحانہ انداز میں دیتے ہیں اور تھپڑ میں تحمل کا مشورہ دیتے ہیں، اس وقت مفتی صاحب کو تعاون کی ضرورت ہے نہ کہ تنقید کی؛ مفتی صاحب کے ڈیبیٹ کی چھبیس منٹ والی ویڈیو کا وہ حصہ بھی میں نے دیکھا ہے جس میں مارپیٹ یا جارحانہ گفتگو ہورہی ہے لال کپڑے والی کا مگرمچھ کا آنسو بھی دیکھا، مجھے نہیں لگا کہ مفتی صاحب نے کوئی زیادتی کی ہو، عنبر زیدی اور فرح بار بار بدزبانی کررہی ہے، اٹھ کر کھڑی ہورہی ہے، بےہودہ مرد، پاکھنڈی مفتی جیسے الفاظ استعمال کررہی ہے اور پھر تھپڑ کا آغاز بھی فرح کی جانب سے ہورہا ہے، بلا شبہ عورت کوئی بھی ہو قابل احترام ہے لیکن اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ آپ کسی مرد پر تھپڑ ماردیں، اور مرد تھپڑ کو بربادی کے ساتھ سہ لے آخر مرد کے بھی تو جذبات ہوتے ہیں، تھپڑ کا جواب گلاب اور گیندے کے پھول سے تو نہیں دے گا، اکیلے کی بےعزتی کو تو معاف کیا ہی جاسکتا ہے لیکن کوئی عوامی اسٹیج پر ایسی حرکت کرے تو کیسے معاف کیا جاسکتا ہے، ہم مسلمانوں کا یہ عالم ہے کہ اگر اپنا کسی معاملے میں پھنس گیا تو لوگ پرانی پرانی باتوں کو لیکر بیٹھ جاتے ہیں اور اپنے ہی میں سے ایک حصہ اس کے خلاف دلائل تلاش کرنے لگتا ہے، کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ملت کی ترجمانی کے لیے نہیں اپنی شہرت اور روپیہ کمانے کی غرض سے یہ لوگ ڈیبیٹ میں جاتے ہیں، بلاشبہ یہ بھی ہوسکتا لیکن شہرت کا طالب کون نہیں ہے، اپنے اعتبار سے ہر ایک اس کی کوشش کرتا ہے لیکن الگ بات ہے کہ کچھ لوگ ہزار خواہش کے باوجود اس مقام تک نہیں پہنچ پاتے اور مفتی اعجاز ارشد اس مقام تک پہنچ گئے، ہوسکتا ہے کہ وہ شہرت پانے کے لئے ہی گئے ہوں لیکن وہ ڈبیٹ میں صہیب قاسمی کی طرح دشمنان اسلام کی ترجمانی نہیں کرتے، اگر صرف شہرت کے طلبگار ہوتے وہ موقف کو بدل بھی سکتے تھے، مخالفین کے گودی میں بھی جاسکتے تھے، انہیں شہرت کے ساتھ حکمران طبقے کی طرف سے سیاسی بالا دستی بھی مل سکتی تھی وہ بھی شاہنواز اور نقوی کی طرح حکومت کی آواز بن جاتے اور اس گروپ سے زیادہ اس گروپ میں انہیں پزیرائی ملتی، افسوس کہ ڈبیٹ کی مکمل ویڈیو دیکھنے کے باوجود غیر تو غیر اپنے بھی اس دفاعی قدم کو جذباتی عمل بتا رہے ہیں، صحیح کہا ہے طاہر مدنی نے
پہل جس نے کی، پارسا بن گئی ہے
دفاعی پہل اب خطا بن گئی ہے






