ٹی وی پر مارپیٹ کا یہ افسوسناک منظر

سید منصور آغا
16؍جون کو ایک مقبول اردو نیوز پورٹل نے دارلعلوم دیوبند کے دار الافتاء سے 14دسمبر 2013کا جاری کردہ ساڑھے چار سال پرانا ایک فتوی (26959) نجانے کس مصلحت سے شائع کیا، جس میں کہا گیا ہے، ’’ آج کل ہمارا مسلم معاشرہ بہت بگڑا ہوا ہے، اس میں بہنوئی، دیور، چچا زاد، ماموں زاد بھائی وغیرہ کو لوگ تقریباً عملی طور پر غیرمحرم سمجھتے ہی نہیں بلکہ ان کے ساتھ ہنسی مذاق کرنا، ایک ہی دسترخوان پر کھانا کھانا، بے پردگی کی حالت میں ان کے سامنے آنا جانا بکثرت رواج پاگیاہے حالانکہ یہ سب کام گناہ اور حرام ہیں‘‘۔ فتوی طویل ہے اور اس میں جو دلائل دئے گئے ہیں اورجو نتیجہ اخذ کیا گیا ہے’ حرام ہونے‘ کا، ان پرقرآن اورسنت کی روشنی میں گفتگو کی جا سکتی ہے، لیکن اس وقت یہ اس لئے یاد آگیا کہ اسی نیوز پورٹل پر ایک قاسمی مفتی اعجاز ارشد صاحب کی ٹی وی اسٹوڈیو میں چند خواتین کے ساتھ تکرار اور ہاتھا پائی  پر مفتی صاحب کی تائید میں گویا ایک مہم چلی۔ اس پورٹل کے ایڈمن بھی اتفاق سے ہمارے ایک نوجوان قاسمی دوست ہیں۔ انہوں نے سوشل میڈیا پربھی مفتی صاحب کی تائید کی جس پرخوب بحث چلی۔ تائید کرنے والوں کا خیال تھا کہ مفتی صاحب کا ایک خاتون پر ہاتھ اٹھانا حق بجانب ہے کیونکہ پہل ادھرسے ہوئی تھی۔ بعض نے یہاں تک لکھا کہ ملت مفتی صاحب کے ساتھ ہے۔ بہت خوب۔ ہم جوش و جذبہ میں اپنی ذاتی رائے کو ملت کی رائے کہنے لگیں توکون روک سکتاہے؟
ایک صاحب نے بڑے سلیقے سے مفتی صاحب کا تعارف لکھا ، ان کی اہلیت ،ذہانت اور دوران طالب علمی دیوبند کے اساتذہ میں ان کی قدردانی کا ذکرکیا۔ عالم کی سندکے بعد وہیں سے مفتی کی سند حاصل کی۔ کچھ عرصہ وہاں خدمات بھی انجام دیں۔ اس تفصیل سے دارلعلوم دیوبند سے ان کی وابستگی کا پتہ چلا۔اس ہاتھا پائی کے بعد وہ تو 14 دن کو جیل بھیج دئے گئے، اب یہ کس سے پوچھا جائے آپ نے جس ادارے سے فراغت پائی، اس کا فتوی تو یہ کہتا ہے کہ ماموں زاد، چچازاد بھائی اور سگا بہنوئی (بہن کی حیات میں بھی) غیرمحرم ہے، اور’ ’بے پردگی کی حالت میں ان کے سامنے آنا جانا، (بے تکلف ہونا) ۔۔۔ یہ سب کام گناہ اور حرام ہیں‘‘ تو پھر آپ کے لئے غیرخواتین کے ساتھ ایک میز پر بیٹھنا اور بے تکلف ہونا کیونکر کار خیر اور جائز ہوا؟ کیا بے پردگی کی صورت میں ’گناہ اور حرام‘ کا حکم صرف خواتین کے لئے ہے، مردوں سے سوال نہ ہوگا کہ تم نے نظریں کیوں نہیں جھکالیں؟ کیا ’عالم ‘ کے لئے غیرمحرم خواتین کے ساتھ مجلسی بے تکلفی ( جس سے بچا جاسکتا ہے) مباح ہے؟ یہ دوہرا معیار کہ مفتی سے رائے مانگو تو کچھ اور اسی ادارے سے فارغ عالم اور مفتی کا عمل دیکھو تو کچھ اور! یہ کیا پیغام دیتا ہے؟
تو میرا دوست ہے، دشمن ہے، مجھے کچھ تو بتا
تیرا کردار ترازو نہیں ہوتا مجھ سے 
ہمارے لئے رہنمائی 
سوال یہ کیا جارہا ہے کہ عورت نے ہاتھ اٹھایا تو پلٹ وار کیوں نہ ہو؟ کیا عورت سے پٹ کر آجائیں؟ وغیرہ۔ بظاہر یہ باتیں معقول لگتی ہیں، مگر ذرا ٹھنڈے دل سے غورکیجئے کہ گالی کا جواب گالیوں سے دینا اور ایک چپت کا جواب تین چپت سے دینا دین کی نظرمیں پسندیدہ ہے یا ناپسندیدہ؟ کلام ربانی میں اس کے لئے جو رہنمائی وارد ہوئی ہے اسے ملاحظہ فرمائیں:
’’اپنے رب کے راستے کی طرف سمجھداری اوراچھی نصیحت کے ساتھ بلاؤ اوران سے اچھے طریقے سے بحث کرو۔ (النحل: 125) ’’اور اپنی چال میں میانہ روی اختیار کر اور اپنی آواز نیچی کر، بے شک آوازوں میں سب سے بری آواز گدھوں کی ہے‘‘۔( لقمان: 19) ’’اور اللہ نے تم پر قرآن میں حکم اتارا ہے کہ جب تم اللہ کی آیتوں پر انکار اور مذاق ہوتا ہوا سنو تو ان کے ساتھ نہ بیٹھو ۔۔۔ ورنہ تم بھی ان جیسے ہو جاؤ گے۔‘‘ ) النسا: 140) ’’اور رحمٰن کے بندے تو وہ ہیں جو زمین پر عاجزی سے چلتے ہیں اور جب جاہل لوگ ان سے (جاہلانہ) گفتگو کرتے ہیں توکہہ دیتے ہیں، تم کو سلام (الفرقان: 63) صالح افراد کی ایک شناخت یہ بتائی گئی : ’’اور جو بیہودہ باتوں میں شامل نہیں ہوتے، اور جب بیہودہ باتوں کے پاس سے گزرہوتا ہے تو بردباری سے گزر جاتے ہیں‘‘۔ (الفرقان: 72)
امید ہے کہ آپ نے اس مباحثہ کا ویڈیو دیکھا ہوگا۔نہ دیکھا ہوتواب دیکھ لیجئے اورقرآن کی ان تعلیمات کو سامنے رکھ کرطے کیجئے کہ مفتی صاحب کے رویہ کی تائید کا مطلب کیا ہوا؟ اس اسوہ کو بھی یاد کیجئے جو ہمارے آقا ﷺنے اس خاتون کے ساتھ اختیارکیا تھاجو روز آپ ؐ پر کوڑا ڈالا کرتی تھی۔ اس پر ویسے ہی جوابی وارکا جواز تھا، جیسا مفتی صاحب نے کیا۔ لیکن اسلامی کردار کا تقاضا کچھ اورہے، جس کا نمونہ حضورؐ کے عمل میں ملتا ہے۔ اسی طرح فتح مکہ کے واقعہ میں بھی راہ ہدایت ہے۔ حضورؐ نے اسلام اور اپنی جان کے بدترین دشمنوں کو معاف کر دیا یہاں تک کہ جناب ابوسفیان کے گھر کو دارالامن قرار دیدیا۔ یہ واقعات صرف سیرت کے جلسوں میں بیان کرنے کے لئے نہیں ہیں بلکہ ہمارے لئے عمل کا نمونہ ہیں۔ہماری فکرو عمل میں جھلکنے چاہئیں۔
ایک واقعہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مشہورہے ۔جب ایک دشمن اسلام کو زیرکرلیااور عنقریب تھا کہ اس کا خاتمہ کردیتے کہ اس نے حضرت علیؓ پر تھوک دیا۔ آپ فوراً اس کو چھوڑ کرالگ ہوگئے۔مجادلہ ختم کردیا، کیونکہ اب معاملہ صرف دین کی حقانیت کا نہیں رہ گیا، اپنی ذات پر حملے کا بھی شامل ہوگیا۔کس طرح خود پر قابو پایا اور نتیجہ میں وہ دشمن مشرف بہ اسلام ہو گیا۔ 
نچوڑ ان مشاہدات کا یہ ہے کہ دین کا دفاع اورنمائندگی ان ہدایات پرجمے بغیر نہیں ہوسکتی۔ جواپنی سرشت سے مجبور ہو، وہ احتیاط سے کام لے۔ اہم یہ نہیں کہ پہل کس نے کی؟ اہم یہ ہے کہ اس معرکہ میں جو صاحب اسلامی شریعت کی نمائندگی کررہے تھے انکے رویہ میں ہدایات ربانی اور اسوہ محمدی ؐ کی جھلک نظر آئی یا شیطان کی الہ کاری دکھائی دی؟ ان کے جوابی وار سے شرکت کا مقصد فوت ہوگیا اور مخالفین اسلام شاد ہوگئے۔ یہ فیصلہ ہمیں کرنا ہے کہ اس پر خوش ہونا چاہئے یا رنجیدہ؟
چونکادینے والا انکشاف
’دی وائر‘( ہندی )پر ایک پرانی ٹی وی انکر عارفہ خانم شیروانی نے اس واقعہ پر ایک چونکا دینے والی بات یہ کہی کہ لائیو ٹی وی شومیں شور شرابہ، گالم گلوچ اور ہاتھا پائی اچانک نہیں ہوجاتی، سب پہلے سے طے ہوتا ہے اور اسی کے مطابق شریک ہونے والوں کو پیسہ ملتا ہے۔ یہ بات اس لئے سمجھ میں آتی ہے کہ اس طرح کی بیہودگیوں سے ایک خاص طبقہ میں اس چینل کے دیکھنے والوں کی تعدادبڑھتی ہے ، جس سے اشتہار ملتا ہے۔ اس کے علاوہ جس سیاسی طبقہ کی دل کی مراد پوری ہوتی ہے،ایسا چینل اور ایسے لوگ اس کے کام کے بن جاتے ہیں۔ لیڈروں سے قربت بڑھتی ہے اور کئی طرح کا فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ مفتی اعجاز صاحب کے بارے میں ہم بدگمان نہیں، لیکن کچھ نہ کچھ دال میں کالا ضرور تھا ، ورنہ واردات سے پہلے موقع واردات پر پولیس موجود نہ ہوتی اورصرف مفتی صاحب ہی گرفتار نہ کرلئے جاتے۔
شک کی گنجائش
یہ مذاکرہ بھاجپا نواز ٹی وی چینل پر ہوا۔ مفتی صاحب کے ساتھ جو لوگ اس مباحثہ میں شریک تھے ان کا تعلق آرایس ایس کی تنظیموں سے بتایا جاتا ہے۔ مذاکرہ کے دوران جس طرح واقعات پیش آئے ،ان سے اس گمان کو تقویت ملتی ہے کہ جوہواوہ پہلے سے طے شدہ تھا۔ ایک خاتون کا دھاڑیں مار مار کر رونا اور پچھاڑیں کھانا، قطعی غیرفطری تھا۔ انکر کا جارحانہ انداز بھی کچھ کہتا ہے۔ جب صاف دکھائی دینے لگا تھا کہ اشتعال انگیزی ہورہی ہے تو مفتی صاحب کو باہر نکل آنا تھا۔و ہ تین مرتبہ کھڑے ہوئے مگر انکر کی ہدایت پر پھر بیٹھ گئے۔ یہ سب کیا تھا؟
قابل توجہ بات یہ بھی ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلہ کے بعد تین طلاق پر بحث کا کیا جواز رہا؟ جو فتوی اس شو میں زیر بحث تھا وہ بریلی میں جاری ہوا تھا جس سے مفتی اعجاز کا سروکارنہیں تھا، پھر کس چیز کی کشش ان کو وہاں لے گئی کہ وہ غیرمحرم خواتین کے درمیان جا کر بیٹھ گئے اور گھیرلئے گئے۔ کاش انہوں نے سوجھ بوجھ سے کام لیا ہوتا۔ 
ان بحثوں کا مقصد
یہ بات تواب سب سمجھتے ہیں کہ مسلم مطلقہ خواتین کے غیرحقیقی مسئلہ کو خاص مقصد سے بار بار اچھا لا جاتاہے ۔اگر مسلم قوم سے ہمدردی ہے تو یہ ٹی وی چینل اورسیاسی لیڈرمسلم بستیوں میں اسکولوں،پارکوں ، صحت مراکز اور صفائی ستھرائی کی کمی، صحت بخش غذا کی عدم فراہمی جیسے مسائل کوکیوں نہیں اٹھاتے؟ اگر ہمدردی خواتین سے ہے توان کو ہماری وہ ہندو بہنیں کیوں نظرنہیں آتیں جن کو شوہر کی وفات کے بعد گھر اور جائیداد سے بے دخل کر دیا جاتا ہے ۔ ایسی ہزاروں خواتین بیوہ آشرموں میں زندگی گزارتی ہیں۔ وہ ہندوخواتین کیوں نظرنہیں آتیں،جن کو بغیرطلاق چھوڑدیا گیا، یا جن پر بغیرشادی دوسری عورت لاکربٹھادی گئی اوران کی حالت نوکر سے بھی بدتر کر دی گئی؟ مفلسی، غریبی، بے روزگاری، مہنگائی، رشوت ستانی ،تعلیم اور بیماری ہندو مسلمان سب کے مشترکہ مسئلے ہیں، ان کو کیوں نہیں چھیڑتے؟ ان مسائل کو دبانے اور ان سے عوام کی توجہ ہٹانے کے لئے ہی تین طلاق، شرعی عدالت ، جناح اور اقلیتی یونیورسٹیوں میں ریزرویشن پر بحثیں چھیڑی جاتی ہیں اور ہم آلہ کار بن جاتے ہیں۔ یہ سب اس ماحول کی تیاری ہے جس میں 2019کے چناؤ میں اترنا ہے۔ 
جس ماحول میں جابجاہجومی تشدد اور مسلم کشی کی وارداتیں ہورہی ہیں اور سپریم کورٹ کی لتاڑ کے باوجود الور میں لنچنگ کی تازہ ورادات ہوگئی، جس پر مرکزی وزیر میگھوال کا یہ کہنا کہ یہ ہلاکت تو مودی کی مقبولیت سے جڑی ہے، ان کی مقبولیت جتنی بڑھے گی اتنے ہی زیادہ ایسی وارداتیں ہوں گی، اور تریپورہ کے وزیراعلیٰ کا ہجومی تشدد پریہ کہنا کہ’ریاست میں خوشی کی لہر ہے، تم بھی اس کا مزا لو۔ میرا چہرہ دیکھو میں کتنا خوش ہوں!‘ علیم الدین لنچنگ کیس میں سزا یافتہ افراد کو مرکزی وزیر سنہا کا ہار پہنانا، یہ سب کیا ہے؟ ایسے ماحول میں اگر ایک باریش، کرتا، پاجامہ اور ٹوپی پہنے عالمِ دین کے ساتھ کیمرے پر بدسلوکی ہوتی ہے ، تو یہ بھی ایک طرح کی لنچنگ ہے ۔ اس واقعہ سے سوائے ہمارے اور کسے تکلیف ہوگی؟ 
مفتی اعجاز صاحب کو ان کے مربی اساتذہ نے روکا تھا کہ ان مباحثوں میں نہ جایا کرو۔ کچھ دنوں وہ رکے رہے لیکن کیا چیز ان کوپھر وہاں لے گئی؟ مولانا عبدالحمید نعمانی صاحب کی بات میں وزن ہے کہ کچھ لوگوں کو ہلڑبازی میں مزا آتا ہے۔شہرت کی بھوک اور سیاست کی چاٹ مجبور کرتی ہے۔ اس کی تائید عارفہ خانم شیروانی نے بھی کی ۔ اس میں تو شک نہیں کہ اس افسوسناک واقعہ کے بعد مفتی صاحب کو شہرت ملی۔ مداحوں کا بھی ایک حلقہ بن گیا ہے، مگراس سے جو نقصان ہوا اس کا تدارک کیسے ہوگا؟ کیسے لوگوں کو یہ سمجھایا جائے گا کہ اسلامی تعلیمات عورت کے ساتھ نرمی برتنے اور معاف کرتے چلے جانے کی تلقین کرتی ہیں؟
آخری بات
نوجوان مفتی اعجاز ارشدصاحب کی نادانی پر اور وہ جس بلا میں گرفتار ہوگئے ہیں اس پر ہمارا دل روتا ہے۔ اب خبریہ ہے کہ مسلم پرسنل لاء بورڈ نے کوئی انکواری بٹھائی ہے۔ ہماری گزارش ہے کہ تادیبی کاروائی سے بچا جائے۔ وہ باصلاحیت نوجوان ہیں۔ ان کو اصلاح کی طرف متوجہ کیا جائے۔ ان کی ایمانی فراست کو بیدار کیاجائے کہ اپنی انا کو قابو میں کریں۔ چند ہزار کے لالچ کو چھوڑ کر ایسی محفل سے اٹھ کرچلا جانا خود پر لازم کر لیں۔ 
ہماری دوسری گزارش ہے کہ اب جب کسی کو اس طرح کے مباحثہ میں شرکت کی دعوت ملے تو کہہ دیجئے، ملک میں بیروزگاری، تعلیم ، صحت خدمات، رشوت ستانی اورغیر مسلم بیوہ خواتین کی دردشا پر غورکیا جائے ۔ ان ہندو خواتین کی بات کرو جن کو بنا طلاق چھوڑدیا گیا ، جن پر بغیرشادی لاکردوسری عورت بٹھادی گئی۔ ان کسان خاندانوں کی بات کرو جن میں خودکشی کی وارداتیں ہوئیں، اس فوجی پر بات کرو جو شہید ہوگیا اوراس کے بال بچوں کا کوئی وارث نہیں رہا۔ ان لڑکیوں کی بات کی جائے جن کی آشرموں اور شیلٹر ہاؤسوں میں جنسی استحصال ہوتا ہے۔ ان بیٹیوں کی بات کرو جو جہیز کی مارمیں کنواری ہی بوڑھی ہوجاتی ہیں۔ان اندھ وشواسوں کی بات کرو جن کی بدولت خاندان کے خاندان خودکشی کرلیتے ہیں۔ ان پڑوسی ممالک کی بات کرو جن سے تعلقات خراب ہوگئے، ان بچوں کو یاد کیا جائے جن کو اندھا کردیا گیا یا موت کی نیندسلادیا گیا۔ ان معلق خواتین کی بات کی جائے جن کے شوہر لاپتہ ہوگئے ہیں۔ دیکھئے کتنے انکرآپ کا خیرمقدم کرتے ہیں۔
syyedagha8@gmail.com

9818678677

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں