پاکستان میں اقتدار کی تبدیلی اور عمران خان کی جیت پر ہندوستان کے مسلم دانشوران کی رائے میں اختلاف ،جانیئے کس نے کیا کہا

پاکستان میں اقتدار کی تبدیلی اور عمران خان کی پارٹی پاکستان تحریک انصاف کی جیت پر ہندوستانی دانشوران کے نظریات مختلف ہیں تاہم اس بات بر سبھی کا اتفاق ہے وہاں کی ہر ایک حکومت فوج کے کنٹرول میں ہوتی ہے اورپاکستان کی کوئی بھی منتخب حکومت فوج کی مرضی کے بغیر کسی طرح کی پالیسی نہیں بناسکتی ہے ۔
نئی دہلی (ملت ٹائمز)
پاکستان میں اقتدار کی تبدیلی اور عمران خان کی پارٹی پاکستان تحریک انصاف کی جیت پر ہندوستانی دانشوران کے نظریات مختلف ہیں تاہم اس بات بر سبھی کا اتفاق ہے وہاں کی ہر ایک حکومت فوج کے کنٹرول میں ہوتی ہے اورپاکستان کی کوئی بھی منتخب حکومت فوج کی مرضی کے بغیر کسی طرح کی پالیسی نہیں بناسکتی ہے ۔
اس سلسلے میں ملت ٹائمز سے بات کرتے ہوئے ہندوستان کی مشہور ملی تنظیم آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے صدر جنا ب نوید حامد نے کہاکہ پاکستان میں انتخابات زیادہ اہمیت نہیں رکھتے ہیں کیوں کہ وہاں کا نظام آرمی چلاتی ہے البتہ دیکھنا یہ ہوگا کا آئندہ وہاں کیا ہوتاہے کیوں کہ موجودہ انتخابات کے نتائج کو پاکستان کی دو بڑی جماعتوں نے مسترد کردیاہے ۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ ہندوستان سے بہتر تعلقات بنانے کیلئے آرمی کی منظوری ضروری ہوتی ہے ،نواز شریف نے آرمی سے بغاوت کرتے ہوئے تعلقات بنانے کی کوشش کی تھی اور نظام اپنے ہاتھوں میںلے لیاتھا تو اس کا نتیجہ وہ بھگت رہے ہیں ۔مشاورت کے صدر نوید حامد نے اس بات کیلئے پاکستانی عوام کی تعریف کی کہ انہوں نے حافظ سعید جیسے لوگوں کو مسترد کردیاہے ،انہوں نے کہاکہ حافظ سعید کی پارٹی کی ضمانت تمام حلقوں میں ضبط ہوگئی اور ذرہ برابر انہیں عوامی حمایت نہیں ملی ہے پاکستان الیکشن کی یہ بڑی خبر ہے اور وہاں کی عوام اس کیلئے مبارکباد کی مستحق ہے ۔
خارجہ پالیسی کے ماہراور دہلی اقلیتی کمیشن کے چیرمین ڈاکٹر ظفر الاسلام خان نے ملت ٹائمز سے بات کرتے ہوئے کہاکہ پاکستان میں اقتدار کی تبدیلی کے بعد اشارے یہی آرہے ہیں کہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات بہتر ہوں گے لیکن اس کیلئے ضروری ہے کہ دونوں جانب عقل مندی سے کام لیاجائے اور دونوں ملک قدم بڑھائے کیوں کہ جنگ مسئلے کا حل نہیں ہے ،تنازعات سے دونوں ملکوں کی پریشانی بڑھتی ہے ۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ فوج کا عمل دخل صرف پاکستان میں نہیں بلکہ برما اور سری لنکا جیسے ملکوں میں بھی ہے اس کے باوجود ان دوپڑوسی ممالک سے ہندوستان کے تعلقات بہتر ہیں اس لئے یہ الزام درست نہیں ہے کہ فوج کی مداخلت کی وجہ سے پاکستان سے بہتر تعلقات نہیں بن پاتے ہیں ،ا س کیلئے بہتر خارجہ پالیسی اور مضبوط حکمت عملی کی ضرورت ہے ۔
مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسیٹی کے سابق چانسلر اور وزیر اعظم نریندر مودی کے قریبی سمجھے جانے والے ظفر سریش والانے ملت ٹائمز سے بات کرتے ہوئے کہاکہ ہندوستان میں اب تک جتنے وزراءاعظم یا صدرو ہوئے ہیں ان میں سے عمران ہندوستان کو سب سے زیادہ جاننے والے ہیں،ہندوستان وہ بارہاآتے رہے ہیں ،یہاں کی عوام سے ان کول لگاﺅ ہے اور یہی امید ہے کہ ان کی حکومت میں ہندوپاک کے تعلقات بہتر ہوں گے ۔ملت ٹائمز کے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ انتخابات کے دوران جو جملے بولے جاتے ہیں وہ صرف انتخابات تک محدود ہوتے ہیں ،ہمارے ملک ہندوستان میں بہت کچھ بولاجاتاہے لیکن جیتنے کے بعد پالیسی تبدیل ہوجاتی ہے ،امریکہ اور برطانیہ کے انتخابات میں بھی ہم نے اسی طرح کے انتخابی جملوں کو ملاحظہ کیاہے اس لئے انتخابی ریلیوں کی تقریر کی بنیاد پر کوئی بات کرنا بے معنی ہے ۔انہوں نے کہاکہ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کی کوئی بھی حکومت فوج کے کنٹرول سے آزاد ہوتی ہے لیکن بہتر ہوگا کہ اب فوج مداخلت کرنا بند کردے تاکہ ملک ترقی کرسکے تاہم انہوںنے امید ظاہر کی کہ ہم اس کو ایک نئی صبح کا آغاز سمجھتے ہیں ۔
معروف دانشورمولانا برہان الدین قاسمی ڈائریکٹر مرکز المعارف ایجوکیشن اینڈ ریسرچ سینٹر ممبئی نے کہاکہ اس سے قبل پاکستان میں جو لوگ اقتدار میں آئے ہیں ان کا تعلق فوج یا سیاسی گھرانے سے رہاہے تاہم عمران خان کرکٹ کے میدان سے ہوتے ہوئے سیاست میں آئے ہیں جو ایک اچھی خبر ہے اور اہم انہیں وزیر اعظم منتخب ہونے پر مبارکباد پیش کرتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ وہ پانچ سال تک وزیر اعظم کی مدت پوری کرلیں کیوں کہ اب تک وہاں کسی بھی حکومت نے پانچ سالہ مدت پوری نہیں کی ہے ۔ایک سوال کے جوا ب میں انہوں نے کہا کہ عمران خان کو خارجہ پالیسی بہتر بنانے سے زیادہ توجہ اپنے ملک میں پھیلی ہوئی انتہاءپسندی اور دہشت گردی کے خاتمہ پر دینی چاہیئے ،یہ چیزیں اگر وہاں سے ختم کرنے میں عمران خان کامیاب ہوجاتے ہیں تو اس سے پاکستان کی ترقی ہوگی اور ہمیں بھی ایک پڑوسی کی کامیابی سے خوشی ہوگی ۔مولانا قاسمی نے مزید کہاکہ حالیہ الیکشن میں وہاں کے سیاسی لیڈران نے کشمیر کی بات کم کرکے کرپشن اور دیگر موضوعات پر توجہ دی ہے جو ایک اچھی بات ہے اور ایسا لگتاہے کہ عوامی شعور ترقی کررہاہے اور جذبات کو بھڑکانے والی باتوں سے متاثر ہوکر انہوں نے ووٹنگ نہیں کی ہے ۔دونوں ملکوں کے تعلقات کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں انہوںکہ ا س معاملے میں ہندوستان بھی سرد مہری کا شکارہے اور یہاں کی جو موجودہ پالیسی کچھ

یہ بھی پڑھیں:پاکستانی سیاست میں ایک نئے سورج کا طلوع یا فوج کی خفیہ مداخلت ؟

ایسی ہے جس کے ہوتے ہوئے بہتر تعلقا ت کی امید نہیں رکھی جاسکتی ہے ۔
جماعت اسلامی ہند کے سکریٹری جناب انجینئر سلیم نے اپنا ردعمل دینے سے گریز کرتے ہوئے کہاکہ اس موضوع پر ابھی کچھ نہیں کہ سکتے ہیں ۔پوری صورت حال کا جائزہ لینے کے بعد جلد ہم اپنا ردعمل ظاہر کریں گے ۔
معروف سماجی کارکن شبنم ہاشمی نے کہاکہ اقتدار کی تبدیلی کا ددونوں ملکوں کے تعلقات پر کیا اثرپڑے گا اس بارے میں ابھی کچھ نہیں کہاجاسکتاکیوں کہ دونوں طرف انتہاءپسندلوگ ہیں تاہم یہ اچھی خبر وہاں کے الیکشن سے آئی ہے کہ پاکستانی عوام نے حافظ سعید جیسی ذہنیت کے لوگوں کو مسترد کردیاہے اور ان کی پارٹی کی ضمانت ضبط ہوگئی ،ہندوستان کی عوام کو اس سے سبق لینے کی ضرورت ہے کیوں کہ یہاں ابھی بھی اس جیسی ذہنیت کے لوگوں کو سپورٹ کرنے کا مزاج ہے،پاکستان کی عوام نے متعدد مرتبہ مار شل لا ءکے نفاذ سے سبق سیکھاہے اور انہوں نے انتہاءپسندوں کو شروع سے مسترد کیا ہے ہندوستان کی عوام بھی اب کچھ بہتر ہورہی ہے اور انتہاءپسندوں کو مسترد کررہے ہیں،انہوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ پاکستانیوں کی ذہنیت اس معاملے میں ہندوستانیوں سے بہتررہی ہے

۔یہ بھی پڑھیں:پاکستان الیکشن پر دھاندھلی کے الزامات :کیاہیں حقائق ؟

واضح رہے کہ نتیجہ آنے کے بعد عوام سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہاہے کہ بھارت کے ساتھ سب سے بڑا مسئلہ کشمیر کا ہے ، کوشش ہونی چاہیے اس کا حل میز پر بیٹھ کر نکالا جائے ، ہم تعلقات کو بہتر کرنے کیلئے تیار ہیں ، آپ ایک قدم بڑھائیں گے تو ہم آپ کی طرف دو قدم بڑھائیں گے۔انہوں نے مزید کہاکہ پاکستان کو امن کی ضرورت ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے ہمسائے ممالک کے ساتھ تعلقات بہترین ہوں۔انہوں نے کہا کہ آج مجھے تھوڑا افسوس ہوا بھارتی میڈیا کی رپورٹنگ سن کر وہ جس طرح مجھے دکھا رہے تھے مجھے ایسا لگا کہ میں شائد بالی ووڈ فلم کا کوئی ولن ہوں لیکن میں وہ پاکستانی ہوں جس کی ہندوستان میں سب سے زیادہ واقفیت ہے ، کرکٹ کی وجہ سے لوگ مجھے جانتے ہیں اور میں پورا بھارت گھوما ہوں۔

SHARE