عوام کی بھول کمل کا پھول

ڈاکٹر سلیم خان
۲۰۱۴؁ کے قومی انتخاب سے قبل یہ ہوا بنائی گئی کہ گجرات ہندوستان کی سب سے ترقی یافتہ ریاست ہے۔ ٹاٹا نے اپنی گاڑیوں کا کارخانہ مغربی بنگال سے گجرات منتقل کردیا ہے۔ ساری دنیا کے بڑے صنعتکار گجرات میں سرمایہ کاری کررہے ہیں ۔ وہاں کی سڑکیں بہترین ہیں ۔ وہاں ہر گھر میں ۲۴ گھنٹے بجلی ہے۔ وہاں پر امول ڈیری کے سبب دودھ کی ندیاں بہتی ہیں ۔ اس ترقی کا سہرا وزیراعلیٰ مودی جی کے سر ہے۔ ان کے ہاتھوں میں اگر ملک کی باگ ڈور تھما دی جائے تو جو کچھ گجرات میں ہورہا ہے وہ ملک بھر میں ہونے لگے گا۔ ہندوستان دنیا کا سب سے ترقی یافتہ ملک بن جائے گا ۔ اس ماحول کے اندر مودی جی ’سب کا ساتھ سب کا وکاس ‘ کا نعرہ لگا کر انتخابی دنگل میں اترے ۔ لوگ اس نعرے کے جھانسے میں آگئے انہوں نے تعمیر و ترقی کے لیے مودی جی کا ساتھ دیا۔ بی جے پی کے ووٹ کاتناسب ۱۹ سے ۳۱فیصد تک پہنچ گیا اور وہ اسے اکثریت حاصل ہوگئی ۔
مرکزی حکومت کے بعد مختلف صوبے یکے بعد دیگرے فتح ہوتے چلے گئے اور ملک کا بڑا حصہ زعفرانی ہوگیا ۔ بی جے پی نے خود یا اپنے حلیفوں کی مدد سے صوبائی حکومت قائم کرلی جن کو مرکزی حکومت کا آشیرواد بھی مل گیا۔ مودی جی نے اپنی حکومت کے چار سال مکمل کرلی ہیں اور بی جے پی کی کچھ صوبائی حکومتیں ۱۹ تا ۱۵ سال پرانی ہوگئی ہیں کچھ نئی ہیں اس لیے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ان کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے۔ اس کام میں گڈ گورننس نامی ادارے کی جانب سے ملک کی مختلف صوبائی حکومتوں کی کارکردگی کا موازنہ کارآمدوسیلہ ہے۔ اس ادارے نے مختلف زاویوں سے جملہ ۳۰ صوبوں کی صورتحال کا جائزہ لیا ہے ۔ ان لوگوں نے کل تین فہرستیں ترتیب دی ہیں جن میں ایک سارے صوبوں پر مشتمل عمومی درجہ بندی ہے اور پھر ۱۸ بڑے صوبوں کی ایک اور ۱۲ چھوٹی ریاستوں کی دوسری فہرست بھی ہے۔ اس سے تقابل زیادہ سہل ہوجاتا ہے۔ یہ کام چونکہ پچھلے تین سالوں سے ہورہا ہے اس لیے گزشتہ سال سے اس کا موازنہ بھی کیا گیا ہے۔ ک
عمومی درجہ بندی کے اندر پہلی پانچ ریاستوں میں بی جے پی کا ایک بھی سکہ بند صوبہ نہیں ہے۔ ہماچل چوتھے نمبر پر موجود ہے جہاں دسمبر ۲۰۱۷؁ تک کانگریس کی حکومت تھی ۔آخری پانچ صوبوں میں سب کی سب بی جے پی کی یا اس کی مخلوط حکومت ہے۔ نام نہاد آدرش گجرات جو ایک سال قبل تیسرے نمبر پر تھا اب چھٹے مقام پر کھسک گیا ہے۔ مودی جی جب وزیراعلیٰ تھے تو یہ شکایت کی جاتی تھی کہ مرکز کی کانگریس حکومت صوبے کی ترقی میں روڑا اٹکاتی ہے لیکن اب گجرات کے تیسرے سے چھٹے پر پہنچانے کی ذمہ داری کس پر ہے؟ بڑے صوبوں کی فہرست پر نظر ڈالیں تو کیرالہ پچھلے تین سالوں سے برابر پہلے نمبر پر آرہا ہے غالباً اس وجہ سے کہ وہاں بی جے پی کبھی بھی برسرِ اقتدار نہیں آئی۔ بہا راس وقت بھی آخری مقام پر تھا جب نتیش کمار آر جے ڈی کے ساتھ تھے اور بی جے پی کا ڈبل انجن لگانے کے باوجود کوئی فرق نہیں پڑا ،وہ اب بھی سب سے نیچے ہے۔ اس لیے اتحاد کی خاطر پیش کیا جانے والا جواز کہ ترقی کی رفتار دوگنی ہوجائے گی ایک فریب نکلا ۔
کیرالہ کے حالات خراب کرنے میں بی جے پی نے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ وہاں پر برسرِ اقتدار سی پی ایم کے ساتھ قتل وغارتگری کا سلسلہ جاری ہے اور آئے دن یا تو سی پی ایم کا کوئی کارکن مارگرایا جاتا ہے یا سنگھ کے کسی سیوک کو قتل کردیا جاتا ہے اس کے باوجود صوبوں کی درجہ بندی میں اس کا پہلے مقام پر قائم و دائم رہنا اس بات کا ثبوت ہے کہ بی جے پی نے انتخاب جیتنے کے فن میں کمیونسٹوں کو ضرور بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے مگر حکومت چلانے کے معاملے میں وہ ہنوز طفل مکتب ہے۔ اسی زمرے میں تلنگانہ جیسے نوزائیدہ صوبے کا ۱۳ ویں مقام سے چھلانگ لگا کر تیسرے پر آکر گجرات کوپچھاڑ دینا مودی جی اور شاہ جی کے لیے شرمناک ہے۔وہ تو خیر بی جے پی کو کرناٹک میں حکومت سازی کا موقع نہیں ملا ورنہ کون جانےید ورپاّ اسے چوتھے مقام سے کھسکا کر کہاں لے جاتے؟
اس سال راجستھان، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڈھ میں صوبائی انتخابات منعقد ہونے والے ہیں۔ ان تینوں صوبوں کی کارکردگی پچھلے سال کے مقابلے خراب ہوئی ہے۔ بڑے صوبوں کی مخصوص فہرست میں چھتیس گڈھ پہلے ۸ ویں مقام پر تھا اب ۱۰ ویں پر ہے۔ راجستھان ۷ویں سے ۱۱ پر جا پہنچا ہے اور مدھیہ پردیش کا حال سے زیادہ خراب ہے ۔ وہ ۱۲ویں سے ۱۶ ویں درجہ پر فائز ہوگیا ہے۔ ان لوگوں کو چاہیے تھا کہ کم ازکم انتخابی سال میں اپنی کارکردگی سدھارتے لیکن جب مرکزی حکومت کو اس سے بے پرواہ ہے تو بھلا صوبائی حکومت کیوں فکرمند ہو؟ یہ اس خوش فہمی کا شکار ہیں کہ بے وقوف عوام کو آپس میں لڑا کر انتخاب جیت جائیں گے اور جو کسر رہ جائے گی اسے مودی جی کی خطابت سے پورا کردیا جائے گا۔ یہ درست ہے کہ عوام ان جائزوں کو نہیں پڑھتے لیکن یہ رپورٹ جس صورتحال کو بیان کرتی ہے اس کو عام لوگ بھگتتے ہیں۔اس لیے بعید نہیں عوام اپنی دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہ اس بار فسادیوں کوسبق سکھائیں۔ ویسے عام آدمی اسے احمق سمجھنے والوں کی غلط فہمی کو انتخابی نتائج سےدور کرتا رہا ہے ۔
اتر پردیش کے یوگی جی اپنے آپ کو مودی جی سے بھی دو قدم آگے سمجھتے ہیں اسی لیےفرماتے ہیں ’مجھ سے معانقہ کرنے سے قبل راہل دس بار سوچے گا‘۔ اس کے معنیٰ یہی ہوئے کہ میں مودی جیسا ایرا غیرا نتھو خیرا نہیں ہوں کہ کوئی بھی مجھ سے گلے مل لے ۔ اس کا بلا واسطہ جواب راہل گاندھی نے یہ دیا کہ اب بی جے پی ارکان پارلیمان کا جب سامنا ہوتا ہے تو وہ گھبرا کر اس خوف سے پیچھے ہٹ جاتے ہیں کہیں میں گلے نہ مل لوں؟ بی جے پی کے عظیم دانشور ڈاکٹر سبرامنیم سوامی نے وزیراعظم کو معانقے کے بعد طبی معانہ کرانے کا مشورہ دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ شمالی کوریا اور روس وغیرہ میں گلے ملتے وقت زہریلی سوئی چبھا کر ماردیا جاتا ہے لیکن مودی جی نے تو روس اور کوریا میں خوب معانقہ کیا اس وقت سوامی کو یہ خیال نہیں آیا۔ خیر اس جملۂ معترضہ سے پرے اتر پردیش کواتم پردیش بنانے دعویٰ کرنے والے یوگی جی ایک سال پہلے کی بہ نسبت دوپائیدان نیچے یعنی ۲۳ سے ۲۵ ویں پہنچے ہیں جبکہ ۲۰۱۶؁ میں اکھلیش کی زیر قیادت یوپی ۲۲ ویں مقام پر تھا ۔اس لحاظ سے ترقی کے بجائے انحطاط ہوا ہے۔
بچوں اور خواتین کی با بت پی اے آئی کی رپورٹ کے مطابق نیچے سے ۷ ریاستیں بی جے پی کی ہیں اوراترپردیش سب سے زیادہ خراب حالت میں ہے۔ عمومی فہرست میں چھٹے نمبرپر رہنے والا گجرات اس معاملے میں ۲۲ ویں مقام پر ہے۔ قوم کا مستقبل ہونے کے باعث بچے سب سے زیادہ توجہ کے مستحق ہوتے ہیں۔ بچوں کا مخصوص جائزہ بتاتا ہے کہ آخر کے پانچوں صوبے بی جے پی کے زیر اقتدار ہیں ۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ دولت اور جھوٹ مثلاً بیٹی بچاو بیٹی پڑھاو جیسا نعرہ لگا کر انتخاب جیت لینا جس قدر سہل ہے حکومت چلانا اتنا آسان نہیں ہے۔ اس لیے عقل بازار میں نہیں بکتی اور جھوٹ کے پاوں نہیں ہوتے ۔ جرائم ا ور نظم و نسق کی بابت سب سے بری حالت ہریانہ اور جھارکھنڈ کی ہے۔ آخر کے ۶ صوبوں میں اڑیسہ کے علاوہ سب بی جے پی کے ہیں جن میں سے ایک یوپی بھی ہے۔ ایسے میں یوگی جی کو پولس کی انکاونٹرس کی چھوٹ پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔ ان بنیادی مسائل کی روشنی میں انتخاب دوران عوام کو اپنی رائے دینا چاہیے لیکن کیا بی جے پی اس کی اجازت دےگی ؟ جی نہیں ، یہ تو خودکشی کرنے جیسا ہے۔ اسی لیے طلاق، حلالہ، گئوتنک واد، رام مندر اور وندےماترم جیسے فروعی مسائل میں عوام کو الجھاکر الیکشن جیتا جاتا ہے۔

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں