محمد علم اللہ
پرسون واجپئی اے بی پی نیوزسے الگ کیاہوئے یاکردیے گئے، ملت میں صف ماتم بچھ گئی ہے، کئی حلقوں سے اس پر تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے، فی نفسہ یہ اچھی بات ہے، ہمیں صحافت کی آزادی کے لئے آواز اٹھانی چاہئے ؛لیکن ساتھ ہی یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ جب ان کے اپنے مفاد کی بات آتی ہے، تو سب ایک ہو جاتے ہیں، خواہ وہ رویش ہوں،ملندکھانڈیلکر، ابھیسارشرمایا کوئی اور۔اس سلسلے میں بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر اور ابھی حال ہی میں شہریت کے قومی اندراج (این آرسی) کے ذریعے 40 لاکھ افراد کو شک کے دائرے میں لے آنے والے معاملے سمیت ہزاروں مسائل بکھرے پڑے ہیں ،جن کو انہی میڈیا والوں نے بگاڑا ہے یا راست طور پر اس کو بگاڑنے میں شریک رہے ہیں،آخر ہم کب بیدار ہوں گے؟ ہم کب تک اپنی کم مائیگی اور بے بضاعتی کا شکوہ کرتے رہیں گے؟
آج بلا تمہید مجھے یہ بات کہنے کا من کرتا ہے کہ اب پانی حد سے اوپر اٹھ گیا ہے، اب واقعی وقت آگیا ہے کہ ملت کے ارباب حل و عقد اس پر غور و خوض کریں اور ہندوستان میں ایک توانا آواز کو زندہ کرنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں،جو لوگ ملی صحافت کے نام پر دلالی کر رہے ہیں ، ہندوستان میں ملی صحافت کا نام لیکر کروڑوں روپئے اپنے پیٹ میں ڈال رہے ہیں، وہ بھی اب ملت کو بخش دیں اور اگر آپ سے یہ کام نہیں ہوتا، تو آپ اس سے دست بردار ہو جائیں اور کسی دوسرے کو سونپ دیں یا موقع دیں؛ تاکہ وہ اسے بہتر ڈھنگ سے کر سکیںیاکم ازکم ایسے لوگ اپنے ذاتی یا چند لوگوں کے مفادات کی خاطر پوری قوم کو تو رسوا نہ کریں!
میں اور زیادہ کچھ نہ کہتے ہوئے معروف مفکر اور سماجی کارکن نوم چومسکی کے ذریعے ‘میکسیکو ‘کے ایک دورے سے واپس لوٹنے کے بعد 2009میں تحریر کئے گئے ایک سفرنامہ میں وہاں کی ایک چھوٹی سی کمیونٹی کی جانب سے جاری کردہ ایک انگریزی اخبار ’’لاجورناڈا‘‘کا ذکر کرنا چاہوں گا ،اس اخبار، اس کے ذمہ داران اور اس کمیونٹی کی تعریف کرتے ہوئے نوم چومسکی نے اسے دنیا کے لئے ایک آئیڈیل قرار دیا تھا، نوم چومسکی کی تحریر کا وہ حصہ یہاں دہرائے جانے کے قابل ہے۔
نوم چومسکی نے لکھا تھا کہ 1984میں جاری ہونے والے اس اخبار نے انتہائی کم مدت میں وہاں سے نکلنے والے اخبارات میں پہلا مقام حاصل کر لیا،یہی نہیں ؛بلکہ اس اخبار نے اپنی خبروں، تبصروں اور تجزیوں سے وہاں کی حکومت کو بھی ہلا کر رکھ دیا اور بسا اوقات تو ایسا ہوا کہ حکومت کو بھی اس اخبار اور اس کے ذمہ داران کی پالیسی کے موافق فیصلہ طے کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔
نوم چومسکی نے لکھا ہے کہ جب یہ اخبار اپنی 25؍ ویں سالگرہ کی تقریب منا رہا تھا، تب تقریب کے دوران اس کے بانی سربراہ کارلوس پیان نے بتایا کہ اخبار کی شروعات کے وقت تقریباً 800 ؍ سرمایہ کار وارد ہوئے تھے اور انہوں نے ہزار پیسا (76 امریکی ڈالر) فی حصص کے طور پر شراکت کی، ان شراکت داروں میں اسی کمیونٹی کا ’’کارلوس سلم‘‘ بھی موجود تھا، جو آج دنیا کا تیسرا امیر ترین شخص ہے ،مگر اس وقت وہ ایک معمولی سا سرمایہ کار تھا، علاوہ ازیں میکسیکو کے دو مشہور مصور ’’رفینو تمایو‘‘ اور’’فرانسسکو ٹولیڈو‘‘ نے اپنی بیش قیمت تصاویر کے ذریعے ’’لاجورناڈا‘‘کے اصل سرمایے میں انمول اضافہ کیا،اس کمیونٹی سے تعلق رکھنے والا ہر شخص اس اخبار کو خرید کر پڑھتا ہے،بڑی تعداد میں کمیونٹی کے لوگ اشتہارات دیتے ہیں،اس کا نتیجہ ہے کہ یہ اخبار اپنے پاؤں پر کھڑا ہے اور وقتا فوقتا کئی رفاہی کام بھی انجام دیتا رہتا ہے؛چنانچہ 1989میں میکسیکو میں جب زلزلہ آیاتھا، تو اس اخبار نے تقریبا 30؍ہزار زندگیوں کی بازآبادکاری میں نمایاں کردار ادا کیاتھا۔
نوم چومسکی نے لکھا ہے کہ اس اخبار کو دیکھنے کے بعد مجھے اور میرے ساتھیوں کو اپنے اس خیال کو بدلنا پڑا کہ اخبار محض کارپوریٹ گھرانوں کے مرہون منت ہوتے ہیں۔اس اخبار کی بابت نوم چوسکی کی کن کن باتوں کا تذکرہ کیا جائے کہ انھوں نے تو اس پر پورا ایک مضمون تحریر کیا ہے، جو بہر حال پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے اور ایک زندہ اور متحرک قوم یعنی اہلِ اسلام کو جھنجھوڑتا ہے کہ ان کی تو اولین ذمہ داریوں میں سے ایک یہی تھی کہ وہ حق اور سچ کو صحیح ڈھنگ سے لوگوں تک پہنچانے کے لیے زیادہ فعالیت کا مظاہرہ کر تے؛ لیکن ان کا رویہ قابلِ افسوس ہے۔کیا مسلم قوم بھی میکسیکو کی اس کمیونٹی کی طرح بیدار ہوگی؟ اپنی آواز کو تقویت بخشنے کے لیے کچھ کرے گی؟ اس پر یقینی طور سے کچھ نہیں کہا جا سکتا ؛لیکن بہر حال یہ امید ضرور رکھی جا سکتی ہے کہ مسلمانانِ ہند ایک زندہ اور متحرک قوم ہونے کا ثبوت حقیقی معنوں میں پیش کریں گے اور عملی قدم اٹھاتے ہوئے ایک ایسی تحریک کووجودبخشیں گے، جو ہندوستان میں عملی طور پر ان کے اجتماعی وجود کو منوا سکتی ہے،حکومتوں کے فیصلوں پراثراندازہو سکتی ہے اور ان کے مسائل کو دنیا کے سامنے مضبوطی کے ساتھ پیش کر سکتی ہے۔






